سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اہل جنت، جنت کی طرف اور آگ والے، آگ کی طرف چلے جائیں گے، موت کو لایا جائے گا، یہاں تک کہ اسے جنت اور آگ کے درمیان کر دیاجائے گا، پھر اسے ذبح کر دیا جائے گا، پھر منادی اعلان کرے گا، اے جنت والو! (اب)کوئی موت نہیں، اے آگ والو! (اب)کوئی موت نہیں، تو جنت والے اپنی فرحت کی طرف مزید خوشی میں بڑھ جائیں گے اور آگ والے اپنے غم کی طرف مزید غم میں بڑھ جائیں گے۔ت [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 131]
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میرا (راوی کا)خیال ہے کہ انہوں نے اسے مرفوع بیان کیا ہے۔ موت کو قیامت والے دن لایا جائے گا، جس طرح چتکبرہ مینڈھا ہوتا ہے، اسے جنت اور آگ کے درمیان کھڑا کر دیاجائے گا، کہا جائے گا: اے جنت والو! یہ موت ہے، اے آگ والو! یہ موت ہے، پھر اسے ذبح کر دیاجائے گا اور وہ دیکھ رہے ہوں گے۔ اگر کسی نے خوشی سے مرنا ہوتا تو اہل جنت یقینا مر جاتے اور اگر کسی نے غم سے مرنا ہوتا تو آگ والے یقینا مر جاتے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 132]
تخریج الحدیث: «زیادات الزهد، ابن مبارك: 79، مسند احمد: 3/9، سنن دارمي، کتاب الرقاق: 90، باب ذبح الموت: 2/236، حلیة الأولیاء، ابو نعیم: 8/184، صحیح بخاري مع الفتح: 11/6548، صحیح مسلم: 2850۔»
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر بے شک ایک پتھر اس کی مثل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھوپڑی کی طرف اشارہ فرمایا۔ آسمان سے زمین کی طرف پھینکا جائے اور وہ پانچ سو سال کی مسافت ہے تو یقینا وہ رات سے پہلے پہنچ جائے گا اور اگر بے شک اسے اس زنجیر کے سرے سے چھوڑا جائے گا تو یقینا وہ چالیس سال دن رات چلتا رہے گا (جہنم کی تہہ تک)پہنچنے سے پہلے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 133]
تخریج الحدیث: «زیادات الزهد: 84، جامع ترمذي، کتاب جهنم، باب صفة طعام أهل النار: 2588، مسند أحمد (الفتح الرباني)24/165۔ محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! روو، اگر روو نہیں تو رونے والی صورت بناؤ۔ بے شک آگ والے آگ میں روئیں گے، یہاں تک کہ ان کے آنسو، ان کے چہروں پر بہیں گے، جس طرح کہ آب پاشی کی چھوٹی نہریں ہیں، تا آنکہ ان کے آنسو ختم ہو جائیں گے، پس خون بہہ پڑیں گے۔ آنکھیں زخمی ہو جائیں گے، اگر بے شک ان میں کشتیاں چلائی جائیں تو یقینا چل پڑیں۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 134]
تخریج الحدیث: «زیادات الزهد، ابن مبارك: 85، المطالب،ابن حجر: 4/398، سنن ابن ماجة: 4324، مجمع الزوائد، هیثمي: 10/391۔ ابن حجر، هیثمي اور محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔»
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿ وَهُمْ فِيهَا كَالِحُونَ﴾ (المؤمنون: 104)”اور وہ اس میں تیوری چڑھانے والے ہوں گے۔“ فرمایا کہ آگ اسے جھلسا دے گی، تو اس کا اوپر والا ہونٹ سکڑ جائے گا، یہاں تک کہ اس کے سر کے درمیان تک پہنچ جائے گا اور اس کا نیچے والا ہونٹ لٹک جائے گا، تا آں کہ اس کی ناف کو جا لگے گا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 135]
