الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
حدیث نمبر: 1506
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل هُوَ ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ فِي السُّجُودِ فِي ص:"لَيْسَتْ مِنْ عَزَائِمِ السُّجُودِ، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجَدَ فِيهَا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہ ص کے سجدے کے بارے میں کہا: یہ ضروری سجود تلاوة میں سے نہیں، اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر سجدے کرتے دیکھا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1506]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1508] »
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ [بخاري 1069، 3422] ، [أبوداؤد 1409] ، [ترمذي 577] ، [نسائي 956] ، [ابن حبان 2766]

162. باب السُّجُودِ في: {إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ}:
162. «إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ» کے سجدے کا بیان
حدیث نمبر: 1507
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَسْجُدُ فِي إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ، فَقِيلَ لَهُ: تَسْجُدُ فِي سُورَةٍ مَا يُسْجَدُ فِيهَا؟ فَقَالَ:"إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْجُدُ فِيهَا".
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو د یکھا: «إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ» [سورة الانشقاق] میں سجدے کرتے ہیں، ان سے عرض کیا گیا: آپ اس سورۃ میں سجدہ کرتے ہیں جس میں سجدہ نہیں کیا جاتا تھا، تو انہوں نے کہا: میں نے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1507]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1509] »
اس روایت کی سند حسن ہے، لیکن حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 766، 768] ، [مسلم 578] ، [نسائي 960] ، [أبويعلی 5950] ، [ابن حبان 2761]

حدیث نمبر: 1508
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَسْجُدُ فِي إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَرَاكَ تَسْجُدُ فِي إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ، فَقَالَ: "لَوْ لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجَدَ فِيهَا، لَمْ أَسْجُدْ".
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو «إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ» [سورة الانشقاق 1/84] میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو عرض کیا: اے ابوہریرہ! یہ کیا میں تمہیں «إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ» میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھتا ہوں؟ جواب دیا کہ اگر میں اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرتے نہ دیکھتا تو میں بھی کبھی سجدہ نہ کرتا۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1508]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1510] »
یہ روایت بھی صحیح ہے۔ تخریج اوپر ذکر کی جاچکی ہے۔ دیکھئے: [أبويعلی 5996] ، یہ بھی متفق علیہ حدیث ہے۔

حدیث نمبر: 1509
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "سَجَدَ فِي إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ» میں سجدہ کیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1509]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1511] »
اس روایت کی سند بھی صحیح اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 768] ، [مسلم 578] ، [أبويعلی 5950] ، [الحميدي 1022]

163. باب السُّجُودِ في: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ}:
163. «اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ» میں سجدے کا بیان
حدیث نمبر: 1510
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ عَطَاءِ بْنِ مِينَاء، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "سَجَدْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ وَاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ «إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ» اور «اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ» (سورہ العلق) میں سجدہ کیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1510]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1512] »
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 578] ، [أبوداؤد 1407] ، [ترمذي 573] ، [نسائي 966] ، [ابن ماجه 1058] ، [أبويعلی 5990] ، [ابن حبان 2761] ، [الحميدي 1021]

164. باب في الذي يَسْمَعُ السَّجْدَةَ فَلاَ يَسْجُدُ:
164. کوئی شخص آیت سجدہ سنے اور سجدہ نہ کرے
حدیث نمبر: 1511
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ:"قَرَأْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجْمَ فَلَمْ يَسْجُدْ فِيهَا".
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سورة النجم پڑھی اور آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1511]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1513] »
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1072] ، [مسلم 577] ، [أبوداؤد 1404] ، [ترمذي 576] ، [نسائي 959] ، [ابن حبان 2767]

