الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن دارمي
من كتاب الطهارة
وضو اور طہارت کے مسائل
1. باب فَرْضِ الْوُضُوءِ وَالصَّلاَةِ:
1. وضو اور نماز کی فرضیت کا بیان
حدیث نمبر: 673
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "لَمَّا نُهِينَا أَنْ نَبْتَدِئَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعْجِبُنَا أَنْ يَقْدُمَ الْبَدَوِيُّ وَالْأَعْرَابِيُّ الْعَاقِلُ فَيَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ، فَجَثَا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّ رَسُولَكَ أَتَانَا فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَكَ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي رَفَعَ السَّمَاءَ وَبَسَطَ الْأَرْضَ وَنَصَبَ الْجِبَالَ، آللَّهُ أَرْسَلَكَ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَهْرٍ فِي السَّنَةِ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا فِي أَمْوَالِنَا الزَّكَاةَ؟، فَقَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا الْحَجَّ إِلَى الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَدَعُ مِنْهُنَّ شَيْئًا، وَلَا أُجَاوِزُهُنَّ، قَالَ: ثُمَّ وَثَبَ الْأَعْرَابِيُّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ صَدَقَ الْأَعْرَابِيُّ دَخَلَ الْجَنَّةَ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: جب ہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام میں پہل کرنے سے منع کر دیا گیا تو ہم یہ پسند کرتے تھے کہ کوئی ہوشیار سمجھدار دیہاتی بدوی آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرے اور ہم آپ کے پاس بیٹھے ہوں۔ اتفاق سے ایک بار ہم بیٹھے تھے کہ ایک دیہاتی آیا اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا اور عرض کیا: اے محمد! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اور ہم سے کہا کہ آپ فرماتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے بالکل سچ کہا۔ اس نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آسمان کو بلند فرمایا، زمین کو پھیلایا، پہاڑوں کو کھڑا کر دیا، کیا اس اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ عرض کیا: آپ کے مبلغ نے بتایا کہ آپ فرماتے ہیں کہ دن رات میں ہمارے اوپر پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے سچ کہا۔ عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا، کیا اس اللہ نے اس کا آپ کو حکم دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ اعرابی نے عرض کیا کہ آپ کے داعی نے ہمیں بتایا کہ آپ فرماتے ہیں ہمارے اوپر سال میں ایک مہینے کے روزے فرض ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ پھر عرض کیا: آپ کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنایا، کیا اللہ (تعالیٰ) نے آپ کو اس کا حکم دیا؟ فرمایا: ہاں۔ دیہاتی نے عرض کیا: آپ کے مبلغ نے بتایا کہ آپ نے ہمارے مال میں زکاة فرض کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بالکل سچ ہے۔ عرض کیا: اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنایا، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ اعرابی نے عرض کیا: آپ کے مبلغ نے بتایا کہ آپ نے فرمایا: جو استطاعت رکھے اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے سچ کہا۔ عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنایا، کیا اللہ ہی نے آپ کو اس کا حکم دیا؟ فرمایا: ہاں۔ دیہاتی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، میں ان باتوں میں سے کسی کو نہ چھوڑوں گا اور نہ ان سے تجاوز کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس اعرابی نے (اپنی بات کو) سچ کر دکھایا تو جنت میں داخل ہو گیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 673]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 676] »
اس حدیث کی سند صحیح اور متفق علیہ حدیث ہے۔ دیکھئے: [بخاري 63] ، [مسلم 12] ، [ابويعلی 3333] ، [ابن حبان 154]

حدیث نمبر: 674
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا غُلَامَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ: وَعَلَيْكَ، قَالَ: إِنِّي رَجُلٌ مِنْ أَخْوَالِكَ مِنْ بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ، وَأَنَا رَسُولُ قَوْمِي إِلَيْكَ وَوَافِدُهُمْ، وَإِنِّي سَائِلُكَ فَمُشَدِّدٌ مَسْأَلَتِي إِلَيْكَ، وَمُنَاشِدُكَ فَمُشَدِّدٌ مُنَاشَدَتِي إِيَّاكَ، قَالَ: خُذْ عَنْكَ يَا أَخَا بَنِي سَعْدٍ، قَالَ: مَنْ خَلَقَكَ، وَخَلَقَ مَنْ قَبْلَكَ، وَمَنْ هُوَ خَالِقُ مَنْ بَعْدَكَ؟، قَالَ: اللَّهُ قَالَ فَنَشَدْتُكَ بِذَلِكَ، أَهُوَ أَرْسَلَكَ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مَنْ خَلَقَ السَّمَوَاتِ السَّبْعَ وَالْأَرَضِينَ السَّبْعَ، وَأَجْرَى بَيْنَهُنَّ الرِّزْقَ؟، قَالَ: اللَّهُ، قَالَ: فَنَشَدْتُكَ بِذَلِكَ، أَهُوَ أَرْسَلَكَ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: إِنَّا وَجَدْنَا فِي كِتَابِكَ، وَأَمَرَتْنَا رُسُلُكَ أَنْ نُصَلِّيَ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ لِمَوَاقِيتِهَا، فَنَشَدْتُكَ بِذَلِكَ، أَهُوَ أَمَرَكَ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّا وَجَدْنَا فِي كِتَابِكَ، وَأَمَرَتْنَا رُسُلُكَ أَنْ نَأْخُذَ مِنْ حَوَاشِي أَمْوَالِنَا فَنَرُدَّهَا عَلَى فُقَرَائِنَا، فَنَشَدْتُكَ بِذَلِكَ، أَهُوَ أَمَرَكَ بِذَلِكَ؟، قَالَ: نَعَمْ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا الْخَامِسَةُ، فَلَسْتُ بِسَائِلِكَ عَنْهَا، وَلَا إِرَبَ لِي فِيهَا، ثُمَّ قَالَ: أَمَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَعْمَلَنَّ بِهَا وَمَنْ أَطَاعَنِي مِنْ قَوْمِي، ثُمَّ رَجَعَ، فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَئِنْ صَدَقَ، لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے فرزند بنی عبد المطلب! السلام علیک، آپ نے فرمایا: وعلیک، دیہاتی نے کہا: میں آپ کے ننہال بنی سعد بن بکر میں سے ہوں، اور اپنی قوم کا قاصد بن کر آپ کے پاس آیا ہوں، اور آپ سے کچھ دریافت کرنا چاہتا ہوں، اور ذرا سختی سے پوچھوں گا، اور آپ سے سخت لہجے میں گفتگو کروں گا، (وفي روايۃ: آپ برا نہ مانیے گا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے برادر بنو سعد! جس طرح چاہو گفتگو کرو، تب اس نے کہا: آپ کو کس نے پیدا کیا؟ آپ سے پہلے جو لوگ تھے انہیں کس نے پیدا کیا؟ اور آپ کے بعد پیدا کرنے والا کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله، عرض کیا: میں اسی الله کی قسم دیتا ہوں، کیا اسی اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ فرمایا: ہاں، عرض کیا: ساتوں آسمان اور ساتوں زمین کس نے پیدا کئے اور ان کے درمیان رزق کس نے جاری فرمایا؟ جواب دیا: اللہ نے، عرض کیا: کیا اسی اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا؟ فرمایا: ہاں۔ عرض کیا: ہم نے آپ کی تحریر میں دیکھا اور آپ کے مبلغین نے ہمیں حکم دیا کہ دن رات میں ہم پانچ وقتوں میں نماز پڑھیں، میں آپ کو قسم دیتا ہوں کیا اس نے آپ کو حکم دیا؟ فرمایا: ہاں۔ عرض کیا: ہم نے آپ کی تحریر میں پڑھا اور آپ کے دعاة نے حکم دیا کہ ہم اپنے مال کا کچھ حصہ فقیروں کو لوٹا دیں، میں قسم دیتا ہوں کیا اس نے ہی اس کا بھی حکم دیا؟ فرمایا: ہاں۔ پھر اس اعرابی نے عرض کیا: پانچویں بات جو میں آپ سے نہیں پوچھتا اور مجھے اس کی حاجت بھی نہیں، پھر عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا، میں اور جس نے میری قوم میں سے میری اطاعت کی اس پر ضرور ضرور عمل کریں گے، پھر وہ اعرابی واپس چلا گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں دکھائی دینے لگیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر اس نے سچ کہا (اور کر دکھایا) تو ضرور ضرور جنت میں داخل ہو جائے گا۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 674]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف محمد بن فضيل متأخر السماع من عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 677] »
یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے، لیکن اس کا متن اور معنی صحیح ہے۔ جیسا کہ پہلی حدیث میں بیان کیا جا چکا ہے۔ نیز دیکھئے [مسند أبى يعلي 5088] و [مجمع الزوائد مع تحقيق حسين الداراني رقم 1623]

حدیث نمبر: 675
