امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا: سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ دوپہر کو کھانا کھا رہے تھے کہ ان کا لقمہ نیچے گر گیا جس کا انہوں نے کچرا صاف کیا، پھر اسے کھا لیا تو کسان لوگ آنکھوں میں اشارے کرنے لگے، لوگوں نے ان سے عرض کیا: آپ دیکھ رہے ہیں یہ عجمی لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ دیکھو ان کے سامنے کتنا کھانا موجود ہے پھر بھی اس لقمے کو اٹھا کر کیا کر رہے ہیں۔ سیدنا معقل رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں ان عجمیوں کے کہنے کی وجہ سے چھوڑ نہیں سکتا جو میں نے سنا ہے، ہم کو حکم دیا جاتا تھا کہ جب تم میں سے کسی کا لقمہ نیچے گر جائے تو اس میں جو کوڑا (وغیرہ) لگ جائے اس کو صاف کر کے کھا لے۔ [سنن دارمي/من كتاب الاطعمة/حدیث: 2068]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لانقطاعه: الحسن لم يسمع معقل بن يسار ولكن المرفوع منه صحيح يشهد له سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2072] » اس حدیث کی سند میں انقطاع ہے، کیونکہ حسن رحمہ اللہ نے سیدنا معقل رضی اللہ عنہ سے سنا ہی نہیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک صحیح سند سے موجود ہے جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے۔ اس کا حوالہ دیکھئے: [ابن ماجه 3278] ، [طبراني 200/20، 450، 451]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی کھائے اور پئے تو دائیں ہاتھ سے کھائے اور پئے کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الاطعمة/حدیث: 2069]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2073] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2020/106] ، [أبوداؤد 3776] ، [ترمذي 1799] ، [ابن ماجه 3266] ، [أبويعلی 5568] ، [ابن حبان 5226] ، [الحميدي 648]
ایاس بن ابی سلمہ نے کہا: میرے والد نے مجھ سے حدیث بیان کی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسر بن راعی العیر کو دیکھا کہ وہ بایاں ہاتھ سے کھا رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دایاں ہاتھ سے کھاؤ“، اس نے کہا: مجھ سے نہیں ہو سکتا، فرمایا: ”اللہ کرے تجھ سے نہ ہو سکے“(یعنی داہنے ہاتھ سے اگر جھوٹے ہو تو کبھی نہ کھا سکو)، راوی نے کہا: پھر کبھی اس کا داہنا ہاتھ اس کے منہ تک نہ پہنچ سکا۔ [سنن دارمي/من كتاب الاطعمة/حدیث: 2071]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2075] » اس روایت کی سند حسن ہے لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2021] ، [ابن حبان 6512، 6513] ، [ابن ابي شيبه 4497]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین انگلیوں سے کھاتے اور اپنے ہاتھ چاٹنے سے پہلے صاف نہیں کرتے تھے۔ (یعنی صاف کرنے سے پہلے انہیں چاٹ لیتے تھے)۔ [سنن دارمي/من كتاب الاطعمة/حدیث: 2072]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2076] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2032] ، [أبوداؤد 3848] ، [ابن حبان 5251] ۔ اس سند میں ابومعاویہ کا نام محمد بن حازم ہے۔
عبداللہ بن کعب یا عبدالرحمٰن بن کعب (شک ہشام بن عروہ کو ہوا) نے خبر دی، ان کے والد سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تین انگلیوں سے کھاتے تھے، جب کھانے سے فارغ ہوتے تو انہیں چاٹ لیتے۔ ہشام بن عروہ نے تین انگلیوں کی طرف اشارہ کر کے سمجھایا۔ [سنن دارمي/من كتاب الاطعمة/حدیث: 2073]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2077] » اس روایت کی سند جید ہے اور عبدالله و عبدالرحمٰن دونوں سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں جو ثقات التابعين میں سے ہیں، اس حدیث کا حوالہ اوپر گذر چکا ہے۔
سیدنا ابوشریح الخزاعی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت (خاطر مدارات) کرے۔ مہمان داری ایک دن ایک رات (کی فرض) ہے اور مہمانی تین دن تک سنت ہے، اس کے بعد (مہمان اگر رکا رہے اور میزبان اس پر کچھ خرچ کرے تو یہ) صدقہ ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الاطعمة/حدیث: 2074]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2078] » اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن دوسری سند سے حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6019، 6135] ، [مسلم 48 فى كتاب الايمان] ، [ترمذي 1967] ، [ابن ماجه 3675] ، [ابن حبان 5287] ، [الحميدي 585] ، [أبويعلی الموصلي 6218]
سیدنا ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے، اور جو شخص الله اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس پر لازم ہے کہ بھلی بات کہے ورنہ چپ رہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الاطعمة/حدیث: 2075]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2079] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6136] ، [مسلم 48، وغيرهما كما مر آنفا]
سیدنا ابوکریمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بھی کسی قوم کا مہمان بنا (یعنی ان کے پاس مہمان بن کر آیا) اور صبح تک ویسے ہی بے نصیب رہا (یعنی کسی نے اس کی مہمان داری نہ کی) تو اس کی مدد کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے یہاں تک کہ وہ مہمان اپنی مہمانی اس قوم کی زراعت اور مال میں سے لے سکتا ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الاطعمة/حدیث: 2076]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2080] » اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3751] ، [ابن ماجه 3677] ، [أحمد 131/4، 133] ، [مشكل الآثار للطحاوي 40/4] ، [دارقطني 287/4] ، [ابن حبان 5288] ، اور [بخاري 3461] و [مسلم 1727] میں بھی اس کا شاہد موجود ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مکھی تم میں سے کسی کے (کھانے) پانی میں گر جائے تو وہ پوری مکھی کو برتن میں ڈبو دے اور پھر اسے نکال کر پھینک دے کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے پر میں شفا ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الاطعمة/حدیث: 2077]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2081] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3320] ، [أبوداؤد 3844] ، [ابن ماجه 3505] ، [أبويعلی 986] ، [ابن حبان 1246، 1247]