165. باب صِفَةِ صَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
165. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (رات کی) نماز کا طریقہ
حدیث نمبر: 1512
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يُصَلِّي مَا بَيْنَ الْعِشَاءِ إِلَى الْفَجْرِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُسَلِّمُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ، وَيَسْجُدُ فِي سُبْحَتِهِ بِقَدْرِ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ، فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ الْأَذَانِ الْأَوَّلِ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ، فَيَخْرُجَ مَعَهُ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء اور فجر کے درمیان گیارہ رکعت پڑھتے تھے، ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے، اور اپنی اس صلاة تہجد میں سر اٹھانے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا (لمبا) سجدہ کرتے تھے کہ تم میں سے کوئی پچاس آیت پڑھ لے، پھر جب مؤذن فجر کی اذان سے فارغ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہلکی دو رکعتیں پڑھتے اور (دائیں) کروٹ پر لیٹ رہتے یہاں تک کہ مؤذن آپ کے پاس حاضر ہوتا اور آپ اس کے ساتھ باہرتشریف لے جاتے۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1512]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1514] »
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 626] ، [مسلم 736] ، [أبويعلی 4650] ، [ابن حبان 2431]

حدیث نمبر: 1513
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَوَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ، فَقَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يُصَلِّي ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي ثَمَانَ رَكَعَاتٍ ثُمَّ يُوتِرُ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ , قَامَ فَرَكَعَ , وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَاءِ وَالْإِقَامَةِ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے کہا: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ رکعتیں (رات میں نماز) پڑھتے تھے، پہلے آٹھ رکعت پڑھتے پھر وتر پڑھتے، پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے، جب رکوع کا ارادہ فرماتے تو کھڑے ہو جاتے پھر رکوع کرتے، اور دو رکعت فجر کی اذان و اقامت (تکبیر) کے درمیان پڑھتے تھے۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1513]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1515] »
اس حدیث کی سند صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 619] ، [مسلم 737] ، [أبوداؤد 1340] ، [نسائي 1755]

حدیث نمبر: 1514
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَأَتَى الْمَدِينَةَ لِبَيْعِ عَقَارِهِ فَيَجْعَلَهُ فِي السِّلَاحِ وَالْكُرَاعِ، فَلَقِيَ رَهْطًا مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالُوا: أَرَادَ ذَلِكَ سِتَّةٌ مِنَّا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَنَعَهُمْ وَقَالَ:"أَمَا لَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ؟". ثُمَّ إِنَّهُ قَدِمَ الْبَصْرَةَ، فَحَدَّثَنَا أَنَّهُ لَقِيَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلَهُ عَنْ الْوِتْرِ، فَقَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكَ بِأَعْلَمِ النَّاسِ بِوِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةُ، فَأْتِهَا فَاسْأَلْهَا ثُمَّ ارْجِعْ إِلَيَّ فَحَدِّثْنِي بِمَا تُحَدِّثُكَ. فَأَتَيْتُ حَكِيمَ بْنَ أَفْلَحَ فَقُلْتُ لَهُ: انْطَلِقْ مَعِي إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ، قَالَ: إِنِّي لَا آتِيهَا، إِنِّي نَهَيْتُ عَنْ هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ، فَأَبَتْ إِلَّا مُضِيًّا. قُلْتُ: أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ لَمَا انْطَلَقْتَ، فَانْطَلَقْنَا، فَسَلَّمْنَا، فَعَرَفَتْ صَوْتَ حَكِيمٍ، فَقَالَتْ: مَنْ هَذَا؟ قُلْتُ: سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ. قَالَتْ: مَنْ هِشَامٌ؟ قُلْتُ: هِشَامُ بْنُ عَامِرٍ. قَالَتْ: نِعْمَ الْمَرْءُ، قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ. قُلْتُ: أَخْبِرِينَا عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَتْ: "أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قُلْتُ: بَلَى. قَالَتْ: فَإِنَّهُ خُلُقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُومَ وَلَا أَسْأَلَ أَحَدًا عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَلْحَقَ بِاللَّهِ، فَعَرَضَ لِي الْقِيَامُ. فَقُلْتُ: أَخْبِرِينَا عَنْ قِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَتْ: "أَلَسْتَ تَقْرَأُ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ؟ قُلْتُ: بَلَى. قَالَتْ: فَإِنَّهَا كَانَتْ قِيَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُنْزِلَ أَوَّلُ السُّورَةِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ، وَحُبِسَ آخِرُهَا فِي السَّمَاءِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ أُنْزِلَ، فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ أَنْ كَانَ فَرِيضَةً"، فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُومَ وَلَا أَسْأَلَ أَحَدًا عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَلْحَقَ بِاللَّهِ، فَعَرَضَ لِي الْوِتْرُ. فَقُلْتُ: أَخْبِرِينَا عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "إِذَا نَامَ، وَضَعَ سِوَاكَهُ عِنْدِي فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ لِمَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ، فَيُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ، فَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيَدْعُو رَبَّهُ، ثُمَّ يَقُومُ وَلَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يَجْلِسُ فِي التَّاسِعَةِ، فَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيَدْعُو رَبَّهُ وَيُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً يُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يَا بُنَيَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَمَلَ اللَّحْمَ، صَلَّى سَبْعَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ إِلَّا فِي السَّادِسَةِ، فَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيَدْعُو رَبَّهُ، ثُمَّ يَقُومُ وَلَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يَجْلِسُ فِي السَّابِعَةِ، فَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيَدْعُو رَبَّهُ، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَتِلْكَ تِسْعٌ، يَا بُنَيَّ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا غَلَبَهُ نَوْمٌ أَوْ مَرَضٌ، صَلَّى مِنْ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَخَذَ خُلُقًا، أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهِ، وَمَا قَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً حَتَّى يُصْبِحَ، وَلَا قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ، وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ". فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ: صَدَقَتْكَ، أَمَا إِنِّي لَوْ كُنْتُ أَدْخُلُ عَلَيْهَا، لَشَافَهْتُهَا مُشَافَهَةً. قَالَ: فَقُلْتُ: أَمَا إِنِّي لَوْ شَعَرْتُ أَنَّكَ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهَا مَا حَدَّثْتُكَ..
