سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی مثل حدیث بیان کی ہے۔تخریج: صحیح بخاري، الشرکة: 14، باب الشرکة فی الرقیق: 5؍103۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 231]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے غلام میں سے حصہ آزاد کر دیا تو اس پر،اپنے مال میں سے اسے آزاد کرانا، لازم ہے، مگر اس کے پاس مال نہ ہو تو غلام کی قیمت، انصاف والی لگائی جائے گی، پھر اس سے کوشش کا مطالبہ کیا جائے گااور کوئی مشقت نہیں ڈالی جائے گی۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 232]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد رضی اللہ عنہ سے کہا اور عتبہ کافر اور سعد رضی اللہ عنہ مسلمان تھے، بے شک میں تجھے تاکید کرتا ہوں کہ زمعہ کی لونڈی کا بیٹا، میرا بیٹا ہے اور زمعہ بنو عامر بن لوی کا ایک فرد تھا، جب تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے سے ملے تو اسے لے لینا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب فتح (مکہ)کا دن تھا تو سعد رضی اللہ عنہ زمعہ کی لونڈی کے بیٹے سے ملے تو کہا، میر ابھتیجا اور اسے سینے سے لگا لیا، عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بلکہ وہ میرا بھائی ہے، وہ میرے باپ کے بستر پر، اس کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے، سو وہ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے گئے اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بلکہ وہ تیرا بھائی ہے، وہ میرے باپ کے بستر پر، اس کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (عتبہ)جیسی مشابہت دیکھی، لوگوں نے اس سے واضح شباہت نہ دیکھی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تیرے لیے ہے اے عبد بن زمعہ! بچہ بستر کے لیے ہوتا ہے اور اے سودہ رضی اللہ عنہا! اس سے پردہ کر۔“ تو اس نے انہیں نہ دیکھا، یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئیں۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 233]
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ بے شک ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: بے شک میری ایک لونڈی ہے اور میں ارادہ رکھتا ہوں کہ اس کے پاس آؤں اور اسے روک کر رکھوں (حاملہ ہونے سے)بچاؤں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاـ: سنو! بے شک جس کا اللہ ارادہ کرے، یہ چیز اسے قطعاً رد کرنے والی نہیں ہے، یا فرمایا: کہ جس کا اللہ ارادہ کر لے، اسے کوئی چیز روکنے والی نہیں ہے، پھر وہ آدمی آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک میری اس لونڈی نے بچہ پیدا کیا ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 234]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1439، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4194، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9030، 9048، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2173، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1136، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 89، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2243، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14418، 14419، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14569، 14586، 15372، 15406، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1295، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1910 صحیح مسلم، النکاح: 10/13۔»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ اسی دوران ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، جب بنو فزارہ کا ایک بدوی آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک میری بیوی نے سیاہ رنگ کا بچہ پیدا کیا ہے اور وہ اس وقت اس کا انکار کرنے والا تھا، اس نے یہ صرف اپنے سے اس (بچے)کی نفی کرنے کے لیے کہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا رنگ کیا ہے؟ اس نے کہا: سرخ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: کیا ان میں کوئی گندمی بھی ہیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ ان میں خاکستری اونٹ بھی ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: یہ کہاں سے آگئے؟ اس نے کہا: مجھے نہیں معلوم، الا یہ کہ کسی رگ نے انہیں کھینچا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور اس (بچے)کو بھی شاید کسی رگ نے کھینچا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا کہ اسے اس کی نفی کی رخصت دیں۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 235]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5305، 6847، 7314، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1500، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4106، 4107، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3509، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5642، 5643، 5644، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2260، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2128، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2002، 2003، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14358، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7310، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1115، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5869، 5886، والبزار فى «مسنده» برقم: 7693، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 4667 صحیح بخاري، الطلاق: 12/147، صحیح مسلم، اللعان: 1/135، رقم: 18، 20، 41، جامع ترمذي، الولاء والهبة: 6/326، سنن ابي وداؤد، الطلاق: 6/349، سنن ابن ماجة: 2002، 2003، مسند احمد: 2/273، 234، 279، التلخیص الجیر: 3/226۔»
