محمد بن عبد الملک نے بیان کیا کہ بے شک مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس داخل ہوئے اور وہ دروازے کے پاس تھے، (بلوائیوں نے)ان کا محاصرہ کر رکھا تھاتو (مغیرہ رضی اللہ عنہ نے)کہا: تین چیزوں میں سے ایک چیز کا انتخاب کریں، یا تو ہم آپ رضی اللہ عنہ کے لیے اس دروازے کے علاوہ جس پر وہ (بلوائی)ہیں، ایک اور دروازہ جلا دیا جائے تو آپ نکل جانا، پھر اپنی سواری پربیٹھنا اور مکہ چلے جانا، وہ آپ کو جب کہ آپ وہاں ہوں گے ہرگز شیریں محسوس نہ کریں گے اور یا آپ اپنی سواری پر بیٹھیں اور شام چلے جائیں۔ بے شک وہ اہل شام ہیں اور ان میں معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ یا آپ جو آپ کے ساتھ ہیں، انہیں لے کر نکلیں، یقینا آپ کے ساتھ بڑی تعداد اور قوت ہوگی، آپ لڑائی کریں، آپ حق پر ہیں اور وہ باطل پر ہیں۔ اس پرعثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: رہی تیری یہ بات کہ میں اپنی سواری پرنکلوں یہاں تک کہ مکہ پہنچ جاؤں تو بے شک وہ، مجھے جب کہ میں وہاں ہوا، ہرگز شیریں نہ سمجھیں گے، بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: قریش کا ایک آدمی مکے میں الحاد کرے گا، اس پر جہان کا عذاب بہایا جائے گا، سو میں ہرگز وہی نہیں ہوں گا، رہی تیری یہ بات کہ میں اپنی سواری پر بیٹھوں اور شام چلاجاؤں، بے شک وہ اہل شام ہیں اور ان میں معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں تو میں ہرگز اپنے دارالہجرت کو اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوسں کو نہیں چھوڑوں گا اور رہی تیری یہ بات کہ میں ان کو جو میرے ساتھ ہیں، لے کر نکلوں، تو میں ہرگز وہ پہلا نہ ہوں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی، ناحق خون بہانے سے شیشی بھر کر، مخالفت کرے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 261]
تخریج الحدیث: «مسند أحمد: 1/67، مجمع الزوائد: 270/3۔ علامہ ہیثمی اور شیخ شعیب نے اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔»
ابوبردہ بن ابی موسیٰ بیان کرتے ہیں کہ ہم ”ربذہ“ سے گزرے تو اچانک ایک ڈیرہ اور خیمہ تھا، ہم نے کہا کہ یہ کس کا ہے؟کہا گیا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کا ہے۔میں ان کے پاس داخل ہوا اور کہا: اللہ آپ پر رحم کرے۔ آپ لوگوں کی طرف کیوں نہیں نکلتے، یقینا آپ اس معاملے میں ایسے مرتبے پر ہیں کہ آپ کی بات سنی جائے گی، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک بات یہ ہے کہ عن قریب فتنہ اور افتراق ہوگا تو تم اپنی تلوار کو احد کی چوڑائی پرمارنا اور اپنے تیر کوتوڑ دینا اور اپنی تانت کو کاٹ دینا اور اپنے گھر میں بیٹھ جانا۔ کہا کہ میں نے وہی کیا جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا اور اچانک ایک تلوار خیمے کے ستون سے بندھی تھی،انہوں نے اسے سونت لیا اور ناگہاں ایک تلوار لکڑی کی تھی، پھر کہا: میں نے یقینا اپنی تلوار کے ساتھ وہی کیا جس کا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اور اسے میں نے تیار کیا ہے، اس کے ساتھ لوگوں کو ڈراتا ہوں۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 262]
تخریج الحدیث: «مسند أحمد: 1/67، سنن ابن ماجة: 3962۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک قیامت سے پہلے ایسے فتنے ہوں گے،گویا وہ اندھیری رات کے ٹکڑے ہوں، آدمی ان میں صبح مومن ہوگا اور شام کافر اور شام کومومن ہوگا تو صبح کافر، لوگ اپنا حصہ (دین)دنیا کے معمولی سامان کے بدلے بیچ دیں گے یا (فرمایا)دنیا کے سامان کے بدلے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 263]
حسن نے کہا کہ یقینا اللہ کی قسم کہ جس کے سوا کوئی معبود و برحق نہیں، ہم نے ان کو دیکھا، شکلیں ہیں، عقلیں نہیں ہیں،جسم ہیں، فہم و شعور نہیں ہے۔ آگ کے پتنگے ہیں، طمع و لالچ کی مکھیاں ہیں، صبح نکلتے ہیں دو درہموں کے ساتھ اور لوٹتے ہیں دو درہموں کے ساتھ، ان میں سے کوئی ایک بکری کی قیمت کے بدلے اپنا دین بیچ ڈالتا ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 264]
