امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے مالک بن انس رحمہ اللہ سے اس سند کے ساتھ ایسی ہی حدیث بیان کی ہے (جیسی کہ اوپر گزر چکی ہے)[مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 71]
تخریج الحدیث: «مذکورہ بالاحدیث میں تخریج گزر چکی ہے۔»
کثیر اعرج نے کہا کہ ہم ”ذی صواری“(جگہ)پر تھے اور ہمارے ساتھ ابوفاطمہ ازدی بھی تھے، ان کی پیشانی اور گھٹنے کثرت سجود کے سبب سیاہ ہوچکے تھے۔ (انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں کہ میں جس پر استقامت اختیار کروں اور اسے بجا لاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سجدوں کو لازماً اختیار کر لو۔ کیوں کہ بے شک تو اللہ کے لیے ایک سجدہ بھی کرے گا تو اس کے بدلے اللہ تیرا ایک درجہ ضرو ر بلند کرے گا اور اس کے سبب تیرا ایک گناہ یقینا معاف کرے گا۔“)[مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 72]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 457، سنن ابن ماجة: 1422، مسند احمد: 3/428۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔»
سیدنا ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ (ان کے ہاں)(اترے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کاموں کے لیے باقی رہا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب سورج ڈھل جاتا یا ٹیڑھا ہوجاتا ہے یا جیسے میں نے کہا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے کسی کام میں مصروف ہوتے تو آپ اسے چھوڑ دیتے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوتے تو گویا ہم آپ کو اس کے لیے بیدار کردیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے، غسل یا وضو کرتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعتیں پڑھتے، انہیں مکمل کرتے، خوبصورت کرتے اور انہیں خوب اطمینان و تمکین سے ادا فرماتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہمارے گھر سے)جانے کا ارادہ فرمایا تو میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ایک مہینہ رہے اور یقینا میں نے جانا کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے خیر و بھلائی سے بھر دیے گئے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب کاموں کو جاننے کے لیے آپ کے ساتھ رہا (مسنون اعمال کا خوب مشاہدہ کرنے کے لیے)، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب سورج ڈھل جاتا یا ٹیڑھا ہوجاتا، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کوئی کام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے چھوڑ دیتے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار کیا جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل یا وضو فرماتے، پھر چار رکعتیں پڑھتے، آپ انہیں مکمل کرتے، خوبصورت کرتے اور انہیں خوب اطمینان و تمکین سے ادا فرماتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک آسمان کے دروازے اور جنت کے دروازے اس گھڑی اس کے لیے کھول دیے جاتے ہیں۔ جو بندہ اس نماز کے ساتھ تو میں نے پسند کیا کہ میرے لیے، میرے رب کی طرف اس گھڑی میں خیر و بھلائی چڑھ۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 73]
تخریج الحدیث: «سنن ابوداؤد: 1270، جامع ترمذی مع تحفة الأحوذي: 348/1 (459)، سنن ابن ماجۃ: 1157۔ امام ترمذی نے فرمایا: ’’حدیث عبد اللہ بن السائب حدیث حسن غریب‘‘۔»
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ بے شک دعا عبادت ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (آیت)پڑھی:﴿ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾ (المؤمن: 60)”اور تمہارے رب نے فرمایا: مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔“[مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 74]
تخریج الحدیث: «جامع ترمذي، تفسیر القرآن، باب ومن سورة البقرة: 2969، سنن أبي داؤد: 1479۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام بیان کرتے ہیں کہ بے شک عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما مسجد میں داخل ہوئے تو ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھیں۔ ایک آدمی نے ان سے کہا: اے ابویقظان! یقینا میں نے انہیں یاد کرلیا ہے۔ فرمایا کہ کیا تو نے مجھے دیکھا کہ میں نے ان کی حدود میں سے کوئی چیز کم کی ہے، لیکن میں نے ان میں تخفیف کی ہے، میں نے ان دونوں کے ساتھ، بھولنے سے جلدی کی ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک آدمی یقینا نماز پڑھتا ہے اور شاید کہ اس کے لیے اس کی نماز میں سے نہیں ہوتا، مگر اس کا دسواں، نواں، آٹھواں، ساتواں اور یا پانچواں حصہ۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 76]
تخریج الحدیث: «مسند أحمد: 18894۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
معدان بن ابی طلحہ یعمری نے کہا کہ مجھے ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تیری رہائش کہاں ہے؟ میں نے کہا کہ حمص سے پہلے ایک بستی میں۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو کوئی بھی تین آدمی، جو کسی بستی یا دیہات میں رہتے ہوں، ان میں نماز نہ قائم کی جاتی ہو تو لازماً شیطان ان پر غالب آجاتا ہے، پس تو جماعت کو لازم پکڑ، بے شک بھیڑیا دور چلنے والی (بکری)کو کھاجاتا ہے۔ سائب(بن حبیش)نے کہا کہ جماعت سے آپ کی مراد نماز والی جماعت ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 77]
تخریج الحدیث: «سنن أبي داؤد: 547۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے جھوٹ نہ چھوڑا اور اس کے ساتھ عمل کرنا (نہ چھوڑا)اور جہالت (نہ چھوڑی)تو اللہ کو اس کے کھانے اور پینے چھوڑنے کی کوئی حاجت نہیں۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 78]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کئی روزے دار ایسے ہیں کہ اس کے لیے اس کے روزے سے بھوک کے سوا کچھ نہیں اور کئی قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ اس کے لیے اس کے قیام سے سوائے بیداری کے کچھ نہیں۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 79]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة: 1690۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ کے راستے میں دو جوڑے خرچ کیے، اسے جنت میں منادی دی جائے گی، اے اللہ کے بندے! یہ بہتر ہے۔ اگر وہ نماز والوں سے ہوا تو اسے نماز کے دروازے سے آواز دی جائے گی اور اگر وہ زکوۃ والوں سے ہوا تو اسے زکوٰۃ کے دروازے سے آواز دی جائے گی اور اگر وہ جہاد والوں سے ہوا تو اسے جہاد کے دروازے سے آواز دی جائے گی اور اگر وہ روزے والوں سے ہوا تو اسے باب ریان (بہت سیراب کرنے والا)سے آواز دی جائے گی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان، اس بات کی کوئی ضرورت تو نہیں کہ ان تمام دروازوں سے کسی کو آواز دی جائے (لیکن)کیا کوئی ایسا ہے کہ جسے ان تمام دروازوں سے ہی آواز دی جائے؟ فرمایا کہ ہاں اور میں امید کرتا ہوں کہ تو انہی میں سے ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 80]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1897، 2841، 3216، 3666، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1027، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1006، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2480، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 308، 3418، 3419، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2237، 2438، 3135، 3183، 3184، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2231، 2558، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3674، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18635، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7748، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1212، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 2970، 6161 الزهد، ابن مبارك: 467، صحیح مسلم: 7/115، رقم: 85، 86، صحیح البخاری: 4/90، موطا: 3/50، مسند احمد: 2/366، مستدرك حاکم: 2/87۔»