1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند عبدالله بن مبارك
متفرق
حدیث نمبر: 111
عَنْ رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ، أنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ عَنْ دُخَيْنٍ الْحَجْرِيُّ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: " يَقُولُ عِيسَى: هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى النَّبِيِّ الأُمِّيِّ، فَيَأْتُونِي، فَيَأْذَنُ اللَّهُ لِي أَنْ أَقُومَ، فَيَثُورَ مِنْ مَجْلِسِي أَطْيَبُ رِيحٍ شَمَّهَا أَحَدٌ، حَتَّى آتِيَ رَبِّي فَيُشَفِّعَنِي، وَيَجْعَلَ لِيَ نُورًا مِنْ شَعْرِ رَأْسِي إِلَى ظُفُرِ قَدَمِي، ثُمَّ يَقُولُ الْكُفَّارُ: قَدْ وَجَدَ الْمُؤْمِنُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَهُمْ فَمَنْ يَشْفَعُ لَنَا؟ فَيَقُولُونَ: مَا هُوَ غَيْرُ إِبْلِيسَ هُوَ الَّذِي أَضَلَّنَا، فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُومُ فَيَثُورُ مِنْ مَجْلِسِهِ أَنْتَنُ رِيحٍ شَمَّهَا أَحَدٌ، ثُمَّ يُورِدُهُمْ لِجَهَنَّمَ، وَيَقُولُ عِنْدَ ذَلِكَ: وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ سورة إبراهيم آية 22".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کا ذکر کیا اور فرمایا: عیسیٰ علیہ السلام کہیں گے: کیا میں تمہاری اس پر نبی امی کی طرف رہنمائی کروں؟ تو وہ میرے پاس آجائیں گے تو اللہ مجھے کھڑے ہونے کی اجازت دے گا، میری مجلس سب سے پاکیزہ خوشبو سے لوٹ آئے گی جسے کسی ایک نے سونگھا ہو، یہاں تک کہ میں اپنے رب کے پاس آؤں گا تو وہ میری سفارش قبول کرے گااور میرے سر کے بالوں سے لے کر میرے پاؤں کے ناخنوں تک میرے لیے نور کر دے گا، پھر کافر کہیں گے: یقینا مومنوں نے پا لیا جو ان کے لیے سفارش کرے گا، تو ہمارے لیے کون سفارش کرے گا، تو وہ کہیں گے کہ وہ ابلیس کے علاوہ اورکوئی نہیں، وہی ہے جس نے ہمیں گمراہ کیا، وہ اس کے پاس آجائیں گے، وہ کھڑا ہوگا تو اس کی مجلس سب سے بدبودار بو سے لوٹے گی، جسے کسی ایک نے سونگھا ہو پھر وہ انہیں جہنم میں وارد کرے گا اور اس وقت کہے گا: ﴿ وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ﴾ (ابراہیم: 22)اور جب (جنت یا جہنم کے)معاملے کا فیصلہ کر دیا جائے گا تو شیطان کہے گا: بے شک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا، اور میں نے تم سے جو وعدہ کیا تھا اس کی میں نے خلاف ورزی کی۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 111]
تخریج الحدیث: «الزهد فی زیادات نعیم، ابن مبارك: 111، سنن الدارمي: 2846۔ شیخ حسین سلیم اسد نے اس کی سند کو ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔»

حكم: ضعیف

حدیث نمبر: 112
عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ،،أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا ذَرٍّ، وَأَبَا الدَّرْدَاءِ، قَالا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا أَوَّلُ مَنْ يُؤْذَنُ لِي فِي السُّجُودِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَوَّلُ مَنْ يُؤْذَنُ لَهُ بِرَفْعِ رَأْسِهِ، فَأَنْظُرُ بَيْنَ يَدَيَّ، فَأَعْرِفُ أُمَّتِي مِنْ بَيْنِ الأُمَمِ، وَأَنْظُرُ عَنْ يَمِينِي فَأَعْرِفُ أُمَّتِي مِنْ بَيْنِ الأُمَمِ، وَأَنْظُرُ عَنْ شِمَالِي فَأَعْرِفُ أُمَّتِي مِنْ بَيْنِ الأُمَمِ، وَأَنْظُرُ خَلْفِي فَأَعْرِفُ أُمَّتِي مِنْ بَيْنِ الأُمَمِ"، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كَيْفَ تَعْرِفُ أُمَّتَكَ مِنْ بَيْنِ الأُمَمِ مَا بَيْنَ نُوحٍ إِلَى أُمَّتِكَ؟ فَقَالَ:" غُرٌّ مُحَجَّلُونَ مِنْ آثَارِ الْوُضُوءِ، وَلا يَكُونُ أَحَدٌ مِنَ الأُمَمِ غَيْرَهُمْ، وَأَعْرِفُهُمْ أَنَّهُمْ يُؤْتَوْنَ كُتُبَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ، فَأَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ، وَأَعْرِفُهُمْ بِنُورهِمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ دُونَهُمْ".
