1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند عبدالله بن مبارك
متفرق
حدیث نمبر: 91
عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَنْ يَلِجَ أَحَدٌ بِعَمَلِهِ الْجَنَّةَ"، قَالُوا: وَلا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" وَلا أَنَا، إِلا أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللَّهُ بِرَحْمَتِهِ، أَوْ تَسَعَنِي مِنْهُ عَافِيَةٌ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا: ہر گزکوئی ایک اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل نہ ہوگا انہوں نے کہا کہ اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! فرمایا: اور نہ ہی میں الا یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے یا مجھے اس کی عافیت وسیع ہوجائے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 91]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 507، سنن ابن ماجة: 4201، صحیح ابن حبان: 1/337، 2/37، مسند احمد (الفتح الرباني)19/346، الادب المفرد، البخاري: 216، حلیة الأولیاء، ابو نعیم: 7/129، 8/279۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 92
عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ حُذَيْفَةَ، أَنَّ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ، قَالَ: قَامَ سَائِلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُ، فَأَمْسَكَ الْقَوْمُ، ثُمَّ إِنَّ رَجُلا أَعْطَاهُ فَأَعْطَى الْقَوْمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ اسْتَنَّ خَيْرًا فَاسْتُنَّ بِهِ فَلَهُ أَجْرُهُ، وَمِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ مِنْ غَيْرِ مُنْتَقِصٍ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنِ اسْتَنَّ شرًّا فَاسْتُنَّ بِهِ فَعَلَيْهِ وِزْرُهُ، وَمِثْلُ أَوْزَارِ مَنْ تَبِعَهُ غَيْرَ مُنْتَقِصٍ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا".
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک سائل کھڑا ہوا اور سوال کرنے لگا، لوگ خاموش رہے، پھر بے شک ایک آدمی نے اسے دیا تو لوگوں نے بھی اسے دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نیکی کی راہ نکالی، پھر اسے اپنایا گیا تو اس کے لیے اس کا اجر ہے اور اس کا بھی جس نے اس کی پیروی کی، ان کے اجر میں کمی کیے بغیر اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اور اسے اپنایا گیا تو اس پر اس کا بوجھ ہے اور ان کے بوجھ کی مثل بھی جنہوں نے اس کی تابع داری کی، ان کے بوجھ سے کچھ بھی کم کیے بغیر۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 92]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 513، مسند احمد: 5/387، مجمع الزوائد، هیثمي: 1/167، مشکل الآثار، طحاوي: 1/482، سنن بیهقي: 4/175، 176، سنن ابن ماجة: 204، صحیح الجامع الصغیر: 6014۔»

حكم: إسنادہ حسن

حدیث نمبر: 93
عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: " مَا أَعْرِفُ مِنْكُمْ شَيْئًا كُنْتُ أَعْهَدُهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ قَوْلُكُمْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ"، قُلْنَا: يَا أَبَا حَمْزَةَ الصَّلاةَ؟ قَالَ:" قَدْ صَلَّيْتُمْ عِنْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، أَوَ كَانَتْ تِلْكَ صَلاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: عَلَى أَنِّي لَمْ أَرَ زَمَانًا خَيْرًا لِلْعَامِلِ مِنْ زَمَانِكُمْ هَذَا".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،ا نہوں نے فرمایا کہ میں تمہارے اندر کسی چیز کو نہیں پہچانتا، جس سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں واقف تھا، سوائے تمہارے قول لا اله الا اللّٰه کے۔ ہم نے کہا کہ اور نہ ہی نماز، اے ابو حمزہ!؟ فرمایا: تحقیق تم نے سورج غروب ہونے کے بعد نماز (عصر)پڑھی ہے، کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہوا کرتی تھی؟ پھر فرمایا کہ اس کے باوجود کہ میں نے کوئی زمانہ نہیں دیکھا جو عمل کرنے والے کے لیے تمہارے اس زمانے سے بہتر ہو۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 93]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 531 اور اس میں یہ اضافہ ہے۔ ’’إِلَّا اَنْ یَکُوْنَ زَمَانًا مَعَ نَبِیٍِ اللّٰهِ صلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ“، مسند أحمد: 13861۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح علی شرط مسلم‘‘ قرار دیا ہے۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 94
عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا انْتَهَتْ عِدَّةُ زَيْنَبَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِزَيْدٍ: " اذْكُرْهَا عَلَيَّ"، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ، فَقُلْتُ: يَا زَيْنَبُ، أَبْشِرِي، أَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُذكِّرُكَ، فَقَالَتْ: مَا أَنَا بِصَانِعَةٍ شَيْئًا حَتَّى أُوَامِرَ رَبِّي، فَقَامَتْ إِلَى مَسْجِدِهَا وَنَزَلَ الْقُرْآنُ، وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهَا بِغَيْرِ إِذْنٍ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سیدہ زینب (بنت جحش) رضی اللہ عنہا کی عدت پوری ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید (بن حارثہ) رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس (زینب رضی اللہ عنہا)کو میری طرف سے پیغام نکاح دو، کہاکہ میں چلا اور کہا کہ اے زینب رضی اللہ عنہا! خوش ہو جاؤ، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے، وہ تجھے پیغام نکاح دے رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں کچھ نہیں کرنے والی، یہاں تک کہ اپنے رب عزوجل سے مشورہ (استخارہ)کر لوں، وہ اپنی مسجد کی طرف کھڑی ہو گئیں اور قرآن نازل ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، یہاں تک کہ بغیر اجازت کے ان پاس آگئے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 94]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 541، مسند احمد (الفتح الرباني)21/87، حلیة الأولیاء، ابو نعیم: 2/52، صحیح مسلم: 1428۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 95
عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ"، وَكَانَ إِذَا ذَكَرَ السَّاعَةَ احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ، وَعَلا صَوْتُهُ، وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ، كَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَيْشٍ صَبَّحَكُمْ وَمَسَّاكُمْ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اور قیامت ان دو کی طرح بھیجے گئے ہیں۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کا ذکر کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار سرخ ہو جاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز بلند ہوجاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاغصہ تیز ہوجاتا،گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی لشکر سے ڈرا رہے ہوں۔ وہ صبح تم پر حملہ کر دے گا، وہ شام کو تم پر دھاوا بول دے گا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 95]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة: 45، صحیح ابن حبان: 1/109۔ ابن حبان اور محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 96
أنا مُعْتَمِرٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاةَ الْعَصْرِ بِنَهَارٍ، ثُمَّ خَطَبَنَا إِلَى أَنْ غَابَتِ الشَّمْسُ، فَلَمْ يَدَعْ شَيْئًا يَكُونُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلا حَدَّثَنَا بِهِ، حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ، وَقَالَ حِينَ ذَهَبَتِ الشَّمْسُ مِنَ الْمَغْرِبِ:" إِنَّمَا مَضَى مِنْ دُنْيَاكُمْ فَمَا بَقِيَ مِنْهَا كَمَا مَضَى مِنْ يَوْمِكُمْ هَذَا فَمَا بَقِيَ مِنْهُ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز عصر دن کے وقت پڑھائی، پھر ہمیں خطبہ دیا، یہاں تک کہ سورج غائب ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسی چیز نہ چھوڑی جو قیامت تک ہونی تھی۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ہمیں بیان کر دی، اسے یاد کر لیا جس نے یاد کیا اور اسے بھلا دیا جس نے بھلا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کہ جب سورج غروب ہونے کے قریب تھا، فرمایا: اور تمہاری دنیا جتنی گزر چکی ہے اور جتنی باقی ہے وہ تمہارے اسی دن کی طرح ہے کہ وہ جتنا گزر چکا ہے اورجتنا باقی ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 96]
تخریج الحدیث: «جامع ترمذي: 2191۔ محدث البانی نے کہا: اس حدیث کا بعض حصہ کمزور اور ضعیف ہے۔»

