سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، جس طرح کہ میں تمہارے اندر کھڑا ہوا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں! اس آدمی کا خون حلال نہیں جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سواکوئی معبودبرحق نہیں اور بے شک میں اللہ کا رسول ہوں، مگر تین آدمیوں میں سے ایک کا: جان بدلے جان کے اور شادی شدہ زانی اور جماعت سے علیحدہ ہونے والا، اپنے دین کو چھوڑ دینے والا یا فرمایا: اسلام کو ترک کر دینے والا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 251]
سیدنا صنابحی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں اور بے شک میں تمہاری کثرت کے سبب امتوں پر فخر کرنے والا ہوں۔ سو تم میرے بعد قطعاً مت لڑنا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 252]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6575، 6576، 7049، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2297، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3057، وأحمد فى «مسنده» برقم: 3713، 3889، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5168، 5199، والبزار فى «مسنده» برقم: 1684، 1708، 1709، 1756، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 32317، والطبراني فى «الكبير» برقم: 10402، 10409 صحیح بخاري، الرقاق: 11/395، الفتن: 13/3، سنن ابن ماجة: 3944، مسند احمد: 4/351، صحیح ابن حبان: (الموارد)459۔»
عبد الرحمن بن عائذ بیان کرتے ہیں کہ بے شک سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ مسجد اقصیٰ میں آئے اور اس میں نماز پڑھی،ا نہیں کچھ لوگ ملے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے لگے، انہوں نے کہا کہ تم کیسے آئے؟ کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحبت ہے، ہم آئے ہیں تاکہ آپ کو سلام کہیں اور آپ سے سنیں۔ فرمایا کہ اتر و اور نماز پڑھو، پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو مرا اور کسی چیز کو بھی اللہ کا شریک نہ بنایا اور حرام خونوں میں سے کسی چیز کو نہ بہایا، وہ جنت میں، جنت کے دروازوں میں سے جس سے چاہے گا، داخل ہوجائے گا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 253]
ابو نضرہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس نے حدیث بیان کی جو منیٰ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبے میں حاضر ہوا تھا، اس نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایام تشریق کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے لوگو! بے شک تمہارا رب ایک اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے۔ سنو! کسی عربی کی کسی عجمی پرکوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کی، کسی عربی پر اور نہ کسی سیاہ کی سرخ پر اور نہ کسی سرخ کی سیاہ پر، سوائے اللہ کے تقوے کے، دیکھو! کیا میں نے پہنچا دیا؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنچا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لازم ہے جو موجود ہے اسے پہنچا دے جو غائب ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ مہینہ کون سا ہے؟ انہوں نے کہا کہ حرمت والا مہینہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دن کون سا ہے؟ انہوں نے کہا کہ حرمت والا دن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ شہر کون سا ہے؟ انہوں نے کہا کہ حرمت والا شہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک تمہارے خون اورتمہارے مال (راوی نے کہا کہ)اور میرا خیال ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور تمہاری عزتیں تمہارے لیے قابل احترام ہیں، جس طرح تمہارے اس شہر میں، تمہارے اس مہینے میں تمہارے اس دن کا احترام ہے۔ سنو! کیا میں نے پہنچا دیا؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنچا دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو لازم ہے کہ جو موجود ہے،ا سے پہنچا دے جو حاضر نہیں ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 254]
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 23489۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے لوگوں سے لڑائی کا حکم دیا گیا ہے، یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، پس جب وہ کہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور انہوں نے ہمارے قبلے کی طرف رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا اور ہماری نماز پڑھی تو یقینا ہم پر ان کے خون اور مال حرام ہوگئے، سوائے ان کے حق کے، ان کے لیے وہ (حقوق)ہیں جو مسلمانوں کے لیے ہیں اور ان پر وہ (فرائض)ہیں جو ان (باقی مسلمانوں)پر ہیں۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 255]
تخریج الحدیث: «صحیح بخاري: 393، حلیة الأولیاء، ابو نعیم: 8/173، تاریخ بغداد: 10/464، التلخیص الحبیر، ابن حجر: 4/25۔»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جابیہ (مقام(پر خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا: ہمارے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، جس طرح میں تمہارے اندر کھڑا ہوا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے متعلق خیر کی وصیت قبول کرو، پھر ان لوگوں کے بارے میں جوان کے بعد آئیں گے، پھر ان لوگوں کے متعلق جو ان کے بعد آئیں گے، پھر جھوٹ عام ہوجائے گا، یہاں تک کہ بے شک آدمی، اس سے قبل کہ اس سے مطالبہ کیا جائے، گواہی دینی شروع کر دے گا اور مطالبے سے پہلے قسم اٹھانی شروع کر دے گا، تم میں سے جوجنت کا درمیان چاہتا ہے وہ جماعت کو لازماً پکڑ لے۔ بے شک شیطان اکیلے کے ساتھ ہے اور وہ دو سے زیاد ہ دور ہے اور تمہارا کوئی ہرگز کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہیں ہوتا، مگر شیطان ہی ان دونوں کا تیسرا ہوتا ہے اور جسے اس کی نیکی خوش لگے اور گناہ برا لگے تو وہ مومن ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 256]
تخریج الحدیث: «مستدرك حاکم: 1/114، 115، جامع ترمذي: 2165۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے»
