سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: تم میں سے کسی کو کون سی چیز روکتی ہے کہ جب وہ بازار یا اپنی ضرورت پوری کر کے گھر لوٹے تو اپنے بستر پر بیٹھ کر قرآن کی تین آیات پڑھ لے۔ [سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3368]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3379] » اس اثر کی سند صحیح ہے۔ فطر: ابن خلیفہ، اور حکم: ابن عتبہ، اور مقسم: ابن بجرہ ہیں۔ دیکھئے: [الزهد لابن المبارك 807] ، [طبراني 398/11، 12119] ، [شعب الإيمان للبيهقي 2003]
2. باب خِيَارُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ:
2. تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سب سے بہتر و اچھا وہ ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے۔“[سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3369]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف عبد الرحمن بن إسحاق، [مكتبه الشامله نمبر: 3380] » اس سند سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن دوسری اسانید سے صحیح ہے۔ «كما سياتي» ۔ دیکھئے: [ترمذي 2911] ، [ابن أبى شيبه 10121] ، [عبداللہ فى زوائد المسند 153/1] ، [ابن الضريس فى فضائل القرآن 136] ، [أبوالفضل الرازي فى فضائله 38، 39] و [تمام فى فوائده 212] ، [القضاعي مسند الشهاب 1241] ، [خطيب فى تاريخه 459/10]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3381] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5027] ، [أبوداؤد 1457] ، [ترمذي 2907] ، [ابن ماجه 211] ، [نسائي فى فضائل القرآن 61، 62] و [ابن الضريس 132] ، [أبويعلی 136/2] و [البيهقي فى شعب الإيمان 2207، وغيرهم]
مصعب بن سعد نے اپنے والد سے روایت کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا“، راوی (عاصم) نے کہا: انہوں (مصعب) نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اس مقام پر بٹھایا اور میں پڑھاتا ہوں۔ [سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3371]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «حديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3382] » اس حدیث کی سند میں حارث بن نبہان متروک ہیں، لیکن اس کا شاہد صحیح اوپر گذر چکا ہے۔ مزید حوالہ کے لئے دیکھئے: [ابن منصور 102/1، 20] ، [أبويعلی 814] ، [ابن ماجه 213]
سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی قرآن پڑھ کر (حفظ کر کے) بھول جائے وہ قیامت کے دن الله تعالیٰ سے کٹے ہوئے ہاتھ والا ہو کر ملے گا۔“(یعنی خالی ہاتھ یا بے زبان ہو کر ملے گا)۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: عیسیٰ: ابن فائد ہیں۔ [سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3372]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «في هذا الإسناد ثلاث علل: جهالة عيسى بن فائد وجهالة الرجل وضعف يزيد بن أبي زياد، [مكتبه الشامله نمبر: 3383] » اس حدیث کی سند میں تین علتیں ہیں جہالہ عیسیٰ بن فائد اور جہالہ رجل اور ضعف یزید بن ابی زیاد۔ یکھئے: [أبوداؤد 1474] ، [أحمد 284/5] ، [عبدبن حميد 306] و [البزار فى كشف الاستار 1642] ، [ابن أبى شيبه 10044] ، [عبدالرزاق 5989] ، [أبوالفضل عبدالرحمٰن فى فضائل القرآن 1]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کثرت سے قرآن کی تلاوت کرو اس سے پہلے کہ وہ اٹھا لیا جائے، لوگوں نے کہا: یہ مصاحف اٹھا لئے جائیں گے لیکن لوگوں کے سینوں سے کیسے (قرآن) اٹھایا جائے گا؟ جواب دیا کہ ان پر ایک رات گزرے گی کہ وہ اس سے محروم ہو جائیں گے اور لا الہ الا الله تک کہنا بھول جائیں گے اور جاہلیت کے قول اشعار میں پڑ جائیں گے اور یہ اس وقت ہو گا جب ان پر الله کا قول واقع ہو جائے گا۔ [سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3373]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف موسى بن عبيدة وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 3384] » موسیٰ بن عبیدہ کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، باقی رواة ثقات ہیں لیکن دوسری جید سند سے بھی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے موقوفاً ایسے ہی مروی ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10242] ، [ابن منصور 335/2، 97] ، [عبدالرزاق 5981] ، [الزهد لابن المبارك 803] ، [طبراني 153/9، 8698]
سلام بن ابی مطیع نے کہا: قتادہ رحمہ اللہ کہتے تھے: اپنے دلوں کو آباد کرو، اور اپنے گھروں کو آباد رکھو۔ راوی نے کہا: میرے خیال میں ان کا مقصد تھا قرآن سے آباد کرو۔ [سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3374]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «سلام بن أبي مطيع في روايته عن قتادة كلام وهو موقوف على قتادة. وما وقفت عليه في غير هذا المكان، [مكتبه الشامله نمبر: 3385] » سلام کی قتادہ رحمہ اللہ سے روایت میں کلام ہے۔ کہیں اور یہ روایت نہیں ملی۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک رات قرآن پاک پر ایسی گزرے گی کہ ایک آیت بھی نہ مصحف میں رہے گی نہ کسی کے دل میں باقی رہے گی، بلکہ اٹھا لی جائے گی۔ [سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3375]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن إلى عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 3386] » اس اثر کی سند عبداللہ تک حسن و موقوف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10242] ، [عبدالرزاق 5980] و [البخاري فى خلق أفعال العباد، ص: 86]
قتادہ رحمہ اللہ نے کہا: قرآن کے لئے جو بھی بیٹھا، پھر کھڑا ہوا تو وہ زیادتی یا نقصان لے کر اٹھے گا، پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی: «﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا﴾»[الاسراء: 82/17] یعنی ”یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے، ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی۔“[سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3376]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير بن أبي عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 3387] » محمد بن کثیر بن ابی عطا کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، اور قتادہ رحمہ اللہ پر موقوف ہے۔ دیکھئے: [فضائل أبوعبيد، ص: 56-57]
ثابت بن عجلان انصاری نے کہا: یہ کہا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ زمین کو عذاب کا ارادہ کرتا ہے لیکن جب بچوں کو حکمت کی تعلیم لیتے سنتا ہے تو ارادہ بدل دیتا ہے۔ مروان نے کہا: حکمت سے مراد قرآن کی تعلیم ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3377]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف رفدة بن قضاعة وهو موقوف على ثابث، [مكتبه الشامله نمبر: 3388] » رفده بن قضاعہ کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، جو ثابت بن عجلان پر موقوف ہے۔ «وانفرد به الدارمي» ۔