سیدنا ابوذر اور ابو درداء رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں سب سے پہلا ہوں جسے قیامت والے دن سجدے کی اجازت دی جائے گی اور سب سے پہلا ہوں جسے سر اٹھانے کی اجازت دی جائے گی، میں اپنے آگے دیکھوں گا تو امتوں کے درمیان سے اپنی امت کو پہچان لوں گا اور اپنی دائیں جانب دیکھوں گا تو امتوں کے درمیان سے اپنی امت کو پہچان لوں گا اور اپنی بائیں جانب دیکھوں گا تو امتوں کے درمیان سے اپنی امت کو پہچان لوں گا اور اپنے پیچھے دیکھوں گا تو امتوں کے درمیان سے اپنی امت کو پہچان لوں گا۔ ایک آدمی نے کہا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم امتوں کے درمیان سے جو نوح علیہ السلام سے لے کر آپ کی اپنی امت تک ہوں گی، اپنی امت کو کیسے پہچان لیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے وضو کے نشانات کی وجہ سے چہرے اورہاتھ پاؤں روشن ہوں گے، ان کے علاوہ امتوں میں سے کوئی اور (ایسا)نہ ہوگا اور میں ان کو پہچان لوں گا، بے شک ان کو ان کے نامۂ اعمال ان کے دائیں ہاتھوں میں تھمائے جائیں گے اور میں انہیں ان کی پیشانیوں سے پہچان لوں گا، ان کے چہروں پر سجدوں کے نشان کی وجہ سے اور میں ان کو ان کے نور کی وجہ سے پہچان لوں گا جو ان کے آگے اور ان کی دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 112]
تخریج الحدیث: «الزهد فی زیادات نعیم، ابن مبارك: 112، مسند احمد: 21737، مشکٰوة: 299۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 113
عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ أُمَّتِي مِثْلُ اللَّيْلِ أَوِ السَّيْلِ، فَيَخْطَفُ النَّاسَ خَطْفَةً وَاحِدَةً، فَيَقُولُ الْمَلائِكَةُ: لَمَا جَاءَ مَعَ مُحَمَّدٍ أَكْثَرُ مِمَّا جَاءَ مَعَ سَائِرِ الأَنْبِيَاءِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں: قیامت والے دن میری امت کے ساتھ رات کی مثل یا سیلاب کی مثل آئے گا جو لوگوں کو یکبارگی اچک لے جائے گا، تو فرشتے کہیں گے کہ یقینا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے وہ زیادہ ہیں،ان سے جو باقی امتوں کے ساتھ آئے گا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 113]
تخریج الحدیث: «مجمع الزوائد،هیثمي: 10/344 اور کہا کہ اسے بزار نے بیان کا ہے اور اس میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف ہے۔ اور حافظ ابن حجر نے اسے ’’المطالب‘‘ میں ذکر کیا اور کہا کہ اسے عبد بن حمید نے بیان کیا ہے اور اس میں ضعف ہے اور اعظمی نے کہا کہ بوصیری نے کہا کہ اسے عبد بن حمید نے بیان کیا ہے،ا س میں موسیٰ بن عبیدہ ہے اور وہ ضعیف ہے۔»

حكم: ضعیف

حدیث نمبر: 114
عَنْ هِشَامٍ، سَمِعْتُ الْحَسَنَ يَذْكُرُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةً قَدْ دَعَا بِهَا، وَإِنِّي اسْتَخْبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک ہر نبی کے لیے ایک دعا ہے جو قبول کی جانے والی ہے، یقینا وہ اس کے ساتھ دعا کر چکا ہے اور بے شک میں نے قیامت والے دن ا پنی امت کی شفاعت کے لیے اپنے دعا کو چھپا رکھا ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 114]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6305، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 200، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20832، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12571
