ابونجیح نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص قدرت نکاح کے باوجود نکاح (شادی) نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔“[سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2201]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات وقد صرح ابن إسحاق بالتحديث ولكن الحديث مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 2210] » اس حدیث کے راوی ثقات ہیں اور ابن اسحاق نے حدثنا سے صراحت کی ہے لیکن یہ حدیث مرسل ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [مجمع الزوائد 7396] ، [المطالب العالية 1579] و [مراسيل أبى داؤد 202]
2. باب مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَوْلٌ فَلْيَتَزَوَّجْ:
2. اس کا بیان کہ جس کے پاس استطاعت ہو اس کو شادی کر لینی چاہیے
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نوجوان، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہمیں کوئی چیز میسر نہ تھی۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے نو جوانو! تم میں سے جس کے پاس نکاح کی طاقت ہو اسے نکاح کر لینا چاہیے کیونکہ یہ نظر کو بہت زیادہ نیچی رکھنے والا اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے، اور جو نکاح کی (بوجہ غربت) طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ اس کی نفسانی (جنسی) خواہشات کا توڑ ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2202]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2211] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1905، 5066] ، [مسلم 1400] ، [ترمذي 1081] ، [نسائي 2238] ، [أبويعلی 5110] ، [ابن حبان 4026] ، [الحميدي 115]
علقمہ نے کہا: میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا کہ ان سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے (منیٰ میں) ملاقات کی اور فرمایا: اے ابوعبدالرحمٰن! کیا آپ منظور کریں گے کہ ہم آپ کا نکاح کسی کنواری لڑکی سے کردیں؟ جو آپ کو گزرے ہوئے ایام یاد دلا دے، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اگر آپ کا یہ مشورہ ہے تو سنیے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اے نوجوانو! تم میں جو بھی شادی کی طاقت رکھتا ہو اس کو نکاح کر لینا چاہیے اور جو طاقت نہ رکھتا ہو اسے روزہ رکھنا چاہیے کیونکہ یہ خواہشِ نفسانی کو توڑ دے گا۔“[سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2203]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2212] » اس روایت کی سند صحیح و حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1905، 5060] ، [مسلم 1398] ، [أبوداؤد 2046] ، [ترمذي 1081] ، [نسائي 2239] ، [ابن ماجه 1845]
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو عورت سے الگ رہنے کی اجازت نہیں دی، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی اپنے آپ کو خصی بنا لیتے. (تاکہ عورت کا خیال ہی نہ آئے)۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2204]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2213] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5074] ، [مسلم 1402] ، [ترمذي 1083] ، [ابن ماجه 1848] ، [أبويعلی 788] ، [ابن حبان 4027]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «تبتل»(عورت سے دور رہنے اور نکاح نہ کرنے) سے منع فرمایا۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2205]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2214] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1082] ، [نسائي 3216] ، [ابن ماجه 1849] ، [أحمد 157/5، وغيرهم]
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: جب سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا معاملہ پیش آیا جنہوں نے عورتوں سے ترک تعلق کر لیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایا اور فرمایا: ”اے عثمان! مجھے رہبانیت کا حکم نہیں دیا گیا ہے، کیا تم میری سنت سے بیزار ہو گئے؟“ عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ایسا نہیں ہے، فرمایا: ”پھر میری سنت تو یہ ہے کہ (رات کو) نماز پڑھتا ہوں تو سوتا بھی ہوں، روزہ رکھتا ہوں تو (افطار بھی کرتا رہتا ہوں) کھاتا بھی ہوں، نکاح بھی کرتا ہوں اور طلاق بھی دیتا ہوں۔ پس جس نے میرے طریقے سے بےرغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔“ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی صحابہ نے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ اگر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اس حالت پر برقرار رہنے کی اجازت دے دی تو ہم سب اپنے آپ کو خصی بنا لیتے اور (عورت سے) ترک تعلق کر لیتے۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2206]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2215] » اس حدیث کی تخریج (2204) پرگذر چکی ہے اور یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5063] ، [مسلم 1401]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتوں سے چار چیزوں کی بنیاد پر نکاح کیا جا تا ہے: دین، خوبصورتی، مال اور حسب نسب کی وجہ سے، اور تم دیندار عورت سے شادی کرو، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں (یعنی اگر ایسا نہیں کیا تو تمہارے ہاتھوں کو مٹی لگے گی اور اخیر میں تم کو ندامت ہو گی)۔“[سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2207]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2216] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5090] ، [مسلم 1466] ، [أبوداؤد 2047] ، [نسائي 3230] ، [أبويعلی 6578] ، [ابن حبان 4036]
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے انصار کی ایک خاتون کو شادی کا پیغام دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے تم دونوں کے درمیان محبت و موافقت زیادہ ہو گی۔“[سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2209]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2218] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1087] ، [نسائي 3235] ، [ابن ماجه 1865] ، [أبويعلی 3438] ، [ابن حبان 4043] ، [موارد الظمآن 1236]
6. باب إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ مَا يُقَالُ لَهُ:
6. جب کوئی شادی کر لے تو اس کے لئے کیا دعا کی جائے؟
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (ان کے چچا) سیدنا عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بصرہ تشریف لائے تو بنی جشم کی ایک عورت سے شادی کی، لوگوں نے عادت کے مطابق انہیں مبارکباد دی اور کہا: «بالرفاء والبنين»(یعنی خیر و برکت اور موافقت مودت اور بیٹوں کی امید کے ساتھ آپ کو شادی مبارک ہو)، اس پر انہوں نے کہا: ایسے نہ کہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں «بالرفاء و البنين» کہنے سے منع کیا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ یوں کہیں: «بَارَكَ اللّٰهُ لَكَ وَبَارَكَ عَلَيْكَ»، یعنی ”اللہ تعالیٰ تم کو برکت دے اور تمہارے اوپر برکت سایہ فگن رکھے۔“[سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2210]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «في القلب ميل إلى تصحيح هذا الإسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 2219] » یہ روایت دوسری اسانید سے صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 3371] ، [ابن ماجه 1906] ، [ابن السني فى عمل اليوم و الليلة 602] ، [النسائي فى الكبرى 10092] ، [طبراني فى الكبير 193/17، 512، 517، 518]