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ نُوَيْفِعٍ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: بَعَثَ بَنُو سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ ضِمَامَ بْنَ ثَعْلَبَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدِمَ عَلَيْهِ، فَأَنَاخَ بَعِيرَهُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، ثُمَّ عَقَلَهُ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي أَصْحَابِهِ، وَكَانَ ضِمَامٌ رَجُلًا جَلْدًا، أَشْعَرَ، ذَا غَدِيرَتَيْنِ، حَتَّى وَقَفَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: مُحَمَّدٌ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنِّي سَائِلُكَ وَمُغَلِّظٌ فِي الْمَسْأَلَةِ، فَلَا تَجِدَنَّ فِي نَفْسِكَ، قَالَ: لَا أَجِدُ فِي نَفْسِي، فَسَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ، قَالَ: إِنِّي أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ إِلَهِكَ وَإِلَهِ مَنْ هُوَ كَانَ قَبْلَكَ، وَإِلَهِ مَنْ هُوَ كَائِنٌ بَعْدَكَ، آللَّهُ بَعَثَكَ إِلَيْنَا رَسُولًا؟، قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ إِلَهِكَ وَإِلَهِ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ، وَإِلَهِ مَنْ هُوَ كَائِنٌ بَعْدَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نَعْبُدَهُ وَحْدَهُ لَا نُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَأَنْ نَخْلَعَ هَذِهِ الْأَنْدَادَ الَّتِي كَانَتْ آبَاؤُنَا تَعْبُدُهَا مِنْ دُونِهِ؟، قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ إِلَهِكَ وَإِلَهِ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ، وَإِلَهِ مَنْ هُوَ كَائِنٌ بَعْدَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نُصَلِّيَ هَذِهِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ؟، قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: ثُمَّ جَعَلَ يَذْكُرُ فَرَائِضَ الْإِسْلَامِ فَرِيضَةً فَرِيضَةً: الزَّكَاةَ، وَالصِّيَامَ، وَالْحَجَّ، وَشَرَائِعَ الْإِسْلَامِ كُلَّهَا، وَيُنَاشِدُهُ عِنْدَ كُلِّ فَرِيضَةٍ كَمَا نَاشَدَهُ فِي الَّتِي قَبْلَهَا حَتَّى إِذَا فَرَغَ، قَالَ: فَإِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَسَأُؤَدِّي هَذِهِ الْفَرِيضَةَ، وَأَجْتَنِبُ مَا نَهَيْتَنِي عَنْهُ، ثُمَّ قَالَ: لَا أَزِيدُ وَلَا أُنْقِصُ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى بَعِيرِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ وَلَّى: إِنْ يَصْدُقْ ذُو الْعَقِيصَتَيْنِ، يَدْخُلْ الْجَنَّةَ، فَأَتَى إِلَى بَعِيرِهِ فَأَطْلَقَ عِقَالَهُ، ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى قَوْمِهِ فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ، فَكَانَ أَوَّلَ مَا تَكَلَّمَ أَنْ قَالَ: بَئْسَتِ اللَّاتِ وَالْعُزَّى، قَالُوا: مَهْ يَا ضِمَامُ، اتَّقِ الْبَرَصَ، وَاتَّقِ الْجُنُونَ، وَاتَّقِ الْجُذَامَ، قَالَ: وَيْلَكُمْ، إِنَّهُمَا وَاللَّهِ مَا يَضُرَّانِ وَلَا يَنْفَعَانِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ رَسُولًا، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ كِتَابًا اسْتَنْقَذَكُمْ بِهِ مِمَّا كُنْتُمْ فِيهِ، وَإِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَقَدْ جِئْتُكُمْ مِنْ عِنْدِهِ بِمَا أَمَرَكُمْ بِهِ وَنَهَاكُمْ عَنْهُ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا أَمْسَى مِنْ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَفِي حَاضِرِهِ رَجُلٌ، وَلَا امْرَأَةٌ إِلَّا مُسْلِمًا، قَالَ: يَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَمَا سَمِعْنَا بِوَافِدِ قَوْمٍ كَانَ أَفْضَلَ مِنْ ضِمَامِ بْنِ ثَعْلَبَةَ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: بنو سعد بن بکر نے سیدنا ضمام بن ثعلبۃ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، چنانچہ وہ آئے اور مسجد کے دروازے پر اپنے اونٹ کو بٹھایا پھر اسے باندھا پھر مسجد میں داخل ہوئے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے، اور ضمام مضبوط آدمی، بڑے بالوں اور دو چوٹیوں والے تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا: تم میں سے عبدالمطلب کا بیٹا کون سا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں، اس نے کہا: محمد؟ فرمایا: ہاں، اس نے کہا: اے ابن عبد المطلب! میں آپ سے دینی مسائل دریافت کرنے والا ہوں، اور سختی سے پوچھوں گا تو آپ مجھ پر غصہ نہ کیجئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں غصہ نہیں کروں گا جو دل چاہے پوچھے، وہ بولا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جو آپ اور آپ سے پہلے لوگوں کا اور آپ کے بعد والے لوگوں کا معبود ہے، کیا اسی اللہ نے آپ کو ہماری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے؟ فرمایا: ہاں، بے شک۔ اس نے عرض کیا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جو آپ کا اور جو آپ سے پہلے تھے ان کا اور جو آپ کے بعد آنے والے ہیں ان کا معبود ہے، کیا اس اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم یہ پنجوقتہ نمازیں پڑھیں؟ فرمایا: «اللهم نعم» ہاں۔ راوی نے کہا: پھر اسی طرح وہ فرائض اسلام روزہ اور حج و دیگر شعائر اسلام کا ایک ایک کر کے ذکر کرتا رہا اور ہر فریضہ کے پہلے قسم دلاتا تھا جیسا کہ پہلی بار کیا، پھر جب پوچھ چکا تو کہا: «اشهد ان ...» میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ بیشک محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور میں اس فریضے کو ادا کروں گا، اور جس چیز سے اجتناب کا آپ نے حکم دیا ہے اس سے بچوں گا، پھر عرض کیا کہ نہ اس میں زیادتی کروں گا اور نہ کمی، پھر وہ اپنے اونٹ کی طرف واپس ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر دو چوٹیوں والے نے سچ کر دکھایا تو جنت میں داخل ہو گا۔ پھر وہ اپنے اونٹ کے پاس پہنچا اور اس کی رسی کھولی اور واپس اپنی قوم میں پہنچا تو لوگ اس کے پاس جمع ہو گئے، اور اس نے سب سے پہلی جو بات کہی تھی وہ یہ کہ لات و عزی کی بربادی ہو، انہوں نے کہا: ٹھہرو اے ضمام، کوڑھ اور پاگل پن و جذام سے ڈرو، اس نے جواب دیا: تمہاری خرابی ہو، اللہ کی قسم بیشک یہ دونوں کچھ نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے، بیشک اللہ تعالیٰ نے ایک رسول مبعوث فرمایا ہے، اور اس کے اوپر ایک کتاب نازل فرمائی ہے، جس کے ذریعے وہ تم کو اس (نجاست) سے نکالنا چاہتا ہے، اور میں تو گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، اور میں انہیں کے پاس سے تمہارے پاس وہ چیز لے کر آیا ہوں جس کا انہوں نے تم کو حکم دیا ہے، اور جس سے انہوں نے تمہیں روکا ہے۔ راوی نے کہا: قسم الله کی اس دن شام ہونے تک کوئی مرد اور عورت ایسا نہیں تھا جو مسلمان نہ ہو گیا ہو۔ راوی نے کہا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے تھے: ہم نے کسی قوم کے ایسے وافد و قاصد کو نہیں سنا جو ضمام بن ثعلبہ سے افضل ہو۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 675]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 678] »
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے، جیسا کہ پہلی احادیث کی تخریج میں ذکر کیا جاچکا ہے۔ نیز دیکھئے: [مجمع الزوائد 1622 تحقيق حسين سليم]

2. باب مَا جَاءَ في الطُّهُورِ:
2. طہارت (پاکیزگی) کا بیان
حدیث نمبر: 676
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ يَمْلَأُ الْمِيزَانَ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ يَمْلَآَنِ مَا بَيْنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَالصَّلَاةُ نُورٌ، وَالصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ، وَالْوُضُوءُ ضِيَاءٌ، وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ، وَكُلُّ النَّاسِ يَغْدُو: فَبَائِعٌ نَفْسَهُ، فَمُعْتِقُهَا، أَوْ مُوبِقُهَا".
سیدنا ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طہارت آدھا ایمان ہے اور الحمد للہ بھر دے گا میزان کو اور «(لا إله إلا الله والله أكبر)» دونوں بھر دیں گے آسمان اور زمین کے بیچ کی جگہ کو اور نماز نور ہے، صدقہ دلیل ہے، اور وضو روشنی ہے، اور قرآن تمہارے لیے یا تمہارے خلاف حجت ہے، اور ہر آدمی صبح کو اٹھتا ہے یا تو اپنے آپ کو آزاد کرتا ہے یا اپنے آپ کو برباد کرتا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 676]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 679] »
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ ابومالک کا نام حارث یا عبید ہے اور زید: ابن سلام اور ابوسلام: ممطور الحبشی ہیں۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [صحيح مسلم 223] ، [ترمذي 3517] ، [ابن ماجه 280] ، [صحيح ابن حبان 844] و [معرفة السنن والآثار للبيهقي 590]

حدیث نمبر: 677
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ جُرَيٍّ النَّهْدِيِّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ، قَالَ: عَقَدَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَدِي أَوْ قَالَ: عَقَدَهُنَّ فِي يَدِهِ وَيَدُهُ فِي يَدِي: "سُبْحَانَ اللَّهِ نِصْفُ الْميزَانِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ يَمْلَأُ الْمِيزَانَ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ يَمْلَأُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، وَالْوُضُوءُ نِصْفُ الْإِيمَانِ، وَالصَّوْمُ نِصْفُ الصَّبْرِ".