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 18404۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح لغیرہ‘‘ کہا ہے۔»
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بے شک ایک روز انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برسر منبر فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! کہا کہ اور وہ کنگھی کروا رہی تھیں تو اس عورت سے جو ان کی کنگھی کر رہی تھیں، کہا تجھ، پر افسوس، میرا سر چھوڑ دے، وہ بولی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم محض لوگوں کو بلا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ کیا ہم لوگوں میں سے نہیں ہیں، سو انہوں نے اپنا سر لپیٹا اور اپنے حجرے کے پیچھے کھڑی ہو گئیں اور سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: اے لوگو! بے شک میں اس دوران کے حوض پر ہوں گا، جب تمہیں کئی گروہوں کی صورت گزارا جائے گا، تو تمہیں اور راستوں پر لے جایا جائے گا، میں تمہیں آواز دوں گا، سنو! اس راستے کی طرف آؤ، تو ایک منادی میرے پیچھے سے آواز دے گا، بے شک انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد (دین)بدل دیا تھا، میں کہوں گا: خبردار! دوری ہے۔ دوری ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 265]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2295، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11396، وأحمد فى «مسنده» برقم: 27189، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 32318، 38334، والطبراني فى «الكبير» برقم: 661، 662، 996، 997، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 8714 صحیح مسلم، الفضائل: 29۔ 15/56۔»
محمد بن ابی عبد الرحمن بن لبیبہ نے بیان کیا کہ بے شک عمر بن سعد اپنے باپ (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ)کے پاس گیا، جو عقیق میں اپنی علیحدہ زمین پر موجود تھے اور کہا: اے ابا جان! اصحاب بدر اور اہل شوریٰ میں سے آپ رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی باقی نہ رہا۔ اگر بے شک آپ رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو اٹھائیں اور لوگوں کے لیے خود کو کھڑا کریں، تو دو آدمی بھی آپ پر اختلاف نہیں کریں گے، انہوں نے فرمایا کہ اے میرے بیٹے! میں اس کا جواب دوں گا، میں بیٹھا رہا، یہاں تک کہ جب میری زندگی چوپائے کے تیزی سے گزرنے جتنی رہ گئی ہے، پھر میں نکلوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے بعض کو بعض سے لڑا دوں۔ بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا ہے: یقینا بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کر جائے اور سب سے بہتر ذکر، مخفی ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 266]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 809، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1495، 1496، 1579، 1580، 1645، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 731، وعبد بن حميد فى "المنتخب من مسنده"، 137، وأورده ابن حجر فى "المطالب العالية"، 3282، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 30279، 35518 صحیح مسلم، الزھد: 18/100، رقم: 11، صحیح ابن حبان: 2/125 (الموارد)577، مسند أحمد (الفتح الرباني): 19/125، المقاصد الحسنة، سخاوي: 206۔»
قیس بن عباد نے بیان کیا کہ ہم نے عمار رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کا اپنی لڑائی کے بارے میں کیا خیال ہے، کیا یہ ایک رائے ہے جو آپ نے قائم کی ہے، بے شک رائے غلط بھی ہو سکتی ہے اور درست بھی یا کوئی عہد ہے جو عہد رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کیا ہو؟ تو انہوں نے فرمایا: ایسی کسی چیز کا عہد ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا، جو باقی تمام لوگوں سے نہ کیا ہو۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 267]
