سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوتے اور اپنی بیویوں سے مباشرت کرتے تھے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 793]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 797] » یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔ دیکھئے: [بخاري 1922، 1927] ، [مسلم 1106] ، [أبوداؤد 268] ، [ترمذي 132] ، [نسائي 285] ، [ابن ماجه 636] ، [مسند أبى يعلی 4428] ، [ابن حبان 3537]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”مجھے چٹائی اٹھا دو۔“ عرض کیا: میں تو حائضہ ہوں، فرمایا: ”حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 794]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 798] » یہ حدیث ہے۔ دیکھئے: [مسلم 298] ، [أبوداؤد 261] ، [ترمذي 134] ، [نسائي 382] ، [أبويعلی 4488] ، [ابن حبان 1357]
فاطمہ بنت المنذر نے اپنی دادی (یا نانی) سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ایک عورت کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کر تے سنا، وہ کہہ رہی تھی کہ جب وہ حیض سے پاک ہو تو اپنے کپڑے کا کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس پر خون دیکھو تو پہلے کھرچ لو، پھر پانی سے مل کر دھو ڈالو، پھر سارے کپڑے پر پانی ڈال دو، پھر اس میں نماز پڑھ سکتی ہو۔“[سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 795]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 799] » یہ حدیث ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 356، 361] ، [ابن خزيمه 276] ، [مسند أحمد 345/6] ، [مصنف ابن أبى شيبه 95/1] بلکہ یہ حدیث متفق عليہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 227، 307] ، [مسلم 291] ، [ترمذي 138] ، [نسائي 294] ، [صحيح ابن حبان 1396] و [مسند الحميدي 322]
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ایک انصاری عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حیض کے غسل کے بارے میں دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیری کے پتوں کا پانی لو، خون کے مقام کو اچھی طرح صاف کرو، پھر سر پر پانی ڈالو تا آنکہ بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچ جائے (اس طرح غسل کرو)، پھر مشک لگا ہوا ایک روئی کا پھایا لے کر لگالو“، انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! کیسے پھایا لگاؤں؟ آپ خاموش رہے، انہوں نے پھر عرض کیا: پھایا کیسے لگاؤں؟ پھر آپ خاموش رہے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سرگوشی کی کہ روئی کا پھایا مشک لگا ہوا لے کر خون کے مقام پر لگا لو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا اور اس کا انکار نہیں کیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 796]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 800] » یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 314] ، [مسلم 332] ، [أبوداؤد 315] ، [ابن ماجه 642] ، [مسند أبى يعلی 4733] ، [صحيح ابن حبان 1199] ، [مسند الحميدي 167]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں مستحاضہ عورت ہوں، خون رکتا نہیں ہے تو کیا میں نماز چھوڑے رکھوں؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ایک رگ کا خون ہے (حیض نہیں) اس لئے جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دو، اور جب مدت حیض ختم ہو جائے تو خون کو دھو ڈالو اور نماز پڑھ لو۔“[سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 797]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 801] » یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 228] ، [مسلم 333] ، [ترمذي 125] ، [نسائي 357] ، [ابن ماجه 621] ، [مسند أبى يعلی 4486] ، [صحيح ابن حبان 1350] ، [مسند الحميدي 193]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جحش کی بیٹی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں استحاضہ کی بیماری لاحق ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہر نماز کے وقت غسل کرنے کا حکم دیا۔ وہ جب پانی سے بھرے ہوئے (مرکن) ٹب میں بیٹھتیں ڈبکی لگاتیں اور پانی سے نکلتیں تو خون پانی کے اوپر چھا جاتا، پھر وہ نماز پڑھ لیتیں۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 798]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف فيه عنعنة محمد بن إسحاق، [مكتبه الشامله نمبر: 802] » اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری اسانید صحیحہ کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، بلکہ متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 327] ، [مسلم 333] ، [أبوداؤد 285] ، [نسائي 203، 204، 205] ، [ابن ماجه 626]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: وہ فلاں عورت ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نماز کے لئے غسل کا حکم دیا تھا، اور جب ہر نماز کے وقت نہانا ان کے لئے مشکل ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ظہر عصر ملا کر ایک غسل سے پڑھ لیں، اور مغرب و عشاء ایک غسل سے، اور فجر کے لئے علاحدہ غسل کریں۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: وہ خاتون لوگ کہتے ہیں سہلہ بنت سہیل تھیں، اور یزید بن ہارون نے کہا وہ سہیلہ بنت سہل تھیں۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 799]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن إسحاق، [مكتبه الشامله نمبر: 803] » اس سند سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن اس کے متابع اور شاہد موجود ہیں، لہٰذا متن صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 295] و [نسائي 213] ، آگے (812) میں بھی یہ حدیث آرہی ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مرض استحاضہ میں مبتلا ہوئیں تو انہیں حکم دیا گیا۔۔۔ شعبہ نے کہا: میں نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا؟ عبدالرحمٰن نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان نہیں کر رہا ہوں، انہیں حکم دیا گیا کہ وہ ظہر کی نماز میں تاخیر کر کے عصر جلدی پڑھ لیں، اور دونوں نمازوں کے لئے ایک غسل کر لیں، (اس طرح) مغرب میں تاخیر کر کے عشاء جلدی پڑھ لیں، اور دونوں نمازوں کے لئے ایک غسل کریں، اور نماز فجر کے لئے ایک بار غسل علاحدہ کریں۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 800]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 804] » اس کی تخریج اوپر گزر چکی ہے۔
اس حدیث کا ترجمہ اور تخریج بھی حدیث نمبر (797) میں گزر چکی ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 801]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 805] » مزید حوالے کے لئے دیکھئے: [مسند أحمد 83/6] ، [مسند أبى 4405] ، نیز حديث رقم (808)۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فاطمہ بنت ابی حبیش نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ایسی عورت ہوں کہ استحاضہ کے خون میں مبتلا رہتی ہوں، تو کیا ایسی حالت میں نماز ترک کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، یہ تو ایک رگ ہے حیض کا خون نہیں، لہٰذا جب ایام حیض شروع ہوں تو نماز چھوڑ دو، اور جب حیض کی مدت پوری ہو جائے تو خون دھو کر وضو کرو، اور نماز پڑھ لو۔“ ہشام نے کہا: میرے والد (عروة) فرماتے تھے: حیض کی مدت پوری ہونے پر عورت پہلا غسل کرے گی اور اس کے بعد صفائی کر کے نماز پڑھے گی۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 802]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 806] » یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج رقم (۸۰۱) میں گزر چکی ہے۔