ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کسی بیوہ سے اس وقت تک شادی نہ کی جائے جب تک اس کا حکم نہ معلوم کر لیا جائے اور کسی کنواری سے اس وقت تک نکاح نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لے لی جائے۔“ صحابہ نے پوچھا: اس کی اجازت کا کیا طریقہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”یہ کہ وہ خاموش ہو جائے۔“ پھر بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہا اگر کسی شخص نے دو جھوٹے گواہوں کے ذریعہ حیلہ کیا (اور یہ جھوٹ گھڑا) کہ کسی بیوہ عورت سے اس نے اس کی اجازت سے نکاح کیا ہے اور قاضی نے بھی اس مرد سے اس کے نکاح کا فیصلہ کر دیا جبکہ اس مرد کو خوب خبر ہے کہ اس نے اس عورت سے نکاح نہیں کیا ہے تو یہ نکاح جائز ہے اور اس کے لیے اس عورت کے ساتھ رہنا جائز ہو جائے گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحِيَلِ/حدیث: 6970]
ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے، ان سے ذکوان نے، اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کنواری لڑکی سے اجازت لی جائے گی۔“ میں نے پوچھا کہ کنواری لڑکی شرمائے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی خاموشی ہی اجازت ہے۔ اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کوئی شخص اگر کسی یتیم لڑکی یا کنواری لڑکی سے نکاح کا خواہشمند ہو۔ لیکن لڑکی راضی نہ ہو اس پر اس نے حیلہ کیا اور دو جھوٹے گواہوں کی گواہی اس کی دلائی کہ اس نے لڑکی سے شادی کر لی ہے پھر جب وہ لڑکی جوان ہوئی اور اس نکاح سے وہ بھی راضی ہو گئی اور قاضی نے اس جھوٹی شہادت کو قبول کر لیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ یہ سارا ہی جھوٹ اور فریب ہے تب بھی اس سے جماع کرنا جائز ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحِيَلِ/حدیث: 6971]
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حلوہ (یعنی میٹھی چیز) اور شہد پسند کرتے تھے اور عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنی ازواج سے (ان میں سے کسی کے حجرہ میں جانے کے لیے) اجازت لیتے تھے اور ان کے پاس جاتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئے اور ان کے یہاں اس سے زیادہ دیر تک ٹھہرے رہے جتنی دیر تک ٹھہرنے کا آپ کا معمول تھا۔ میں نے اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی قوم کی ایک خاتون نے شہد کی ایک کپی انہیں ہدیہ کی تھی اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا شربت پلایا تھا۔ میں نے اس پر کہا کہ اب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک حیلہ کروں گی چنانچہ میں نے اس کا ذکر سودہ رضی اللہ عنہا سے کیا اور کہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے یہاں آئیں تو آپ کے قریب بھی آئیں گے اس وقت تم آپ سے کہنا یا رسول اللہ! شاید آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ اس پر آپ جواب دیں گے کہ نہیں۔ تم کہنا کہ پھر یہ بو کس چیز کی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت ناگوار تھی کہ آپ کے جسم کے کسی حصہ سے بو آئے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب یہ دیں گے کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا تھا۔ اس پر کہنا کہ شہد کی مکھیوں نے غرفط کا رس چوسا ہو گا اور میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی بات کہوں گی اور صفیہ تم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہنا چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سودہ کے یہاں تشریف لے گئے تو ان کا بیان ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ تمہارے خوف سے قریب تھا کہ میں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات جلدی میں کہہ دیتی جبکہ آپ دروازے ہی پر تھے۔ آخر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریب آئے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا پھر بو کیسی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا ہے میں نے کہا اس شہد کی مکھیوں نے غرفط کا رس چوسا ہو گا اور صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جب آپ تشریف لے گئے تو انہوں نے بھی یہی کہا۔ اس کے بعد جب حفصہ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم گئے تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ شہد میں پھر آپ کو پلاؤں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی ضرورت نہیں۔ بیان کیا ہے کہ اس پر سودہ رضی اللہ عنہا بولیں۔ سبحان اللہ یہ ہم نے کیا کیا گویا شہد آپ پر حرام کر دیا، میں نے کہا چپ رہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحِيَلِ/حدیث: 6972]