الزهد، ابن مبارك: 563، 564، صحیح مسلم: فی کتاب الإیمان، رقم 345۔ 3/77، صحیح بخاري، کتاب الدعوات، باب لکل نبی دعوة مستجابة: 11/80، سنن دارمي، کتاب الرقاق 85، باب ان لکل نبي دعوة مستجابة: 2/235، سنن ترمذي، فی کتاب الدعوات: 10/63۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 115
عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّكُمْ تُوفُونَ سَبْعِينَ أُمَّةً، أَنْتُمْ خَيْرُهَا وَأَكْرَمُهَا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
بھز بن حکیم اپنے باپ اور وہ اس کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک تم قیامت والے دن ستر امتوں کو پورا کرنے والے ہو، تم ان میں سب سے بہترین اور اللہ عزوجل کے نزدیک سب سے معزز ہوگے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 115]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك بزیادات نعیم: 114، سنن ابن ماجة: 4288، مسند احمد: 5/3،5، سنن دارمي، کتاب الرقاق: 47، باب قول النبی صلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أنتم آخر الامم: 2/221۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 116
عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَحنُ الآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَذَلِكَ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ أُوتُوهُ مِنْ قَبْلِنَا، وَأُوتِينَاهُ مِنْ بَعدِهِمْ، فَهَذَا يَوْمُهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ، فَهَدَانَا اللَّهُ لَهُ، فَهُمْ لَنَا فِيهِ تَبَعٌ الْيَهُودُ غَدًا، وَالنَّصَارَى بَعْدَ غَدٍ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہم آخر میں آنے والے (لیکن)قیامت کے دن سبقت لے جانے والے ہیں اور وہ (اس طرح کہ)بے شک اہل کتاب یہ (جمعے کا دن)ہم سے پہلے دئیے گئے اور ہمیں یہ دن ان کے بعد دیا گیا تو یہ ان کا وہ دن ہے جس میں انہوں نے اختلاف کیا تو اللہ نے اس کے لیے ہماری رہنمائی فرمائی، سو وہ اس میں ہمارے تابع ہیں، یہودیوں کا اگلا دن (ہفتہ)ہے اور نصرانیوں کا اس سے بھی اگلا دن (اتوار)ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 116]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 876، 896، 2956، 3486، 3487، 6624، 6887، 7036، 7495، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 849، 855، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1720، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1234، 2784، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1369، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1664، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1083، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1439، والحميدي فى «مسنده» برقم: 984، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 8692
زیادات الزهد، ابن مبارك: 114، صحیح بخاري: 876، صحیح مسلم، کتاب الجمعة، رقم: 19،20، 6/144، مسند احمد: 2/502۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 117
عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ، أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ أُقَيْشٍ، حَدَّثَ أَبَا بَرْزَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ مِنْ أُمَّتِي لَمَنْ يَعْظُمُ لِلنَّارِ حَتَّى يَكُونَ رُكْنًا مِنْ أَرْكَانِهَا، وَإِنَّ مِنْ أُمَّتِي لَمَنْ يَشْفَعُ لأَكْثَرَ مِنْ رَبِيعَةَ، وَمُضَرَ".
سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک میری امت میں سے بعض وہ ہے جو آگ کی تعظیم بجا لائے گا، یہاں تک کہ اس کے ارکان میں سے ایک رکن بن جائے گا اور یقینا میری امت میں سے البتہ وہ بھی ہے جو ربیعہ اور مضر (قبیلوں)سے بھی زیادہ (لوگوں)کے لیے سفارش کرے گا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 117]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة: 4323، مستدرک حاکم، کتاب الایمان: 1/71۔ امام حاکم نے اسے شرط مسلم پر ’’صحیح‘‘ کہا ہے اور محدث البانی نے بھی اسے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 118
عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي زُمْرَةٌ هُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا، تُضِيءُ وُجُوهُهُمْ إِضَاءَةَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ"، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ الأَسَدِيُّ يَرْفَعُ نَمِرَةً عَلَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ؟ فَقَالَ:" اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ مِنْهُمْ"، ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ؟ فَقَالَ:" سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میری امت کی ایک جماعت جن کی (تعداد)ستر ہزار ہوگی، جنت میں داخل ہوں گے، ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی روشنی کی طرف چمک رہے ہوں گے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور دھاری دار چادر کو جو ان کے اوپر تھی اٹھایا اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں شامل فرما لے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اس کو بھی ان میں شامل فرما لے۔ پھر انصار کا ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے لیے دعا کریں کہ اللہ مجھے بھی ان میں شامل فرما لے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بارے عکاشہ رضی اللہ عنہ تجھ سے سبقت لے گیا ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 118]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 550، صحیح بخاري، کتاب الرقاق، باب یدخل الجنة سبعون الفا بغیر حساب: 6542، صحیح مسلم، کتاب الایمان: 3/88، رقم: 369، 370۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 119
عَنْ رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلانِيُّ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ الْجَنْبِيُّ، أَنَّ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ، وَعُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ حَدَّثَاهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ فَرَغَ اللَّهُ مِنْ قَضَاءِ الْخَلْقِ، فَيَبْقَى رَجُلانِ يُؤْمَرُ بِهِمَا إِلَى النَّارِ فَيَلْتَفِتُ أَحَدُهُمَا، فَيَقُولُ الْجبَّارُ: رُدُّوهُ، فَيُرَدُّ، فَيُقَالُ لَهُ: لِمَ الْتَفَتَّ؟ قَالَ: كُنْتُ أَرْجُو أَنْ تُدْخِلَنِي الْجَنَّةَ، قَالَ: فَيُؤْمَرُ بِهِ إِلَى الْجَنَّةِ، قَالَ: فَيَقُولُ: هَذَا عَطَاءُ رَبِّي حَتَّى إِنِّي لَوْ أَطْعَمْتُ أَهْلَ الْجَنَّةِ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِمَّا عِنْدِي شَيْئًا"، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَكَرَهُ يُرَى السُّرُورُ فِي وَجْهِهِ.
