سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس داخل ہونے کی اجازت مانگی لیکن انہیں اجازت نہ ملی، چنانچہ وہ واپس ہوگئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تم واپس کیوں چلے گئے؟ عرض کیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اجازت طلب کرنے والا داخلے کی تین بار اجازت مانگے، اگر اجازت مل جائے تو داخل ہو جائے ورنہ واپس لوٹ جائے۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم کو اس بات پر گواہ لانا ہوگا ورنہ میں تمہارے ساتھ بہت برا سلوک کروں گا۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور میں بھی اس جماعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ساتھ مسجد میں موجود تھا۔ سیدنا ابوموسیٰ سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی انہیں تنبیہ کی وجہ سے بہت گھبرائے ہوئے تھے۔ وہ ہمارے پاس کھڑے ہوئے اور کہا: کہ میں تم لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کسی آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہو تو میرے ساتھ اس کی گواہی دے، سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سر اٹھایا اور کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بتا دو کہ میں نے بھی تمہارے ساتھ یہ سنا ہے اور دیگر صحابہ کرام نے بھی ان کی تائید کی، چنانچہ یہ سن کر سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ خوش ہو گئے۔ [سنن دارمي/من كتاب الاستئذان/حدیث: 2665]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح أبو النعمان هو: محمد بن الفضل وداود هو: ابن أبي هند وأبو نضرة هو: المنذر بن مالك، [مكتبه الشامله نمبر: 2671] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابونعمان کا نام محمد بن الفصل ہے، اور داؤد: ابن ابی ہند ہیں، اور ابونضرۃ کا نام منذر بن کعب ہے، اور یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6245] ، [مسلم 2153] ، [أبوداؤد 5180] ، [ترمذي 2690] ، [ابن ماجه 3706] ، [أبويعلی 981] ، [ابن حبان 5806] ، [الحميدي 751]
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: میں ہوں، فرمایا: ”میں،“ میں یعنی اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا۔ [سنن دارمي/من كتاب الاستئذان/حدیث: 2666]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2672] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6250] ، [مسلم 2155] ، [أبوداؤد 5187] ، [ترمذي 2711] ، [ابن ماجه 3709] ، [ابن حبان 5808]
3. باب في النَّهْيِ أَنْ يَطْرُقَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ لَيْلاً:
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اس سے کہ کوئی آدمی رات میں اپنے گھر میں آئے گھر والوں کی خیانت یا چوری پکڑنے کو، یا ان کا قصور ڈھونڈنے کو۔ سفیان نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ «يخونهم» اور «يلتمس عثراتهم» یہ محارب نے اپنی طرف سے کہا یا یہ حدیث کے الفاظ ہیں؟ [سنن دارمي/من كتاب الاستئذان/حدیث: 2667]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2673] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5243] ، [مسلم 184/715] ، [أبوداؤد 2778] ، [ترمذي 2712] ، [أبويعلی 1843] ، [ابن حبان 2713] ، [الحميدي 1334]
سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لا رہے تھے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ تک رہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو لوگ باہر نکل کر آئے۔ میں ان میں تھا اور جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھا تو (دل میں) کہا کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا، اس وقت سب سے پہلی بات جو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی یہ تھی: ”لوگو! سلام پھیلاؤ (یعنی آپس میں بھی سلام کیا کرو)، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، اور جب لوگ سوتے ہوں تو تم نماز پڑھو، جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔“[سنن دارمي/من كتاب الاستئذان/حدیث: 2668]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2674] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2485] ، [ابن ماجه 1334] ، [ابن سني فى عمل اليوم و الليلة 215] ، [شرح السنة 40/4] و [الحاكم 13/3] ، [أبويعلی 108/11، وغيرهم]
امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں: جب ملے تو اسے سلام کرے، جب اسے چھینک آئے تو جواب دے (یعنی چھینکنے والا الحمد للہ کہے تو جواب میں یرحمک اللہ کہے)، بیمار ہو جائے تو اس کی بیمار پرسی کرے، جب اسے دعوت دے تو قبول کر لے، جب فوت ہو جائے تو (تجہیز و تکفین و تدفین میں) حاضری دے۔ جو اپنے لئے پسند کرے وہی اپنے مسلمان بھائی کے لئے پسند کرے اور اس کی غیر حاضری میں اس کی خیر خواہی کرے۔“[سنن دارمي/من كتاب الاستئذان/حدیث: 2669]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن الحارث هو: ابن عبد الله الأعور، [مكتبه الشامله نمبر: 2675] » اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2736] ، [ابن ماجه 1433] ، [أبويعلی 435، وغيرهم وله شاهد عند مسلم 2162]
سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوار پیدل چلنے والے کو، اور کھڑا شخص بیٹھے ہوئے کو، تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔“[سنن دارمي/من كتاب الاستئذان/حدیث: 2670]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وأبو هانئ هو: حميد بن هانئ وأبو علي هو: عمرو بن مالك، [مكتبه الشامله نمبر: 2676] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2705] ، [ابن حبان 497] ، [موارد الظمآن 1936] ۔ ابوہانی کا نام حمید بن ہانی، اور ابوعلی کا نام عمرو بن مالک ہے۔
7. باب في رَدِّ السَّلاَمِ عَلَى أَهْلِ الْكِتَابِ:
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہودیوں میں سے کوئی جب سلام کرتا ہے تو کہتا ہے «السام عليك» تمہیں موت آئے (سو) تم جواب میں کہو: «عليك» یعنی تمہارے ہی اوپر موت پڑے۔“[سنن دارمي/من كتاب الاستئذان/حدیث: 2671]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده قوي وهو عند مالك في كتاب السلام، [مكتبه الشامله نمبر: 2677] » اس روایت کی سند بہت قوی ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6257] ، [مسلم 2164] ، [أبوداؤد 5206] ، [ابن حبان 502]
سیار نے کہا: میں ثابت البنانی کے ہمراہ چل رہا تھا، وہ بچوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں سلام کرتے، پھر حدیث بیان کی کہ وہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، جب بچوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں سلام کرتے، اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ بچوں کے پاس سے گذرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الاستئذان/حدیث: 2672]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2678] » اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6247] ، [مسلم 2168] ، [أبوداؤد 5202] ، [ترمذي 2696] ، [ابن ماجه 3700] ، [أحمد 183/3] ، [أبويعلی 3799] ، [شرح السنة 3305] ، [عمل اليوم و الليلة لابن السني 226]
بنوعبدالاشہل کی ایک خاتون سیدہ اسماء بنت یزید بن سکن رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ کچھ عورتوں کے ساتھ تھیں جن کے پاس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گزرے تو انہیں سلام کیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الاستئذان/حدیث: 2673]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2679] » اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 5204] ، [ترمذي 2698] ، [ابن ماجه 3701] ، [أحمد 452/6] ، [الأدب المفرد 1047]
10. باب إِذَا قُرِئَ عَلَى الرَّجُلِ السَّلاَمُ كَيْفَ يَرُدُّ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مبارکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”اے عائش! یہ جبریل علیہ السلام ہیں جو تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ انہوں نے کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ دیکھ رہے تھے جو میں نہ دیکھتی تھی (یعنی جبریل علیہ السلام کو)۔ [سنن دارمي/من كتاب الاستئذان/حدیث: 2674]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2680] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6249] ، [مسلم 2447/91] ، [أبوداؤد 5232] ، [ترمذي 2693] ، [نسائي 3958] ، [ابن ماجه 3696] ، [أبويعلی 4781] ، [ابن حبان 7098] ، [الحميدي 279]