1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند عبدالله بن عمر
متفرق
حدیث نمبر: 21
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: قَالَ عَطَاءٌ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " النَّمِيمَةُ، وَالشَّتِيمَةُ، وَالْحَمِيَّةُ فِي النَّارِ، فَلا يَجْتَمِعَانِ فِي صَدْرِ مُؤْمِنٍ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: چغل خوری، گالی گلوچ اور (جاہلی) حمیت جہنم میں لے جائے گی اور یہ دونوں چیزیں ایک مؤمن کے سینے میں اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔ [مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 21]
تخریج الحدیث: «المعجم الكبير للطبراني: 12/445: رقم الحديث: 13615، مجمع الزوائد: 8/91: رقم الحديث: 13124، السلسلة الضعيفه: رقم الحديث: 4703»
اس میں یزید بن سنان ضعیف راوی ہے، اسے ہیثمی اور محدث البانی نے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔

حكم: قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 22
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ وَمَا يَرَى أَحَدُنَا أَنَّهُ أَحَقُّ بِالدِّينَارِ وَالدِّرْهَمِ مِنْ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ، وَنَحْنُ الْيَوْمَ الدِّينَارُ وَالدِّرْهَمُ أَحَبُّ إِلَيْنَا مِنْ أَخِينَا الْمُسْلِمِ، وَذَلِكَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا ضَنَّ النَّاسُ بِالدِّينَارِ وَالدِّرْهَمِ، وَاتَّبَعُوا أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَتَرَكُوا الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَتَبَايَعُوا بِالْغَبْنِ أنزل اللَّهُ عَلَيْهِمْ ذُلا فَلَمْ يَرْفَعْهُ عَنْهُمْ حَتَّى يُرَاجِعُوا دِينَهُمْ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: ہم پر وہ وقت بھی آیا، جب ہر کوئی خود سے اپنے مسلمان بھائی کو دینار اور درہم کا زیادہ حق دار سمجھتا تھا اور آج ہمیں دینار و درہم اپنے مسلمان بھائیوں سے زیادہ محبوب ہیں اور یہ اس لیے ہے کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: جب لوگ دینارو درہم کے ساتھ بخیل ہو جائیں گے اور بیلوں کی دموں کے پیچھے چلیں گے اور اللہ کی راہ میں جہاد کو چھوڑ دیں گے اور لین دین میں دھوکہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر رسوائی مسلط کر دیں گے اور وہ رسوائی ان سے نہیں چھٹے گی یہاں تک کہ وہ اپنے دین کی طرف واپس آجائیں۔ [مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 22]
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 8/440: رقم الحديث: 4825، سنن ابي داؤد: الاجارة: باب فى النهي عن العينة: رقم الحديث: 3462 عن نافع عن ابن عمر، شعب الايمان للبيهقي: 6/92: رقم الحديث: 3920، حلية الاولياء: 1/313»
محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

حكم: قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 23
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لا يَتَعَارَّ سَاعَةً مِنَ اللَّيْلِ إِلا أَجْرَى السِّوَاكَ عَلَى فِيهِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جب بھی بیدار ہوتے تو مسواک کرتے تھے۔ [مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 23]
تخریج الحدیث: «مسند ابي يعلي: 10/33: رقم الحديث: 5661، مجمع الزوائد: 2/99: رقم الحديث: 2560»
ہیثمی اور حسین سلیم اسد نے اس کی سند کو ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔

حكم: إسناده ضعيف

حدیث نمبر: 24
وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ أُمَّتِي هَذِهِ تُوَفِّي سَبْعِينَ أُمَّةً نَحْنُ آخِرُهَا، وَخَيْرُهَا".
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری یہ امت ستر امتوں کا تتمہ ہے۔ہم سب سے آخری اور ان سے بہتر ہیں۔ [مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 24]
تخریج الحدیث: «سنن ترمذي: التفسير: باب ومن سورة اٰل عمران: رقم الحديث: 3001، سنن ابن ماجة: الزهد: باب صفة امة محمد: رقم الحديث: 4287، سنن دارمي: الرقاق: باب فى قول النبى انتم آخر الأمم: رقم الحديث: 2802: عن بهز بن حكيم عن ابيه عن جده»
امام ترمذی اور محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔

حكم: قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 25
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ قَيْسٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا عَطَاءٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَذَّنَ فَهُوَ أَحَقُّ أَنْ يُقِيمَ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اذان دی، وہی اقامت کاحق دار ہے۔ [مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 25]
تخریج الحدیث: «سنن ترمذي: الاذان: باب ما جاء ان من أذن فهو يقيم: رقم الحديث: 199: عن زياد بن الحارث الصدائي رضي اللّٰه عنه، سنن ابي داؤد: الصلاة: باب فى الرجل يؤذن ويقيم آخرُ: رقم الحديث: 514، سنن ابن ماجة: الاذان: باب السنة فى الأذان: رقم الحديث: 717»
امام ترمذی نے کہا: اس کی سند میں عبد الرحمن بن زیاد انعم افریقی ضعیف راوی ہے، محدثین اور یحییٰ بن سعید القطان نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ محدث البانی نے بھی اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔

حكم: قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 26
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ الْخَفَّافُ الْعِجْلِيُّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ إِذْ لَقِيَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ فِي النَّجْوَى؟ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" يَدْنُو الْمُؤْمِنُ مِنْ رَبِّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُ بَذْجٌ، قَالَ أَبُو النَّصْرِ: قَالَ قَتَادَةُ: الْبَذْجُ: السَّخْلَةُ، فَيَضَعُ عَلَيْهِ كَنَفَهُ، يَعْنِي سِتْرَهُ، فَيَقُولُ لَهُ: هَلْ تَعْرِفُ؟ هَلْ تَعْرِفُ؟ فَيَقُولُ: رَبِّ أَعْرِفُ، رَبِّ أَعْرِفُ، فَيَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُ؟ فَيَقُولُ: رَبِّ أَعْرِفُ، فَيَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُ؟ فَيَقُولُ: رَبِّ أَعْرِفُ، فَيَقُولُ: أَنَا سَتَرْتُهَا عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا، وَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ، قَالَ: وَيُعْطَى صَحِيفَةَ حَسَنَاتِهِ، قَالَ: وَأَمَّا الْكَافِرُ، وَالْمُنَافِقُونَ، فَيُنَادِيهِمْ عَلَى رُءُوسِ الأَشْهَادِ: هَؤُلاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ، أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ، قَالَ قَتَادَةُ: فَلَمْ يُخْزَ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ يَخْفَى خِزْيُهُ عَلَى أَحَدٍ مِنَ الْخَلائِقِ".
صفوان بن محرز کہتے ہیں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے کہ انہیں ایک آدمی ملا اور اس نے کہا: اے ابو عبدا لرحمن! آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کی کیفیت سے متعلق کیا سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: قیامت کے دن مؤمن اپنے رب کے قریب ہوگا، گویا وہ بھیڑ یا بکری کا بچہ ہے اور وہ اس پر پردہ ڈال دیں گے اور اس سے پوچھیں گے۔ کیاتو جانتا ہے؟ کیا تو جانتا ہے؟ اور وہ کہے گا، اے میرے رب! میں جانتاہوں،اے میرے رب! میں جانتا ہوں۔ وہ پھر پوچھیں گے، کیا تم جانتے ہو؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! میں جانتا ہوں۔ وہ پھر پوچھیں گے کیا تم جانتے ہو؟ وہ کہے گا اے میرے رب میں جانتا ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: میں نے دنیا میں اس پر تیری پردہ پوشی کی اور آج میں اس کو تجھے معاف کرتا ہوں۔ پھر اسے نیکیوں کا صحیفہ عطا کریں گے۔
اور کفار و منافقین کوتمام لوگوں کے روبرو آواز دی جائے گی۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کو جھٹلایا، خبردار ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس دن کسی ایسے شخص کو رسوا نہیں کیا جائے گا جس نے مخلوق میں سے کسی سے اپنی رسوائی کو چھپایا ہوگا۔
[مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 26]
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري: التفسير: باب قوله ’’وبقول الاشهاد هٰولاء الذين كذبوا: رقم الحديث: 4685، صحيح مسلم: التوبة: باب فى سعة رحمة اللّٰه تعالىٰ على المؤمنين … الخ: رقم الحديث: 2768»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 27
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، حَدَّثَنَا الْهَيَّاجُ بْنُ بِسْطَامٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الأَشْتَرِ، فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَعِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ حِينَ هَاجَ هَيْجَةَ النَّاسِ مَعَ ابْنِ الزُّبَيْرِ عَلَى يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، إِذْ دَخَلَ عَلَيْهِ ابْنُ عُمَرَ، فَأَمَرَ بِوِسَادَةٍ، فَبُسِطَتْ لَهُ، فَقَالَ: إِنِّي لَمْ آتِكَ لأَجْلِسَ، وَلَكِنِّي أَرَدْتُ أَنْ أُحَدِّثَكَ عَمَّا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ خَلَعَ الطَّاعَةَ، لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ، لا طَاعَةَ عَلَيْهِ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً". قَالَ: ثُمَّ انْصَرَفَ.
عبد اللہ بن اشتر کہتے ہیں: اللہ کی قسم! میں عبد اللہ بن مطیع کے پاس تھا جب عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہ یزید بن معاویہ پر حملہ آور ہوئے کہ ان کے پاس عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے انہوں نے تکیہ منگوایا جو ان کو پیش کیا گیا، تو انہوں نے فرمایا: میں آپ کے پاس بیٹھنے کے لیے نہیں آیا، بلکہ میں نے آپ کو ایک حدیث سنانے کا ارادہ کیا، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی۔ میں گواہی دیتا ہوں یقینا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جس نے (حکمران کی) اطاعت کو چھوڑ دیا وہ اللہ سے قیامت کے دن ملے گا تو اس کے پاس (نجات کی) دلیل نہ ہوگی اور جو کسی کی اطاعت کے بغیر فوت ہوا وہ جاہلیت کی موت فوت ہوا۔ وہ (عبد اللہ بن عمر) پھر واپس تشریف لے گئے۔ [مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 27]
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم: الامارة: باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين … الخ: 1851: عن نافع وأسلم»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 28
حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ، عَنْ سِنَانِ بْنِ هَارُونَ، عَنْ كُلَيْبٍ، قَالَ مُرَّةُ: ابْنُ وَائِلٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِتْنَةً، وَمَرَّ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ، قَالَ:" يُقْتَلُ هَذَا مَظْلُومًا"، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَحِمَهُ اللَّهُ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنے کا تذکرہ کیا تو ایک آدمی چہرے کو ڈھانپے وہاں سے گزرا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس سے متعلق) فرمایا: یہ مظلوم قتل کیا جائے گا۔ میں نے انہیں دیکھا تو وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔ [مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 28]
تخریج الحدیث: «سنن ترمذي: المناقب: باب قولهم كنا نقول ابوبكر و عمر و عثمان: رقم الحديث: 3708، مسند احمد: 10/169: رقم الحديث: 5953»
محدث البانی نے اسے ’’حسن الإسناد‘‘ قرار دیا ہے۔

حكم: قال الشيخ الألباني: إسناده حسن

حدیث نمبر: 29
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصَفَّى، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ شَرِيكٍ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ كُلَيْبِ بْنِ وَائِلٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا تُسَاكِنُوا الأَنْبَاطَ فِي بِلادِهِمْ، فَإِنْ نَازَعُوكُمُ الْكَلامَ وَاخْتَبَئُوا فِي الأَقْنِيَةِ، فَالْهَرَبَ الْهَرَبَ، وَلا تُنَاكِحُوا الْخُوزَ، فَإِنَّ لَهُمْ أُصُولا تَدْعُو إِلَى غَيْرِ الْوَفَاءِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نبطی قبائل کے ساتھ ان کے شہروں میں سکونت اختیار نہ کرو۔ اور اگر وہ تم سے بات چیت میں اختلاف کریں تو ان سے گریز کرو۔ ان سے بچ کر رہو، ان سے بچ کر رہو اور خوزستانیوں سے شادی نہ کر، کیونکہ ان کی جڑوں میں بے وفائی ہے۔ [مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 29]
تخریج الحدیث: «الكامل لابن عدي: 2/272، ميزان الاعتدال: 1/335، سير اعلام النبلاء: 8/528»
حافظ ذہبی اور ابن عدی نے اسے ’’منکر‘‘ روایت قرار دیا ہے۔

حكم: منکر

حدیث نمبر: 30
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ قُدَامَةَ بْنِ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي حَنْظَلَةَ، عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ، عَنْ يَسَارِ بْنِ نُمَيْرٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: رَآنِي ابْنُ عُمَرَ وَأَنَا أُصَلِّي هَذِهِ الصَّلاةَ بَعْدَ صَلاةِ الْفَجْرِ، فَقَالَ: يَا يَسَارُ، كَمْ صَلَّيْتَ؟ فَقُلْتُ: لا أَدْرِي، قَالَ: لا دَرَيْتَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، خَرَجَ عَلَيْنَا وَنَحْنُ نُصَلِّي هَذِهِ الصَّلاةَ فَتَغَيَّظَ عَلَيْنَا، وَقَالَ:" لِيُبَلِّغْ شَاهِدُكُمْ غَائِبَكُمْ، لا صَلاةَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلا رَكْعَتَيْنِ".
یسار بن نمیر مولی ابن عمر کہتے ہیں، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے نماز فجر کے بعد نماز پڑھتے دیکھا تو پوچھا: اے یسار! کتنی رکعات پڑھیں؟ میں نے عرض کیا: مجھے معلوم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: آپ کو معلوم ہی نہیں ہے۔ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم یہ نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ نے ہم پر ناراضگی کااظہار کیا اور فرمایا: تم میں سے جو موجود تمہارے غیر حاضر کو پہنچا دے۔ بے شک طلوع فجر کے بعد دو رکعات (سنت فجر) کے علاوہ (نفل) نماز نہیں ہے۔ [مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 30]
تخریج الحدیث: «سنن ابي داؤد: التطوع: باب من رخص فيها اذا كانت الشمس مرتفعة: رقم الحديث: 1278، سنن ترمذي: الصلاة: باب ما جاء لا صلاة بعد طلوع الفجر الا ركعتين: رقم الحديث: 419»
محدث البانی نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔

حكم: قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next