سیدنا فضالہ بن عبید اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہوگا اور اللہ مخلوق کے فیصلے سے فارغ ہو جائے گا تو دو آدمی باقی رہ جائیں گے، انہیں آگ کی طرف (لے جانے کا)حکم دے دیا جائے گا تو ان میں سے ایک مڑ کر دیکھے گا، جبار کہے گا: اسے لوٹاؤ تو اسے لوٹایا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ تو نے مڑ کر کیوں دیکھا؟ وہ کہے گا: میں امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے جنت میں داخل کر دے گا، فرمایا کہ اسے جنت کی طرف (لے جانے کا)حکم دے دیا جائے گا۔ فرمایا: وہ کہے گا کہ یقینا میرے رب نے مجھے (اتنا)دیا ہے۔ یہاں تک کہ بے شک اگر میں (تمام)اہل جنت کو کھلا دوں تو جو میرے پاس یہ (کھلانا)اس میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اسے ذکر فرماتے تو آپؐ کے چہرے سے خوشی دیکھی جاتی تھی۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 119]
تخریج الحدیث: «زیادات الزهد، ابن مبارك: 122، مسند احمد: 22293۔ شیخ شعیب نے اسے ’’رشدین بن سعد‘‘ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔»

حكم: ضعیف

حدیث نمبر: 120
عَنْ رِشْدِينَ، أَخْبَرَنِي ابْنُ نُعْمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ رَجُلَيْنِ مِمَّنْ دَخَلَ النَّارَ اشْتَدَّ صِيَاحُهُمَا، فَقَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: أَخْرِجُوهُمَا، فَلَمَّا أُخْرِجَا، قَالَ لَهُمَا: لأَيِّ شَيْءٍ اشْتَدَّ صِيَاحُكُمَا؟ قَالا: فَعَلْنَا ذَلِكَ لِتَرْحَمَنَا، قَالَ: إِنَّ رَحْمَتِي لَكُمَا أَنْ تَنْطَلِقَا فَتُلْقِيَا أَنْفُسَكُمَا حَيْثُ كُنْتُمَا مِنَ النَّارِ، فَيَنْطَلِقَانِ فَيُلْقِي أَحَدُهُمَا نَفْسَهُ فَيَجعلُهَا اللَّهُ عَلَيْهِ بَرْدًا وَسَلامًا، وَيَقُومُ الآخَرُ فَلا يُلْقِي نَفْسَهُ، فَيَقُولُ لَهُ الرَّبُّ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تُلْقِيَ نَفْسَكَ كَمَا أَلْقَى صَاحِبُكَ؟ فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أَرْجُو أَنْ لا تُعِيدَنِي فِيهَا بَعْدَمَا أَخْرَجْتَنِي، فَيَقُولُ لَهُ الرَّبُّ: لَكَ رَجَاؤُكَ، فَيَدْخُلانِ جَمِيعًا الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِهِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک ان میں سے جو آگ میں داخل کیے گئے، دو آدمیوں کی چیخ و پکار سخت ہو گئی۔ اللہ عزوجل نے فرمایا: ان دونوں کو نکالو۔ جب ان دونوں کو نکالا گیا تو ان سے فرمایا: کس چیز کے لیے تم دونوں کی چیخ و پکار تیز ہو گئی؟ ان دونوں نے کہا: ہم نے یہ کیا تاکہ تو ہم پر رحم فرمائے، فرمایا: میری رحمت تمہارے لیے یہ ہے کہ تم دونوں چلو اور اپنی جانوں کو آگ میں وہاں ڈالو جہاں تم دونوں تھے،و ہ دونوں چلیں گے، ان میں سے ایک اپنے آپ کو آگ میں ڈال دے گا اور اللہ اسے اس پر ٹھنڈک اور سلامتی والی بنا دے گا اور دوسرا کھڑا رہے گا، وہ اپنے آپ کو نہیں ڈالے گا۔ اس سے رب پوچھے گا: تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اپنے آپ کو ڈالے، جس طرح تیرے ساتھی نے ڈالا؟ وہ کہے گا: اے پروردگار! میں امید رکھتا ہوں کہ تو مجھے اس سے نکالنے کے بعد دوبارہ اس میں نہیں لوٹائے گا،رب اس سے فرمائے گا: تیرے لیے ہی تیری امید ہے، سو وہ دونوں اس کی رحمت کے ساتھ جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 120]
تخریج الحدیث: «زیادات الزهد، ابن مبارك: 123، جامع ترمذي: 2599، جامع الأصول، ابن اثیر: 118/4۔ محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔»

حكم: ضعیف


Previous    8    9    10    11    12    13    14    15    16    Next