تخریج الحدیث: «زیادات الزهد، ابن مبارك: 84، جامع ترمذي، کتاب جهنم: 5، باب طعام أهل النار: 2587۔ محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری یہ آگ ہے، جسے ابن آدم جلاتا ہے، جہنم (کی آگ)کے ستر (70)حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔“ انہوں (صحابہ رضی اللہ عنہم)نے کہا: اللہ کی قسم! اگر وہ (دنیا کی آگ ہی)ہوتی تو یقینا کافی تھی۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! فرمایا: ”بے شک وہ انہتر حصے اس سے بڑھائی گئی ہے۔ وہ سب اس کی گرمی کی مثل ہیں۔“[مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 136]
تخریج الحدیث: «صحیح بخاري: 3265، زیادات الزهد، ابن مبارك: 88، موطا: 4/416، کتاب جهنم: 697، باب ما جاء فی صفة جهنم، مسند احمد (الفتح الرباني)24/163، 164، سنن دارمي، کتاب الرقاق: 2، باب قول النبی صلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نارکم هذہ جزء من کذا، صحیح ابن حبان (الموارد)648۔»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں: ”بے شک گرم پانی یقینا ان کے سروں پر ڈالا جائے گا، وہ کھوپڑی کو آرپار کر دے گا، یہاں تک کہ اس کے پیٹ تک پہنچ جائے گا، جو اس کے پیٹ میں ہوگا سب باہر نکال کر رہے گا۔ تاآں کہ اس کے قدموں سے نکل جائے گا اور پگھلانا یہی ہے، پھر اسے جیسے تھا، لوٹا دیا جائے گا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 137]
سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ عزوجل کے فرمان کے بارے میں بیان کرتے ہیں: ﴿ وَيُسْقَى مِنْ مَاءٍ صَدِيدٍ يَتَجَرَّعُهُ﴾(ابراہیم: 17)”اور اسے اس پانی سے پلایا جائے گا، جو پیپ ہے، وہ اسے بہ مشکل گھونٹ گھونٹ پیے گا۔“ فرمایا کہ وہ اس کے قریب کیا جائے گا تو اسے سخت ناپسند لگے گا اور جب وہ اس کے نزدیک لایا جائے گا تو اس کے چہرے کو بھون ڈالے گا اور اس کے سر کی چمڑی گر جائے گی۔ جب وہ اسے پیے گا تو اس کی انتڑیاں کاٹ دے گا، یہاں تک کہ اس کی پیٹھ سے نکل جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ﴿ وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَهُمْ﴾ (محمد: 15)”اور جنہیں کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا، تو وہ ان کی انتڑیاں ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔“ اور اللہ عزوجل نے فرمایا: ﴿ وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا﴾ (الکہف: 29)”اور اگر وہ اپنی مانگیں گے تو انہیں پگھلے ہوئے تانبے جیسا پانی دیاجائے گا۔ جو چہروں کو بھون ڈالے گا، برا مشروب ہیاور بری آرام گاہ ہے۔“[مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 138]
تخریج الحدیث: «زیادات الزهد، ابن مبارك: 89، مسند احمد: 5/265، حلیة الأولیاء: 8/182، سنن ترمذي: 2583۔ محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ پانی پگھلے ہوئے تانبے جیسا ہوگا، تیل کی تلچھٹ کی طرح، جب وہ اس کے قریب کیا جائے گا تو اس کے چہرے کی چمڑی گر جائے گی۔“[مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 139]
تخریج الحدیث: «زیادات الزهد، ابن مبارك: 90، جامع ترمذي، کتاب صفة جهنم، حدیث: 2584، مستدرك حاکم، کتاب الأهوال، صفة ماء کالمهل: 604/4، صحیح ابن حبان (الموارد)649، مسند أحمد: 71/3، حلیة الأولیاء، ابونعیم: 182/8۔ محدث البانی نے اسے ضعیف کہا ہے لیکن امام حاکم اور ابن حبان نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بے شک آگ کی قناتیں چار موٹی دیواریں ہیں، ہر دیوار چالیس سال کی مسافت ہے۔“[مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 140]
تخریج الحدیث: «زیادات الزهد، ابن مبارك: 90، جامع ترمذی، کتاب صفة جهنم: 4، باب صفة شراب أهل النار: 2584، مسند أحمد: (الفتح الرباني): 24/168۔ محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔»