15. باب: اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ المائدہ) میں فرمایا کہ ”جو لوگ اللہ اور رسول سے جنگ لڑتے اور ملک میں فساد پھیلاتے رہتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا سولی دئیے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پیر الٹے سیدھے یعنی دائیں بائیں سے کاٹے جائیں یا جلا وطن یا قید کئے جائیں“۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ جرمی نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبیلہ عکل کے چند لوگ آئے اور اسلام قبول کیا لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہیں آئی (ان کے پیٹ پھول گئے) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ صدقہ کے اونٹوں کے ریوڑ میں جائیں اور ان کا پیشاب اور دودھ ملا کر پئیں۔ انہوں نے اس کے مطابق عمل کیا اور تندرست ہو گئے لیکن اس کے بعد وہ مرتد ہو گئے اور ان اونٹوں کے چرواہوں کو قتل کر کے اونٹ ہنکا لے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاش میں سوار بھیجے اور انہیں پکڑ کے لایا گیا پھر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دی گئیں (کیونکہ انہوں نے اسلامی چرواہے کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کیا تھا) اور ان کے زخموں پر داغ نہیں لگوایا گیا یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ [صحيح البخاري/كتاب المحاربين/حدیث: 6802]
ہم سے ابویعلیٰ محمد بن صلت نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، کہا مجھ سے اوزاعی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرینیوں کے (ہاتھ پاؤں) کٹوا دئیے لیکن ان پر داغ نہیں لگوایا، یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ [صحيح البخاري/كتاب المحاربين/حدیث: 6803]
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سنہ ۶ ھ میں آئے اور یہ لوگ مسجد کے سائبان میں ٹھہرے۔ مدینہ منورہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہیں آئی۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہمارے لیے دودھ کہیں سے مہیا کرا دیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو میرے پاس نہیں ہے۔ البتہ تم لوگ ہمارے اونٹوں میں چلے جاؤ۔ چنانچہ وہ آئے اور ان کا دودھ اور پیشاب پیا اور صحت مند ہو کر موٹے تازے ہو گئے۔ پھر انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہنکا لے گئے۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فریادی پہنچا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاش میں سوار بھیجے۔ ابھی دھوپ زیادہ پھیلی بھی نہیں تھی کہ انہیں پکڑ کر لایا گیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سلائیاں گرم کی گئیں اور ان کی آنکھوں میں پھیر دی گئیں اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور ان کے (زخم سے خون کو روکنے کے لیے) انہیں داغا بھی نہیں گیا۔ اس کے بعد وہ حرہ (مدینہ کی پتھریلی زمین) میں ڈال دئیے گئے، وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ ابوقلابہ نے کہا کہ یہ اس وجہ سے کیا گیا تھا کہ انہوں نے چوری کی تھی، قتل کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول سے غدارانہ لڑائی لڑی تھی۔ [صحيح البخاري/كتاب المحاربين/حدیث: 6804]
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ قبیلہ عکل یا عرینہ کے چند لوگ میں سمجھتا ہوں عکل کا لفظ کہا، مدینہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دودھ دینے والی اونٹنیوں کا انتظام کر دیا اور فرمایا کہ وہ اونٹوں کے گلہ میں جائیں اور ان کا پیشاب اور دودھ پئیں۔ چنانچہ انہوں نے پیا اور جب وہ تندرست ہو گئے تو چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہنکا لے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ خبر صبح کے وقت پہنچی تو آپ نے ان کے پیچھے سوار دوڑائے۔ ابھی دھوپ زیادہ پھیلی بھی نہیں تھی کہ وہ پکڑ کر لائے گئے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کے بھی ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور ان کی بھی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی اور انہیں حرہ میں ڈال دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابوقلابہ نے کہا کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے چوری کی تھی، قتل کیا تھا، ایمان کے بعد کفر اختیار کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول سے غدارانہ لڑائی لڑی تھی۔ [صحيح البخاري/كتاب المحاربين/حدیث: 6805]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
19. بَابُ فَضْلِ مَنْ تَرَكَ الْفَوَاحِشَ:
19. باب: جس نے فواحش (زناکاری، اغلام بازی وغیرہ) کو چھوڑ دیا اس کی فضیلت۔
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عمر عمری نے، انہیں خبیب بن عبدالرحمٰن نے، انہیں حفص بن عاصم نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے عرش کے نیچے سایہ دے گا جبکہ اس کے عرش کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ عادل حاکم، نوجوان جس نے اللہ کی عبادت میں جوانی پائی، ایسا شخص جس نے اللہ کو تنہائی میں یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے، وہ آدمی جو اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں، وہ شخص جسے کسی بلند مرتبہ اور خوبصورت عورت نے اپنی طرف بلایا اور اس نے جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور وہ شخص جس نے اتنا پوشیدہ صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ دائیں نے کتنا اور کیا صدقہ کیا ہے۔“[صحيح البخاري/كتاب المحاربين/حدیث: 6806]
ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا ہم سے عمر بن علی نے بیان کیا۔ (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا) اور مجھ سے خلیفہ بن حیاط نے بیان کیا، ان سے عمر بن علی نے، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد ساعدی نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے مجھے اپنے دونوں پاؤں کے درمیان یعنی (شرمگاہ) کی اور اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان (یعنی زبان) کی ضمانت دے دی تو میں اسے جنت میں جانے کا بھروسہ دلاتا ہوں۔“[صحيح البخاري/كتاب المحاربين/حدیث: 6807]
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الفرقان میں) ارشاد فرمایا «ولا يزنون»”اور وہ لوگ زنا نہیں کرتے“ اور (سورۃ بنی اسرائیل) میں فرمایا «ولا تقربوا الزنا إنه كان فاحشة وساء سبيلا»”اور زنا کے قریب نہ جاؤ کہ وہ بےحیائی کا کام ہے اور اس کا راستہ برا ہے۔“[صحيح البخاري/كتاب المحاربين/حدیث: Q6808]
ہمیں داؤد بن شبیب نے خبر دی، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، کہا ہم کو انس رضی اللہ عنہ نے خبر دی ہے کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کروں گا کہ میرے بعد کوئی اسے نہیں بیان کرے گا۔ میں نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یا یوں فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ علم دین دنیا سے اٹھ جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی، شراب بکثرت پی جانے لگے گی اور زنا پھیل جائے گا۔ مرد کم ہو جائیں گے اور عورتوں کی کثرت ہو گی۔ حالت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ پچاس عورتوں پر ایک ہی خبر لینے والا مرد رہ جائے گا۔ [صحيح البخاري/كتاب المحاربين/حدیث: 6808]
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو اسحاق بن یوسف نے خبر دی، کہا ہم کو فضیل بن غزوان نے خبر دی، انہیں عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بندہ جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ بندہ جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا اور بندہ جب شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا اور جب وہ قتل ناحق کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ عکرمہ نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ایمان اس سے کس طرح نکال لیا جاتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اس طرح اور اس وقت آپ ان نے اپنی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر پھر الگ کر لیا پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو ایمان اس کے پاس لوٹ آتا ہے، اس طرح اور آپ نے اپنی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالا۔ [صحيح البخاري/كتاب المحاربين/حدیث: 6809]
ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ذکوان نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا، وہ چور جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا، شرابی جب شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ پھر ان سب آدمیوں کے لیے توبہ کا دروازہ بہرحال کھلا ہوا ہے۔“[صحيح البخاري/كتاب المحاربين/حدیث: 6810]