اور اسی سند سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر بے شک ایک پیپ کا ڈول دنیا میں بہا دیاجائے تو یقینا دنیا والوں کو بدبودار کر دے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 141]
تخریج الحدیث: «زیادات الزهد، ابن مبارك: 90، جامع ترمذی، کتاب صفة جهنم، باب صفة شراب أهل النار: 2584، تفسیر ابن کثیر: 42/4۔ محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس رات مجھے سیر کروائی گئی، میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا، ان کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے، میں نے پوچھا کہ جبریل علیہ السلام! یہ کون ہیں؟ فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے وہ خطیب جو لوگوں کی نیکی کا حکم دیتے تھے اور اپنی جانوں کو بھول جاتے تھے اور وہ کتاب(بھی)پڑھتے تھے، کیا پس وہ عقل نہیں کرتے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 142]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک جہنم میں یقینا ایک وادی ہے، جسے ”لملم“ کہاجاتا ہے۔ بے شک جہنم کی وادیاں اس کی حرارت سے پناہ مانگتی ہیں۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 143]
تخریج الحدیث: «زیادات الزهد، ابن مبارك: 95، حلیة الأولیاء، ابونعیم:8/178۔»
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ ”ویل“ جہنم میں ایک وادی ہے، کافر اس سے پہلے کہ اس کی گہرائی تک پہنچے چالیس سال گرتا رہے گا اور ”صعود“ ایک آگ کا پہاڑ ہے، وہ اس پر ستر سال تک چڑھتا رہے گا، پھر آگ میں گر جائے گا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 144]
تخریج الحدیث: «زیادات الزهد، ابن مبارك: 96، مسند احمد: 3/75، صحیح ابن حبان (الموارد)649، سنن ترمذي: 3164۔ محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا،اس سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ کسی نے کہا؟ کہا گیا کہ کیا فلاں یا فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کانام لیا گیا، اس نے اپنے سر کے ساتھ اشارہ کیا یعنی ہاں، تو اس یہودی کو بلایا گیا، اس نے اعتراف (جرم)کر لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اس کا سر (بھی)دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا۔ یا کہا کے پتھر کے ساتھ۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 145]
تخریج الحدیث: «صحیح بخاري، فی أول کتاب الخصومات: 5/45، صحیح مسلم: 11/157، 158، 159، رقم: 15،16، 17، کتاب القسامة باب ثبوت القصاص فی القتل بالحجر وغیرہ، جامع الترمذی،کتاب الدیات: 6، باب من ضخ رأسه بالصخرة: 4/651، سنن ابن ماجة، کتاب الدیات: 24، باب یقتاد من القاتل کما قتل: 2665، 2666، مسند احمد: 3/193، 262، 269، سنن دارمي، کتاب الدیات: 4، باب کیف یعمل فی القود: 2/110، سنن دارقطني، کتاب الدیات: 3/168، 169، التلخیص الحبیر: 4/15۔»
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انگلیوں میں (دیت)دس دس (اونٹ)ہیں اور اس زخم میں جو ہڈی کو ننگا کردے پانچ (اونٹ دیت)ہیں۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 146]
تخریج الحدیث: «سنن الکبریٰ، بیهقي: 8/92، 81، جامع ترمذي، کتاب الدیات: 3، باب الموضحة: 4/648، سنن دارمي: 2/115، کتاب الدیات: 16، باب فی الموضحة، مسند احمد: 2/217، سنن دارقطني: 3/207، سنن ابن ماجة: 18، باب دیة الأصابع رقم: 2653، 2655۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، یہ اور یہ برابر ہیں، اور شعبہ (راوی نے)چھنگلی اور انگوٹھے کی طرف اشارہ کیا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 147]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة،کتاب الدیات: 18، باب دیة الأصابع: 2652، جامع ترمذي، کتاب الدیات: 4/649، سنن بیهقي: 8/91۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انگلیاں برابر ہیں۔ میں نے غالب تمار سے کہا کہ ہر ایک انگلی کے بدلے دس اونٹ ہیں؟ تو انہوں نے کہا، ہاں۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 148]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ، کتاب الدیات: 2654، سنن دارمي، کتاب الدیات، باب دیة الأصابع: 115/2، السنن الکبریٰ للبیهقي: 192/8۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ ہے۔»
حرام بن سعد بن محیصہ اور سعید بن مسیب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اونٹنی ایک قوم کے باغ میں داخل ہوئی ور اسے خراب دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ بے شک اموال کی حفاظت، دن کے وقت ان کے مالکوں پر ہے اور یقینا مویشیوں والوں پر وہ (تاوان)ہے جسے مویشی رات کو پہنچے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 149]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة: 2332، موطا، کتاب القضاء فی الضواري و الحریسة رقم: 37، سنن ابي داود، کتاب البیوع: 90، باب المراشي تفسد زرع القوم: 9/483، سنن دارقطني، کتاب الحدود والدیات: 3/154، 155، صحیح ابن حبان (الموارد)کتاب البیوع: 46 باب ما تفسد المواشي: 284، مسند أحمد: 4/295، 5/536، سنن بیهقي، کتاب السرقة باب ما یستدل علی ترك تضعیف الغرامة: 8/279۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک دو عورتیں جو بنو ہزیل کے ایک آدمی کے ماتحت (بیویاں تھیں)ان میں سے ایک نے دوسری کو خیمے کا ستون مارا تو اس کا حمل ساقط کر دیا گیا، وہ جھگڑا لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے اور کہا: ہم اس کی دیت کیسے دیں جو نہ چیخا نہ رویا، نہ پیا اور نہ کھایا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا بدویوں کی سجع کی طرح، سجع کلامی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غلام آزاد کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے عورت کے عصبہ رشتہ داروں پر (مقرر)کیا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 150]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم: 11/178، 179، کتاب القسامة رقم 37، 38، جامع ترمذی، کتاب الهبات: 15، باب دیة الجنین: 4/666، سنن ابي داؤد، کتاب الدیات: 22، باب دیة الجنین: 12/311، سنن دارمي، کتاب الدیات: 20، باب دیة الجنین: 2/117، مسند أحمد: 4/246، مسند طیالسي: 1/294، سنن دارقطني: 3/198، سنن الکبریٰ بیهقي: 8/114، سنن دارمي،ا لمقدمة: 54، باب الرجل یفتی بشئی ثم یبلغه عن النبی صلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فیرجع الی قول النبی صلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: 1/123۔»