سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے زیادہ معزز ایمان یہ ہے کہ لوگ تمہیں امانت دار سمجھیں، اور سب سے زیادہ معزز اسلام یہ ہے کہ لوگ تمہارى زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہیں، اور سب سے زیادہ معزز ہجرت یہ ہے کہ تم گناہوں کو چھوڑ دو، اور سب سے زیادہ معزز جہاد یہ ہے کہ تم اپنى جان اس کى راہ میں دے دو اور تمہارا گھوڑا بھى ذبح ہو جائے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْإِيمَان/حدیث: 1]
تخریج الحدیث: «صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 10، وله شواهد من حديث عبد الله بن عمرو بن العاص فأما حديث عبد الله بن عمرو بن العاص أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 10، 6484، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 40، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4999، وأحمد فى «مسنده» برقم: 6626»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر دین کا ایک خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خلق حیاء ہے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْإِيمَان/حدیث: 2]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، أخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 4181، قال الشيخ الألباني: حسن، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1758، والطبراني فى «الصغير» برقم: 13، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3573 قال ابن عبدالبر: ذلك عندنا خطأ، التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد: (21 / 141) وقال النسائي: معاوية بن يحيى الصدفي ضعيف .الكامل في الضعفاء: (8 / 138)»
ابوغالب بیان کرتے ہیں جب خارجیوں کے سر لائے گئے اور مسجد دمشق کى ایک سیڑھى پر رکھے گئے تو لوگ انہیں دیکھنے آرہے تھے، میں بھى انہیں دیکھنے نکلا تو ابوامامہ رضی اللہ عنہ ایک گدھے پر سوار ہو کر آئے، وہ ایک سنبلانی قمیص پہنے ہوئے تھے، انہوں نے ان کو دیکھا اور کہنے لگے: اس امّت کے ساتھ شیطان نے کیا کچھ کر دیا۔ یہ بات انہوں نے دو دفعہ کہى، پھر فرمایا: آسمان کے سائے تلے سب سے بدترین مقتول یہ ہیں اور جنہیں انہوں نے قتل کیا وہ بہترین مقتول ہیں۔ پھر فرمایا: یہ (خارجى) جہنم کے کتے ہیں۔ تین دفعہ کہہ کر رو پڑے، پھر واپس چلے گئے۔ ابوغالب نے کہا: میں بھی ان کے پیچھے چلا گیا، پھر میں نے کہا: میں نے آپ سے تھوڑى دیر پہلے ایک بات سنى ہے تو کیا وہ بات آپ نے کہی ہے؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ میں ایسی جرأت کیسے کر سکتا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کئى بار فرماتے ہوئے سنا ہے۔ میں نے کہا: پھر آپ روئے بھى ہیں، تو وہ کہنے لگے: ہاں، ان پر رحم کھاتے ہوئے کہ وہ بھی پہلے کبھى مسلمان تھے۔ پھر انہوں نے مجھے فرمایا: کیا تم قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، تو کہنے لگے: آل عمران پڑھو، میں نے پڑھى تو فرمانے لگے: کیا تم نے سنا ہے کہ اللہ تعالىٰ فرماتے ہیں کہ ”جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ قرآن کى متشابہ آیات پر چلتے ہیں“، گویا ان کے دلوں میں کجی تھى جس نے انہیں ٹیڑھا چلایا۔ پھر کہا: سو (100) آیات کے آخر سے پڑھیں، تو میں نے پڑھا: ﴿يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾ ”جس دن کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے تو جن لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے انہیں کہا جائے گا: کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا تھا؟“ تو میں نے کہا: اے ابوامامہ! کیا یہ وہى لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں! یہ وہى لوگ ہیں۔ [معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْإِيمَان/حدیث: 3]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 2669، 2670، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3000، قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 176، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16883، 16884، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22581، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1232، والحميدي فى «مسنده» برقم: 932، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 18663، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 39047، وأخرجه الطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 2519، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 7553، 8033، 8034، 8035، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 7202، 7660، 9085، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 33، 1096 قال الهيثمي: ورجاله ثقات، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (6 / 233)»
حكم: إسناده صحيح ) وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 2669
سیدنا عروہ بن مضرس طائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی (روزِ قیامت) اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبّت کرتا ہے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْإِيمَان/حدیث: 4]
تخریج الحدیث: «صحيح، أخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 395، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2206، والطبراني فى «الصغير» برقم: 59 رجاله رجال الصحيح غير زيد بن الحريش وهو ثقة، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (10 / 281)»
حكم: صحيح
5. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ باندھنے کا انجام