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بے شک ایک آدمی نے اپنا غلام، قرض کے باوجود آزاد کر دیا تو وہ محتاج ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پکڑا اور فرمایا: اسے مجھ سے کون خریدے گا؟ تو اسے نعیم بن عبداللہ نے اتنے اتنے میں خریدا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اس کے سپرد کر دیا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 236]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2141، 2230، 2231، 2403، 2415، 2534، 6716، 6947، 7186، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 997، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2445، 2452، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3339، 3342،، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2547، 4656، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3955، 3957، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1219، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2615، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2512، 2513، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 439، 440، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7849، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4258، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14349، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1256، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 90، 2111، والطبراني فى «الصغير» برقم: 1149 صحیح بخاري، کفارات الأیمان: 11/507، صحیح مسلم، الأیمان: 11/141، 142، رقم: 58، 59، جامع ترمذي: 4/411 فی کتاب البیوع، سنن ابي داؤد: العتاق: 10/494، مسند أحمد (الفتح الرباني)1/245، سنن بیهقي: 1/308، 309، تاریخ بغداد: 4/238، التلخیص الحبیر: 4/215، نصب الرایة، زیلعي: 3/285۔»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”ولاء“ کو بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے، مگر بے شک عبید اللہ نے ہبہ کا ذکر کرنا بھول گئے یا اسے ذکر نہیں کیا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 237]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2156، 2169، 2535، 2562، 6752، 6756، 6757، 6759، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1506، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1284، 1286، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4948، 4949، 4950، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2869، 8082، 8083، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4663، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2915، 2919، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1236، 2126، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2614، 3200، 3201، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2747، 2748، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 276، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12509، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4649، والحميدي فى «مسنده» برقم: 653، والطبراني فى «الكبير» برقم: 13625، 13626، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 50، 1318 صحیح بخاري، العتق: 5/126، الفرائض: 12/35، صحیح مسلم: العتعق: 10/148، جامع ترمذي، البیوع: 4/435، الولاء والهبة: 6/321، سنن ابي داؤد، الفرائض: 133/8، مسند طیالسي: 1/264، سنن دارمي: 2/287، مستدرك حاکم: 2/214۔»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ بریرہ آئی اور کہا: بے شک میرے آقاؤں نے مجھ سے سات اوقیوں پر مکاتبت (لکھ پڑت)کر لی ہے، ہر سال ایک اوقیہ (چالیس درہم)دینا ہے، لہٰذا میری مدد کریں۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر تیرے آقا پسند کریں کہ میں انہیں یک بارگی ساری رقم گن کر دے دوں، تو میں دے دیتی ہوں، لیکن تیرا ”ولاء“ میرا ہوگا۔ وہ اپنے آقاؤں کے پاس گئی تو انہوں نے اس پر اس کا انکار کر دیا، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تھے اور کہا: بے شک میں نے ان پر پیش کیا، پھر انہوں نے انکار کر دیا، الا یہ کہ ”ولاء“ انہیں کا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (سارا ماجرا)بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اسے لے اور آزاد کر دے اور ان کے لیے ”ولاء“ کی شرط لگا دے، بے شک ”ولاء“ اس کا ہے جس نے آزاد کیا، سو عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پچھلے پہر لوگوں میں کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا: اما بعد! تم میں سے ان مردوں کی کیا حالت ہے، جو ایسی شرطیں عائد کرتے ہیں، جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں، جو کوئی بھی ایسی شرط ہوئی جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہے، وہ باطل ہے۔ اگرچہ وہ سو شرطیں ہوں، اللہ کا فیصلہ زیادہ حق والا ہے اور اللہ کی شرط زیادہ مضبوط ہے۔ پس کیا حالت ہے تمہارے ایک کی جو کہتا ہوتا ہے کہ اس نے آزاد کیا اور ”ولاء“ میرا ہی ہے۔ ”ولاء“ صرف اس کا ہے جس نے آزادکیا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 238]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2561، 2563، 2564، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1504، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1160، 1283، 1285، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2449، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4269، 4271، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4660، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2233، 2234، 2235، 2236، 2916، 3929، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1154، 1155، 1256، 2124، 2125، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2335، 2336، 2337، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2521، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 279، 1259، 1260، 1261، 1263، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10954، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24687، والحميدي فى «مسنده» برقم: 243، والطبراني فى «الصغير» برقم: 481، 1023 صحیح البخاري، المکاتب: 5/141، صحیح مسلم، العتق: 10/144، 145، سنن ابن ماجة: 2521، مسند أحمد: 6/413، مسند شافعي(بدائع المنن): 2/140، طبقات ابن سعد: 8/258، جامع ترمذي، البیوع: 4/467، سنن ابي داؤد، الفرائض: 8/126، سنن دارمي: 2/10، التلخیص الحبیر: 3/13، نصب الرایة، زیلعي: 4/16، مسند طیالسي: 1/244، موطا مالك:4/90، 94، 95۔»
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی رشتے دار کا مالک بنا تو وہ آزاد ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 239]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة: 2524، 2525، مسند طیالسي: 1/245، مستدرك حاکم: 2/214، معانی الآثار،طحاوی: 3/109، 110، التلخیص الحبیر: 4/212، نصب الرایة، زیلعي: 3/279۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمی ہیں: ان سب کی مدد کرنا اللہ پر حق ہے: اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا، نکاح کرنے والا، جو پاک دامنی کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ مکاتب غلام جو ادائی کا ارادہ رکھتا ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 240]
تخریج الحدیث: «جامع ترمذي، فضائل الجهاد: 1655، سنن ابن ماجة: 2518، مسند احمد: 2/251، 437۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔»