1. باب: اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”جس پر زبردستی کی جائے اور درآنحالیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو لیکن جس کا دل کفر ہی کے لیے کھل جائے تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہو گا اور ان کے لیے عذاب درد ناک ہو گا۔
اور سورۃ آل عمران میں فرمایا یعنی ”یہاں یہ ہو سکتا ہے کہ تم کافروں سے اپنے کو بچانے کے لیے کچھ بچاؤ کر لو۔ ظاہر میں ان کے دوست بن جاؤ یعنی تقیہ کرو۔“ اور سورۃ نساء میں فرمایا ”بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے کہیں گے کہ تم کس کام میں تھے وہ بولیں گے کہ ہم اس ملک میں بےبس تھے اور ہمارے لیے اپنے قدرت سے کوئی حمایتی کھڑا کر دے۔“ آخر آیت تک۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کمزور لوگوں کو اللہ کے احکام نہ بجا لانے سے معذور رکھا اور جس کے ساتھ زبردستی کی جائے وہ بھی کمزور ہی ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس کام سے منع کیا ہے وہ اس کے کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اور امام حسن بصری نے کہا کہ تقیہ کا جواز قیامت تک کے لیے ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جس کے ساتھ چوروں نے زبردستی کی ہو (کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے) اور پھر اس نے طلاق دے دی تو وہ طلاق واقع نہیں ہو گی یہی قول ابن زبیر، شعبی اور حسن کا بھی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِكْرَاهِ/حدیث: Q6940]
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے خالف بن یزید نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی ہلال بن اسامہ نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دعا کرتے تھے کہ اے اللہ عیاش بن ابی ربیعہ، سلمہ بن ہشام اور ولید بن الولید (رضی اللہ عنہم) کو نجات دے۔ اے اللہ بےبس مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ قبیلہ مضر کے لوگوں کو سختی کے ساتھ پیس ڈال اور ان پر ایسی قحط سالی بھیج جیسی یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں آئی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِكْرَاهِ/حدیث: 6940]
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب الطائفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے ابوقلابہ نے بیان کیا، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تین خصوصیتیں ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں گی وہ ایمان کی شیرینی پا لے گا اول یہ کہ اللہ اور اس کے رسول اسے سب سے زیادہ عزیز ہوں۔ دوسرے یہ کہ وہ کسی شخص سے محبت صرف اللہ ہی کے لیے کرے تیسرے یہ کہ اسے کفر کی طرف لوٹ کر جانا اتنا ناگوار ہو جیسے آگ میں پھینک دیا جانا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِكْرَاهِ/حدیث: 6941]
ہم سے سعید بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے عباد نے، ان سے اسماعیل نے، انہوں نے قیس سے سنا، انہوں نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے اپنے آپ کو اس حال میں پایا کہ اسلام لانے کی وجہ سے (مکہ معظمہ میں) عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے باندھ دیا تھا اور اب جو کچھ تم نے عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا ہے اس پر اگر احد پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے تو اسے ایسا ہی ہونا چاہئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِكْرَاهِ/حدیث: 6942]
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے، کہا ہم سے قیس نے بیان کیا، ان سے خباب بن الارت رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا حال زار بیان کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کعبہ کے سایہ میں اپنی چادر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے بہت سے نبیوں اور ان پر ایمان لانے والوں کا حال یہ ہوا کہ ان میں سے کسی ایک کو پکڑ لیا جاتا اور گڑھا کھود کر اس میں انہیں ڈال دیا جاتا پھر آرا لایا جاتا اور ان کے سر پر رکھ کر دو ٹکڑے کر دئیے جاتے اور لوہے کے کنگھے ان کے گوشت اور ہڈیوں میں دھنسا دئیے جاتے لیکن یہ آزمائشیں بھی انہیں اپنے دین سے نہیں روک سکتی تھیں۔ اللہ کی قسم! اس اسلام کا کام مکمل ہو گا اور ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک اکیلا سفر کرے گا اور اسے اللہ کے سوا اور کسی کا خوف نہیں ہو گا اور بکریوں پر سوا بھیڑئیے کے خوف کے (اور کسی لوٹ وغیرہ کا کوئی ڈر نہ ہو گا) لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِكْرَاهِ/حدیث: 6943]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
2. بَابٌ في بَيْعِ الْمُكْرَهِ وَنَحْوِهِ فِي الْحَقِّ وَغَيْرِهِ:
2. باب: جس کے ساتھ زبردستی کی جائے یا اسی طرح کسی شخص کا بیچنا حق وغیرہ کو مجبوری سے کوئی بیچ کھوچ کا یا اور معاملہ کرے۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم مسجد میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ یہودیوں کے پاس چلو۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے اور جب ہم بیت المدراس کے پاس پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی اے قوم یہود! اسلام لاؤ تم محفوظ ہو جاؤ گے۔ یہودیوں نے کہا: ابوالقاسم! آپ نے پہنچا دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا بھی یہی مقصد ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی فرمایا اور یہودیوں نے کہا کہ ابوالقاسم آپ نے پہنچا دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ یہی فرمایا۔ اور پھر فرمایا تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور میں تمہیں جلا وطن کرتا ہوں۔ پس تم میں سے جس کے پاس مال ہو اسے چاہئے کہ جلا وطن ہونے سے پہلے اسے بیچ دے ورنہ جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِكْرَاهِ/حدیث: 6944]
(اور اللہ نے سورۃ النور میں فرمایا)”تم اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو جو پاک دامن رہنا چاہتی ہیں تاکہ تم اس کے ذریعہ دنیا کی زندگی کا سامان جمع کرو اور جو کوئی ان پر جبر کرے گا تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ بخشنے والا مہربان ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِكْرَاهِ/حدیث: Q6945]
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن القاسم نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے یزید بن حارثہ انصاری کے دو صاحبزادوں عبدالرحمٰن اور مجمع نے اور ان سے خنساء بنت خذام انصاریہ نے کہ ان کے والد نے ان کی شادی کر دی ان کی ایک شادی اس سے پہلے ہو چکی تھی (اور اب بیوہ تھیں) اس نکاح کو انہوں نے ناپسند کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر (اپنی ناپسندیدگی ظاہر کر دی) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو فسخ کر دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِكْرَاهِ/حدیث: 6945]
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے، ان سے ابوعمرو نے جن کا نام ذکوان ہے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا عورتوں سے ان کے نکاح کے سلسلہ میں اجازت لی جائے گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں۔ میں نے عرض کیا لیکن کنواری لڑکی سے اجازت لی جائے گی تو وہ شرم کی وجہ سے چپ سادھ لے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی خاموشی ہی اجازت ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِكْرَاهِ/حدیث: 6946]
اور بعض لوگوں نے کہا اگر مکرہ سے کوئی چیز خریدے اور خریدنے والا اس میں کوئی نذر کر دے تو یہ مدبر کرنا درست ہو گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِكْرَاهِ/حدیث: Q6947]