اسی سند سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے، تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْإِيمَان/حدیث: 5]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 67، وله شواهد من حديث على بن أبى طالب، فأما حديث على بن أبى طالب أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 106، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2660، 3715، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 31، وأحمد فى «مسنده» برقم: 594 قال الهيثمي: رواه الطبراني في الصغير وشيخه أحمد بن إسحاق بن إبراهيم بن نبيط كذبه صاحب الميزان وبقية إسناده لم أر من ذكر أحدا منهم إلا الصحابي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (1 / 146)»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تو وہ صاف سل پر چیونٹی کے تاریکی رات میں چلنے کو دس فرسخ کی مسافت سے دیکھ رہا تھا۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْإِيمَان/حدیث: 6]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، انفرد به المصنف من هذا الطريق، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 77 قال الهيثمي: وفيه الحسين بن أبي جعفر الجفري وهو متروك، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (8 / 203)»
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک گناہ نہیں بخشا جاتا، اور ایک گناہ نہیں چھوڑا جاتا، اور ایک گناہ بخش دیا جاتا ہے۔ جو گناہ نہیں بخشا جاتا ہے وہ اللہ ساتھ شرک کرنا ہے، اور جو گناہ نہیں چھوڑا جاتا وہ لوگوں کے ایک دوسرے پر ظلم ہیں، اور جو گناہ بخش دیا جاتا ہے وہ بندے کى اللہ کے حقوق میں کوتاہى ہے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْإِيمَان/حدیث: 7]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 6133، والطبراني فى «الصغير» برقم: 102 قال الهيثمي: فيه يزيد بن سفيان بن عبد الله بن رواحة وهو ضعيف تكلم فيه ابن حبان وبقية رجاله ثقات، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (10 / 348)»
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ کوئى روح پیدا کرنا چاہتا ہے تو آدمى اپنی عورت سے مجامعت کرتا ہے، ہر رگ اور پٹھے سے اس کا پانى اڑ جاتا ہے، اور جب ساتواں دن ہوتا ہے تو اللہ تعالىٰ ہر ایک رگ کو اس کے اور آدم علیہ السلام کے درمیان حاضر کرتا ہے۔“ اور پھر یہ آیت پڑھى: «﴿فِي أَيِّ صُوْرَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ﴾»”جس صورت میں بھى اس نے چاہا تجھے جوڑ دیا۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْإِيمَان/حدیث: 8]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 644، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1613، والطبراني فى «الصغير» برقم: 106 قال الهيثمي: رجاله ثقات، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (7 / 134)»
حكم: إسناده صحيح
9. امت کے کن اعمال سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ڈرتے تھے
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا: ”سب سے بڑی چیز جس کے متعلق میں اپنی امّت سے ڈر رہا ہوں وہ آسمانی ستاروں کی منازل سے پانی طلب کرنا ہے، اور بادشاہ کے ظلم اور تقدیر کو جھٹلانے سے ڈرتا ہوں۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْإِيمَان/حدیث: 9]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، أخرجه أحمد فى «مسنده» برقم: 21185،قال شعيب الارناؤط: ضعيف، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7462، 7470، والبزار فى «مسنده» برقم: 4288، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 1853، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 1852، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 112، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» برقم: 749»
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین آدمى ہیں جن کو دوہرا اجر دیا جائے گا، ایک اہلِ کتاب کا وہ آدمى جو اپنے نبى پر بھى ایمان لائے اور پھر نبى صلی اللہ علیہ وسلم کو پاکر ان پر بھى ایمان لائے، اور دوسرا وہ ہے کہ جس کى ایک لونڈى ہو، وہ اسے آزاد کر کے اس سے شادى کر لے، اور ایک وہ غلام ہے جو اللہ سے بھى ڈرا اور اپنے آقا کے حقوق بھى ادا کیے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْإِيمَان/حدیث: 10]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 97، 2544، 2547، 2551، 3011، 3446، 5083، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 154، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 227، 4053، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3344، 3345، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5476، 5477، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2053، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1116، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2290، 2291، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1956، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 912، 913، 914، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13851، 13852، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19841، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 503، 504، والحميدي فى «مسنده» برقم: 786، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7256، 7308، 7323، والبزار فى «مسنده» برقم: 2976، 3155، 3156، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13111، 13112، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1868، 3049، 5875، والطبراني فى «الصغير» برقم: 113، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 12777، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 1968، 1969»