حكم: ضعیف

حدیث نمبر: 97
نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الْمُنْهَزِمِ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: " لَتَقُومَنَّ السَّاعَةُ عَلَى رَجُلَيْنِ، وَثَوْبُهُمَا فِي أَيْدِيهِمَا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ البتہ قیامت ضرور دو آدمیوں پر قائم ہوگی،اس حال میں کہ ان دونوں کا کپڑا ان کے ہاتھوں میں ہوگا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 97]
تخریج الحدیث: «صحیح بخاري: 6506۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 98
نا خَالِدٌ أَبُو الْعَلاءِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ أَنْعَمُ وَصَاحِبُ الْقَرْنِ قَدِ الْتَقَمَ الْقَرْنَ، وَاسْتَمَعَ الإِذْنَ مَتَى يُؤْمَرُ بِالنَّفْخِ فَيَنْفُخُ؟!" فكَأَنَّ ذَلِكَ ثَقُلَ عَلَى أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُمْ عِنْدَ ذَلِكَ: قُولُوا:" حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ، عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا".
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں خوش اور آسودہ حال کیسے رہ سکتا ہوں اور قرن (سینگ)والا یقینا قرن کو لقمہ بنائے ہوئے ہے اور غور سے کان لگایا ہوا ہے، کہ کب پھونکنے کا حکم دیا جاتا ہے تو وہ پھونکے گا۔ گویا یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم پر گراں گزرا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تم کہو: ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے، اللہ پر ہی ہم نے بھروسہ کیا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 98]
تخریج الحدیث: «جامع ترمذي: 2431، الزهد، ابن مبارك: 557، صحیح ابن حبان (الموارد)617، مستدرك حاکم: 4/559، معجم صغیر طبراني: 1/24، حلیة الأولیاء، ابو نعیم: 5/10، 7/130، 312، تاریخ بغداد: 3/363۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 99
عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَسْلَمَ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا الصُّورُ؟ فَقَالَ:" قَرْنٌ يُنْفَخُ بِهِ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک بدوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: صور کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ سینگ ہے جس میں پھونکا جائے گا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 99]
تخریج الحدیث: «جامع ترمذي: 2430، مسند احمد: 2/162، 192، مسند دارمي: 2/344، حلیة الأولیاء، ابو نعیم: 7/243۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 100
عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَقْبِضُ اللَّهُ الأَرْضَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَيَطْوِي السَّمَاءَ بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، أَيْنَ مُلُوكُ الأَرْضِ؟".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ قیامت والے دن زمین کو مٹھی میں لے لے گا، پس آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر فرمائے گا: صرف میں بادشاہ ہوں، زمین کے بادشاہ کہاں ہیں؟ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 100]
تخریج الحدیث: «مسند دارمي: 2/233، سنن ابن ماجة: 33، صحیح بخاري: 4812۔»

حكم: صحیح


Previous    6    7    8    9    10    11    12    13    14    Next