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعبنی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبداللہ ابن عامر بن ربیعہ نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (سنہ 18 ھ ماہ ربیع الثانی میں) شام تشریف لے گئے۔ جب مقام سرغ پر پہنچے تو ان کو یہ خبر ملی کہ شام وبائی بیماری کی لپیٹ میں ہے۔ پھر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ کسی سر زمین میں وبا پھیلی ہوئی ہے تو اس میں داخل مت ہو، لیکن اگر کسی جگہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو وبا سے بھاگنے کے لیے تم وہاں سے نکلو بھی مت۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ مقام سرغ سے واپس آ گئے۔ اور ابن شہاب سے روایت ہے، ان سے سالم بن عبداللہ نے کہ عمر رضی اللہ عنہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حدیث سن کر واپس ہو گئے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحِيَلِ/حدیث: 6973]
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا ‘ ان سے زہری نے ‘ ان سے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے کہ انہوں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ وہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون کا ذکر کیا اور فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے جس کے ذریعہ بعض امتوں کو عذاب دیا گیا تھا اس کے بعد اس کا کچھ حصہ باقی رہ گیا ہے اور وہ کبھی چلا جاتا ہے اور کبھی واپس آ جاتا ہے۔ پس جو شخص کسی سر زمین پر اس کے پھیلنے کے متعلق سنے تو وہاں نہ جائے لیکن اگر کوئی کسی جگہ ہو اور وہاں یہ وبا پھوٹ پڑے تو وہاں سے بھاگے بھی نہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحِيَلِ/حدیث: 6974]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
14. بَابٌ في الْهِبَةِ وَالشُّفْعَةِ:
14. باب: ہبہ پھیر لینے یا شفعہ کا حق ساقط کرنے کے لیے حیلہ کرنا مکروہ ہے۔
اور بعض لوگوں نے کہا کہ اگر کسی شخص نے دوسرے کو ہزار درہم یا اس سے زیادہ ہبہ کئے اور یہ درہم موہوب کے پاس برسوں رہ چکے پھر واہب نے حیلہ کر کے ان کو لے لیا۔ ہبہ میں رجوع کر لیا۔ ان میں سے کسی پر زکوٰۃ لازم نہ ہو گی اور ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف کیا جو ہبہ میں وارد ہے اور باوجود سال گزرنے کے اس میں زکوٰۃ ساقط ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحِيَلِ/حدیث: Q6975]
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنے ہبہ کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے کو خود چاٹ جاتا ہے ‘ ہمارے لیے بری مثال مناسب نہیں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْحِيَلِ/حدیث: 6975]
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ کا حکم ہر اس چیز میں دیا تھا جو تقسیم نہ ہو سکتی ہو۔ پس جب حد بندی ہو جائے اور راستے الگ الگ کر دئیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ شفعہ کا حق پڑوسی کو بھی ہوتا ہے پھر خود ہی اپنی بات کو غلط قرار دیا اور کہا کہ اگر کسی نے کوئی گھر خریدا اور اسے خطرہ ہے کہ اس کا پڑوسی حق شفعہ کی بنا پر اس سے گھر لے لے گا تو اس نے اس کے سو حصے کر کے ایک حصہ اس میں سے پہلے خرید لیا اور باقی حصے بعد میں خریدے تو ایسی صورت میں پہلے حصے میں تو پڑوسی کو شفعہ کا حق ہو گا۔ گھر کے باقی حصوں میں اسے یہ حق نہیں ہو گا اور اس کے لیے جائز ہے کہ یہ حیلہ کرے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحِيَلِ/حدیث: 6976]
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابراہیم بن میسرہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے عمرو بن شرید سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے میرے مونڈھے پر اپنا ہاتھ رکھا پھر میں ان کے ساتھ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے یہاں گیا تو ابورافع نے اس پر کہا کہ اس کا چار سو سے زیادہ میں نہیں دے سکتا اور وہ بھی قسطوں میں دوں گا۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ مجھے تو اس کے پانچ سو نقد مل رہے تھے اور میں نے انکار کر دیا۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی زیادہ مستحق ہے تو میں اسے تمہیں نہ بیچتا۔ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا میں نے سفیان بن عیینہ سے اس پر پوچھا کہ معمر نے اس طرح نہیں بیان کیا ہے۔ سفیان نے کہا کہ لیکن مجھ سے تو ابراہیم بن میسرہ نے یہ حدیث اسی طرح نقل کی۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص چاہے کہ شفیع کو حق شفعہ نہ دے تو اسے حیلہ کرنے کی اجازت ہے اور حیلہ یہ ہے کہ جائیداد کا مالک خریدار کو وہ جائیداد ہبہ کر دے پھر خریدار یعنی موہوب لہ اس ہبہ کے معاوضہ میں مالک جائیداد کو ہزار درہم مثلاً ہبہ کر دے اس صورت میں شفیع کو شفعہ کا حق نہ رہے گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحِيَلِ/حدیث: 6977]