سیدنا ابورزین لقيط بن عامر عقیلی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم دور جاہلیت میں ماہ رجب میں قربانی کیا کرتے تھے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا: ”ذبح کرنے میں کوئی برائی نہیں۔“(یعنی جب اللہ کے لئے ذبح کیا جائے تو کسی بھی مہینے میں قربانی ہو کوئی حرج نہیں «كما فى النسائي وغيره»)۔ امام وکیع رحمہ اللہ نے کہا: میں اس کو کبھی ترک نہیں کرتا ہوں۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 2004]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2008] » اس روایت کی سند جید ہے، دیکھئے: [نسائي 4244] ، [ابن ماجه 3167 نحوه] ، [ابن حبان 5891] ، [موارد الظمآن 1067]
سیدہ ام کرز رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقہ کے بارے میں فرمایا: ”لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ہیں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کفایت کرتی ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 2005]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2009] » اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2834] ، [ترمذي 1516] ، [نسائي 4227] ، [ابن ماجه 3162] ، [ابن حبان 5313] ، [موارد الظمآن 1060] ، [مسند الحميدي 349]
سیدنا سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑکے کے ساتھ عقیقہ لگا ہوا ہے سو تم اس کی طرف سے جانور ذبح کرو، اور اس کی گندگی دور کرو۔“(یعنی بال منڈاؤ اور ختنہ کراؤ اور غسل دو)۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 2006]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إن كانت حفصة سمعته من سلمان. والحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2010] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5472] ، [أبوداؤد 2839] ، [ترمذي 1515] ، [نسائي 4225] ، [ابن ماجه 3164] ، [الحميدي 842] ، [نيل الأوطار 223/5-227]
سیدہ ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑکے کی طرف سے دو ایک جیسی بکریاں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 2007]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2011] » تخریج اوپر گذر چکی ہے۔
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے روایت کیا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر لڑکا اپنے عقیقے میں گروی ہے، اس کی طرف سے ساتویں دن قربانی کی جائے، اس کے بال مونڈے جائیں اور خون (اس کے سر پر) لگایا جائے۔“ راوی حدیث امام قتادہ رحمہ اللہ خون لگانے کا طریقہ اس طرح بتاتے تھے کہ جب جانور ذبح کیا جائے تو اس کے بالوں (اون) میں سے ایک ٹکڑا لیا جائے اور جانور کی رگوں پر رکھ دیا جائے، پھر وہ ٹکڑا نومولود بچے کی چندیا پر رکھ دیا جائے یہاں تک کہ دھاگوں کی طرح اس بچے کے سر سے خون بہنے لگے، پھر اس کا سر دھویا جائے، اس کے بعد بچے کے بال مونڈے جائیں۔ عفان نے کہا: ابان نے بھی ہم سے یہ حدیث بیان کی لیکن «دمي» کے بجائے «يسمي» کہا یعنی خون سے لتھیڑنے کے بجائے یہ کہا کہ اس کا نام رکھا جائے۔ (مطلب یہ کہ راوی سے اس کلمے میں سہو یا وہم ہو گیا ہے)۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: خون سے سر کو لتھیڑنا میں واجب نہیں سمجھتا۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 2008]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2012] » اس حدیث میں امام حسن بصری رحمہ اللہ کے سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے سماع میں کلام ہے، لیکن حدیث کی اصل صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5472] ، [أبوداؤد 2838] ، [ترمذي 1522] ، [نسائي 4231] ، [ابن ماجه 3165] ، [طيالسي 1117] ، [طبراني 6831] ، [مشكل الآثار 453/1] ، [الحاكم 237/4]
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو چیزیں حفظ کیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان (یعنی رحم و انصاف) کو فرض کیا ہے، سو تم (قصاص یا جہاد میں) جب قتل کرو تو جلدی فراغت کرو (ترسا ترسا کر نہ مارو) اور دوسرے جب کسی جانور کو ذبح کرو تو ٹھیک سے ذبح کرو اور تم میں سے ہر کوئی اپنی چھری کو تیز کر لے اور پھر اپنے ذبیحہ کو (جلد ذبح کر کے) راحت پہنچائے، اذیت میں مبتلا نہ کرے۔“[سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 2009]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2013] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1955] ، [أبوداؤد 2815] ، [ترمذي 1409] ، [نسائي 4417] ، [ابن ماجه 3170] ، [ابن حبان 5883]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک عورت (لونڈی) سلع پہاڑی پر آل کعب بن مالک کی بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ایک دن ان بکریوں میں سے ایک کے مر جانے کا اسے خوف ہوا تو اس نے ایک پتھر لیا (جو دھار دار تھا) اور اس مرتی ہوئی بکری کو اس سے ذبح کر دیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عورت کے پتھر سے ذبح کرنے کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کو کھانے کا حکم فرمایا: (یعنی وہ حلال اور اس کا گوشت بھی حلال تھا)۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 2010]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2014] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5503، 5505] ، [ابن حبان 5892] ، [موارد الظمآن 1075] ، [ابن ماجه 3182]
12. باب في ذَبِيحَةِ الْمُتَرَدِّي في الْبِئْرِ:
12. جانور کنوئیں میں گر جائے تو کس طرح ذبح کیا جائے؟
ابوالعشراء (اسامہ بن مالک) نے اپنے والد سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا حلق اور کوڑی ہی کے بیچ میں ذبح کرنا ضروری ہے؟ فرمایا: ”اگر تم اس کی ران چھید دو تو بھی تمہارے لئے کافی ہے۔“ حماد بن سلمہ نے کہا: ہم اس کو کنویں میں گرے ہوئے جانور پر محمول کرتے ہیں۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 2011]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2015] » اس حدیث کی سند ضعیف ہے کیونکہ ابوالعشراء مجہول، ان کے والد غیر معروف، جن سے حماد بن سلمہ کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا۔ حوالہ دیکھے: [أبوداؤد 2825] ، [ترمذي 1481] ، [نسائي 4420] ، [ابن ماجه 3184] ، [فتح الباري 641/9]
سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مدینے کے راستوں میں سے ایک راستے سے گزر رہا تھا، اچانک کچھ لڑکوں کو دیکھا کہ وہ (ایک مرغی کو باندھ کر اس کا) نشانہ لگا رہے ہیں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کس نے ایسا کیا ہے؟ وہ سب ادھر ادھر بھاگ گئے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیوان کا مثلہ کرنے والے پر لعنت کی ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 2012]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2016] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5515] ، [مسلم 1958] ، [نسائي 4453] ، [أبويعلی 5652] ، [ابن حبان 5617]
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندہ جانور کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا، سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر وہ جانور مرغی ہی کیوں نہ ہو میں اسے باندھ کر نہیں ماروں گا۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 2013]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 2017] » اس روایت کی سند قوی اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2687] ، [أبويعلی 2497، 6790] ، [ابن حبان 5609] ، [الموارد 1072]