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے اوپر ایسے حکمران ہوں گے، جو اپناحق پہچانیں گے اور (تمہارے حق کا)انکار کریں گے۔ جس نے انکار کیا تو یقینا وہ نجات پا گیا اور جس نے ناپسند کیایقینا وہ سلامت رہا لیکن جو راضی ہوا اور تابع داری کی۔ کہا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم ان کو قتل نہ کریں؟ فرمایا: نہیں، جب تک وہ نماز پڑھیں۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 257]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1854، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4760، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2265، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6599، وأحمد فى «مسنده» برقم: 27171،والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1700، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6980، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20681، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 38451، والطبراني فى «الكبير» برقم: 760، 761، 762، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 4745 صحیح مسلم، الإمارة: 12/243، رقم: 63، 64۔»
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تمہارے بہترین حکمران وہی ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں اور تم ان کے لیے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے دعا کرتے ہیں اور تمہارے برے حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرتے ہو اور وہ تم سے نفرت کرتے ہیں، تم ان پر لعنت کرتے ہو اور وہ تم پر لعنت کرتے ہیں۔ کہا کہ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو کیا ہم اس وقت ان کے ساتھ اعلان جنگ نہ کر دیں؟ فرمایا: نہیں، جب تک وہ نماز کو قائم رکھیں، مگر وہ شخص کے اس کے اوپر ایسا حکمران بنا کہ اس نے اس کو دیکھا کہ وہ اللہ کی نافرمانی میں سے کسی چیز کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اس اللہ کی معصیت کو جس کا وہ ارتکاب کرتا ہے، ناپسند کرے اور اطاعت سے قطعاً ہاتھ نہ کھینچے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 258]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1855، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4589، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2839، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16720، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24614، 24633، والبزار فى «مسنده» برقم: 2752، والطبراني فى «الكبير» برقم: 115، 116، 117 صحیح مسلم، الإمارة: 12/244، 245، رقم: 65، 66، سنن دارمي: 2/232۔»
سیدنا عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک قصہ یہ ہے کہ عن قریب خود غرضی، فتنے اور ایسے امور ہوں گے، جن کا تم انکار کرو گے،ا نہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جو یہ پائے تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم دیتے ہیں؟فرمایا کہ تم وہ حق ادا کرنا جو تم پر ہے اور جو تمہارا حق ہے وہ تم اللہ سے مانگنا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 259]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3603، 7052، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1843، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4587، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2190، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16712، وأحمد فى «مسنده» برقم: 3714، 3715، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 295، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5156، والبزار فى «مسنده» برقم: 1767، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 38420، والطبراني فى «الكبير» برقم: 10073، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 6893، والطبراني فى «الصغير» برقم: 985 صحیح بخاري، الفتن: 13/4، صحیح مسلم،ا لإمارة: 12/232، رقم: 45، مسند أحمد (الفتح الرباني)23/28، طبراني صغیر: 2/80، حلیة الأولیاء، ابو نعیم: 4/146، 5/57، 7/131۔»
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے فرمایا: اے ابو ذر! تو کیسے کرے گا جب لوگ بھوکے ہوں گے۔ یہاں تک کہ تو طاقت نہ رکھے گا کہ اپنے بسترسے اپنی مسجد کی طرف اور اپنی مسجد سے اپنے بستر کی طرف کھڑا ہو سکے؟ میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پاک دامنی اختیار کرنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیسے کرے گا، جب لوگ مر جائیں گے، یہاں تک کہ گھر نوکر کے ساتھ ہوگا؟ میں نے کہا کہ اللہ اوراس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ صبر کرنا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیسے عمل کرے گا، جب لوگ باہم لڑائی کریں گے حتی کہ بھیڑئیے کا بل پہچانا جائے گا؟ میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ توآنا جس سے تو ہے۔میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے کہ اگر مجھ پر آیا گیا ہو تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھر میں داخل ہوجانا۔ میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال ہے اگر مجھ پر آیا گیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو ڈرے کہ تلوار کی چمک تجھ پر غالب آجائے گی تو اپنی چادر کا کنارہ اپنے چہرے پر ڈال لینا، وہ تیرے گناہ اور اپنے گناہ کے ساتھ لوٹے گا۔ میں نے کہا کہ کیا میں اسلحہ نہ اٹھاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تب تو اس کا شریک بن جائے گا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 260]
تخریج الحدیث: «صحیح ابن حبان (الموارد)460، مسند احمد (الفتح الرباني)24/14، مستدرك حاکم: 4/423، 424، 2/57، حلیة الأولیاء، ابونعیم: 8/2، سنن ابوداؤد: 4261۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»