سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عُمرٰی اس کے ورثا کے لیے جائز ہے، یا اس کے ورثا کی وراثت ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 221]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم: 11/73، مسند احمد: 3/297، جامع ترمذي: 4/580، سنن ابن ماجة: 2383۔»
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن فرمایا: کسی عورت کے لیے عطیہ دینا جائز نہیں، سوائے اس کے خاوند کی اجازت کے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 224]
تخریج الحدیث: «سنن ابي داؤد: 3547، سنن ابن ماجة: 2389، مسند احمد: 2/179، 184، 207۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کی مثال جو اپنے صدقے میں لوٹتا ہے، کتے کی مثال کی طرح ہے، جو اپنی قے میں لوٹتا ہے اور اسے کھا لیتا ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 225]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بے شک عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں زمین حاصل ہوئی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک مجھے خیبر میں زمین حاصل ہوئی ہے، اللہ کی قسم! میں نے کبھی ایسا مال حاصل نہیں کیا جو میرے نزدیک اس سے زیادہ عمدہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کیا مشورہ دیتے ہیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو چاہے تو اسے صدقہ کر دے اور اس کی اصل روک لے۔“ چناں چہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے صدقہ کر دیا (اس طرح کہ)اس کی اصل کو نہ بیچا جا سکتا ہے، نہ ہبہ کیا جا سکتا ہے، اور نہ وارث بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اسے فقراء، قرابت داروں، فی سبیل اللہ، گردنوں (کو آزاد کرانے میں)مسافر اور مہمان کے لیے صدقہ کر دیا، جو اس کی دیکھ بھال کرے اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ا چھے طریقے سے اس میں سے کھا لے اور دوست کو کھلا لے۔ اسے اپنا مال بنانے والا نہ ہو، میں نے یہ محمد کو حدیث ذکر کی تو جب یہاں پہنچا، اسے اپنا مال بنانے والا نہ ہو، تو کہا کہ اس میں مال کا سوال کرنے والا نہ ہو، سو مجھے ایک انسان نے خبر دی کہ بے شک اس نے وہ رقعہ پڑھا تھا، جس میں تھا کہ مال کا سوال کرنے والا نہ ہو۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 226]
تخریج الحدیث: «صحیح بخاري: 5/308، 309، صحیح مسلم: 11/86، 87، جامع ترمذي، الأحکام: 36، باب ما جاء فی الوقف، سنن ابو داؤد: 8/81، سنن ابن ماجة: 2396، 2397، مسند أحمد: 2/13، 55، 125، طبقات ابن سعد: 3/357، حلیة الأولیاء،ابو نعیم: 8/263، نصب الرایة، زیلعي: 3/476۔»
عبید بن ابی الجعد رحمہ اللہ نے بیان کیا شرحبیل بن سمط نے مرہ بن کعب یا کعب بن مرہ کو بلایا اور کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کر اور ڈر تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا: جس نے کسی مسلمان (غلام)آدمی کو آزاد کیا، اللہ اس (غلام)کے ہر عضو کے بدلے اس کا ہر عضو آگ سے آزاد کر دے گا اور جس نے کسی مسلمان عورت (لونڈی)کو آزاد کیا، اللہ اس کے ہر عضو کے بدلے، اس کا ہر عضو آگ سے آزاد کر دے گا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 227]
غریف بن عیاش بن فرقد دیلمی نے کہا کہ میں واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، تو (کلاب)نے ان سے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بیان کریں، کہا کہ ہاں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نکلے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنو سلیم کی ایک جماعت آئی تو ہمارے ایک ساتھی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یقینا اس نے واجب کر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اس میں اس کی مثل ایک گردن آزاد کریں، اللہ اس کے ہر عضو کے بدلے، اس کا (ہر)عضو آگ سے آزاد کر دے گا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 228]
تخریج الحدیث: «صحیح ابن حبان: (الموارد)293، مستدرك حاکم: 2/212، التلخیص الحبیر: 4/38۔ حاکم اور ابن حبان نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما غلام اور لونڈی کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ جن میں سے ایک کئی شریکوں کے درمیان ہو اور ان میں سے ایک اس میں سے اپنا حصہ آزاد کردے کہ اس پر اس سارے کے سارے کو آزاد کرنا فرض ہوجائے گا، اگر اس شخص کے پاس کہ جس نے اپنا حصہ آزاد کیا اتنا مال ہو جو اس (کی آزادی)کو پہنچتا ہو، اس کے مال میں عدل کی قیمت لگائی جائے گی، وہ باقی شریکوں کی طرف ان کے حصے لوٹائے گا اور جسے آزاد کیا گیا، اس کا راستہ خالہ کردیا جائے گا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 229]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة: 2524، موطا: 77/4، معانی الآثار، طحاوي: 106/3، سنن الکبریٰ بیهقي: 275/10۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
سلیمان بن یسار بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جونسا بھی مرد کہ اس کے درمیان اور دوسرے کے درمیان اس کے غلام میں شراکت ہو اور ان میں سے ایک اپنا حصہ آزاد کر دے تو آزاد کرنے والے پر، اگر اس کے پاس مال ہے تو لازم ہے کہ غلام پر جو (قیمت)باقی رہتی ہے، اس پر لگائی جائے گی۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 230]