قیس بن عباد نے کہا کہ ہم علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، وہ جب بھی کسی اجتماع گاہ میں حاضر ہوتے، یا کسی ٹیلے پر چڑھتے، یا کسی وادی میں اترتے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتے۔ میں نے بنو یشکر کے ایک آدمی سے کہا کہ ہمارے ساتھ امیر المؤمنین کی طرف چل۔ یہاں تک کہ ہم ان سے ان کے قول، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ کہا کہ متعلق سوال کریں، سو ہم ان کی طرف چلے اور کہا: اے امیر المؤمنین! ہم نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ جب بھی کسی اجتماع گاہ میں حاضر ہوتے ہیں یا کسی ٹیلے پر چڑھتے ہیں تو کہتے ہیں: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا، کیا اس بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کا عہد لیا ہے؟ تو انہوں نے اعراض کر لیا اور ہم نے ان پر اصرار کیا تو فرمایا: اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کسی چیز کا عہد نہیں لیا، سوائے اس چیز کے جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے عہد لیا، لیکن لوگ عثمان رضی اللہ عنہ پر کود پڑے اور انہیں شہید کر دیا اور میرے علاوہ اس (خلافت)کے بارے، میری نسبت زیادہ ابتر حالت اور برے کام والا تھا، میں نے سمجھا کہ بے شک میں ہی ان کی نسبت اس کا زیادہ حق دار ہوں، پس میں اس پر براجمان ہوگیا، اللہ زیادہ جانتا ہے کہ ہم نے خطا کھائی یا درستی کو پہنچے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 268]
تخریج الحدیث: «مسند أحمد: 1207۔ شیخ شعیب نے اسے ’’علی بن جدعان‘‘ راوی کی وجہ سے ضعیف کہا ہے۔»
قطبہ بن مالک نے کہا کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: علی بن ابی طالب کون ہیں؟ تو زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: سنیں! یقینا آپ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوت شدگان کو برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے تو آپ علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کیوں کہہ رہے ہیں، حالاں کہ وہ فوت ہوچکے ہیں۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 269]
تخریج الحدیث: «مسند أحمد: 19288، حلیة الأولیاء، ابو نعیم: 7/236، مجمع الزوائد، ہیثمی: 8/76۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کو تدفین سے قبل ان کی چارپائی پر رکھا گیا تو لوگوں نے اسے گھیرلیا اور دعائیں کرنے لگے، میں بھی ان کے ساتھ تھا: مجھے صرف ایک آدمی نے گھبراہٹ میں ڈالا، جس نے پیچھے سے میرے کندھے کو پکڑ رکھا تھا، میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے لیے رحمت کی دعا کی اور فرمایا:آپ نے اپنے پیچھے ایسا کوئی نہیں چھوڑا جو مجھے آپ سے زیادہ پسند ہو کہ میں اس کے عمل کی مثل عمل کے ساتھ اللہ سے ملوں۔ا للہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ اللہ آپ رضی اللہ عنہ کو آپ کے دونوں ساتھیوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ)کے ساتھ کر دے گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں بارہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”میں گیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ گئے، میں داخل ہوا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے، میں نکلا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نکلے۔ سو میرا یقین ہے کہ اللہ آپ کو ضرور ان دونوں کے ساتھ کر دے گا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 270]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة: 98، مستدرك حاکم: 3/68۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»