سعد بن ہشام سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور زمین جائیداد بیچنے کے لئے مدینہ منورہ تشریف لائے تاکہ (اس کی قیمت سے) اسلحہ اور گھوڑے خریدیں، چنانچہ وہ انصار کی ایک جماعت سے ملے تو انہوں نے بتایا کہ ہم میں سے چھ افراد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایسا ہی ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا اور فرمایا: کیا تمہارے لئے میرا اسوه (اچھا) نہیں ہے؟ پھر وہ (سعد) واپس بصرہ لوٹ آئے اور بیان کیا کہ وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ملے اور ان سے وتر کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت کا پتہ نہ بتلا دوں؟ میں نے کہا: ضرور بتایئے، کہا: وہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، لہٰذا تم ان کے پاس جاؤ اور ان سے دریافت کرو، پھر میرے پاس آنا اور بتانا کہ انہوں نے کیا بیان کیا، میں حکیم بن افلح کے پاس گیا اور ان سے درخواست کی کہ میرے ساتھ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلئے، حکیم نے کہا: میں تو ان کے پاس نہیں جاؤں گا، میں نے ان کو دونوں گروہوں کے بیچ بولنے سے منع کیا تھا (یعنی صحابہ کرام کی آپسی لڑائی میں) لیکن انہوں نے نہیں مانا اور چلی گئیں، لیکن میں نے حکیم سے اصرار کیا، قسم دلائی، آخر وہ راضی ہو گئے اور ہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چل پڑے، انہیں جب ہم نے سلام کیا تو وہ حکیم کی آواز کو پہچان گئیں، اور کہا: یہ کون ہیں، انہوں نے بتایا کہ یہ سعد بن ہشام ہیں، پوچھا کون سے ہشام؟ میں نے کہا: ہشام بن عامر، کہنے لگیں: وہ کتنے اچھے شخص تھے، احد کے دن شہید ہو گئے، میں نے عرض کیا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتایئے، کہا: کیا تم قرآن پاک نہیں پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: یقیناً پڑھتا ہوں، انہوں نے کہا: آپ کا خلق وہی تھا جو قرآن میں ہے، پھر میں نے چلنے کا ارادہ کیا اور چاہا کہ موت کے وقت تک کسی سے کوئی چیز نہ پوچھوں، لیکن مجھے قیام کا مسئلہ یاد آ گیا اور میں نے عرض کیا: آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے بارے میں بتلایئے، جواب دیا: کیا تم «يا ايها المزمل» نہیں پڑھتے ہو؟ عرض کیا: پڑھتا ہوں، فرمایا: وہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام تھا، اس سورة کی ابتدائی آیات جب نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے قیام کیا یہاں تک کہ ان کے پیر سوج گئے، اور آخری آیت کو آسمان میں سولہ مہینے تک (نزول سے) روک لیا گیا، پھر جب آخری آیت نازل ہوئی تو قیام الیل (تہجد) فرض سے نفل قرار پائی، میں نے پھر ارادہ کیا کہ اٹھ جاؤں اور اللہ سے ملاقات کے وقت تک اب کسی سے کوئی سوال نہ کروں کہ وتر کا مجھے خیال آ گیا، چنانچہ میں نے عرض کیا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں بتایئے، فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آرام کا ارادہ کرتے تو مسواک میرے پاس رکھ دیتے، پھر جب اللہ تعالیٰ چاہتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا دیتا تو آپ نو رکعت نماز پڑھتے اور آٹھویں رکعت پر (تشہد کے لئے) بیٹھتے، اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے اور پروردگار سے دعا مانگتے، اور پھر ایک بار ہی سلام پھیرتے جو ہمیں سنا دیتے، پھر بیٹھ کر دو رکعت پڑھتے، اے بیٹے! یہ کل گیارہ رکعتیں ہوتیں تھیں، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر زیادہ ہوئی اور بدن بھاری ہو گیا، تو آپ نے سات رکعتیں پڑھیں، جن میں چھٹی رکعت میں بیٹھتے، اللہ کی تعریف کرتے، اس سے دعا مانگتے اور پھر ایک بار سلام پھیرتے، پھر بیٹھے بیٹھے دو رکعت نماز پڑھتے، اس طرح اے بیٹے! یہ کل نو رکعتیں ہوئیں، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نیند یا کسی بیماری کا غلبہ ہوتا (اور رات میں تہجد نہ پڑھ پاتے) تو دن میں بارہ رکعت نفل نماز پڑھتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی اچھے کام کو اپناتے تو اس پر ہمیشگی آپ کو محبوب تھی، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری رات صبح تک کبھی قیام نہیں کیا، اور نہ آپ نے ایک رات میں پورا قرآن پڑھا، اور نہ آپ نے رمضان کے علاوہ کسی پورے مہینے کے روزے رکھے۔ یہ سن کر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوری حدیث انہیں سنا دی تو انہوں نے کہا: انہوں (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) نے تمہیں سچی بات بتائی، اگر میں ان کے پاس جاتا ہوتا تو منہ در منہ ان سے یہ حدیث سنتا، میں نے کہا: اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ ان کے پاس نہیں جاتے ہیں تو میں کبھی ان کی بات آپ سے نہ کہتا۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1514]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1516] »
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 746] ، [أبوداؤد 1343] ، [ترمذي 445] ، [ابن ماجه 1191] ، [أبويعلی 4650] ، [ابن حبان 2420، 2423] ، [ابوعوانه 321/2]

166. باب أَيُّ اللَّيْلِ أَفْضَلُ:
166. قیام اللیل کون سے وقت میں زیادہ افضل ہے
حدیث نمبر: 1515
أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ عَوْفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ، الصَّلَاةُ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز بیچ رات کی نماز ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1515]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 1517] »
اس روایت کی سند میں یزید بن عوف مختلف فیہ ہیں، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1163/203] ، [أبوداؤد 2429] ، [ترمذي 438] ، [نسائي 1612] ، [أبويعلی 6392] ، [ابن حبان 2563] ، [الحاكم 307/1، وغيرهم]


Previous    26    27    28    29    30    31    32    33    34    Next