بنوسلیم کے ایک آدمی نے کہا کہ ان تسبیحات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھ پر گنا، ایک روایت میں ہے کہ انہیں اپنے ہاتھ پر گنا اور آپ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا۔ «سبحان الله» آدھی میزان بھر دیتا ہے اور «الحمد لله» ساری میزان بھر دیتا ہے اور «الله أكبر» آسمان و زمین کے درمیان کی جگہ بھر دیتا ہے، اور وضو نصف ایمان ہے، اور روزہ نصف صبر ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 677]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 680] »
اس حدیث کی سند جید ہے۔ جری: ابن کلیب النہدی ہیں۔ دیکھئے: [مسند أحمد أ 260/4، 370/5] ، و [شعب الايمان 3575] و [ترمذي 3514] ۔ نیز [امام أحمد 365/5] نے مسند میں بسند حسن یہ حدیث ذکر کی ہے۔

حدیث نمبر: 678
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، وَالْأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اسْتَقِيمُوا وَلَنْ تُحْصُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ خَيْرَ أَعْمَالِكُمْ الصَّلَاةُ"وَقَالَ الْآخَرُ:"إِنَّ مِنْ خَيْرِ أَعْمَالِكُمْ الصَّلَاةَ""وَلَنْ يُحَافِظَ عَلَى الْوُضُوءِ إِلَّا مُؤْمِنٌ".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سیدھے اور مضبوط رہو، اور سب نیکیوں کو نہ گھیر سکو گے، اور جان لو کہ تمہارے بہتر اعمال میں سے نماز ہے اور وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کرتا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 678]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 681] »
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الموطأ فى الطهارة 37] ، [ابن ماجه 277، 278، 279 اس كي اسانيد ضعيفه هيں] و [صحيح ابن حبان 1037] و [تاريخ الخطيب 293/1] و [المستدرك 448 وقال صحيح على شرطهما]

حدیث نمبر: 679
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْبَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، أَنَّ أَبَا كَبْشَةَ السَّلُولِيّ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "سَدِّدُوا، وَقَارِبُوا، وَخَيْرُ أَعْمَالِكُمْ الصَّلَاةُ، وَلَنْ يُحَافِظَ عَلَى الْوُضُوءِ إِلَّا مُؤْمِنٌ".
ابوکبشہ سلولی نے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: متوسط طریقہ اختیار کرو اور صواب کے قریب ہوتے جاؤ۔ اور تمہارے اعمال میں سب سے بہتر نماز ہے، اور وضو پر سوائے مومن کے اور کوئی محافظت نہیں کرتا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 679]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 682] »
اس حدیث کی سند حسن ہے، لیکن حدیث صحیح ہے، جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ نیز دیکھئے: [المسند 282/5] ، [ابن حبان 1037] ، [المعجم الكبير 101/2، 1444]

3. باب: {إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ} الآيَةَ:
3. اللہ تعالیٰ کا فرمان: «إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ» کابیان
حدیث نمبر: 680
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا مَسْعُودُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عِكْرِمَةَ: أَنَّ سَعْدًا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَانَ يُصَلِّي الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ، وَأَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَانَ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ، وَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ سورة المائدة آية 6".
عکرمہ سے مروی ہے کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ پانچوں نمازیں ایک وضو سے پڑھ لیا کرتے تھے، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہر نماز کے لئے وضو کرتے تھے، اور انہوں نے یہ آیت پڑھی: «إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ» [5-المائدة:6] جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے منہ ہاتھ دھو لو۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 680]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات ولكنه منقطع قال أبو حاتم: " عكرمة لم يسمع من سعد بن أبي وقاص "، [مكتبه الشامله نمبر: 683] »
اس روایت کے رجال ثقات ہیں، لیکن منقطع ہے کیونکہ عکرمہ کا سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے لقا ثابت نہیں ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [تفسير طبري 112/7] و [الدر المنثور 262/2 فى تفسير الآية المذكورة]

حدیث نمبر: 681
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قُلْتُ: أَرَأَيْتَ تَوَضُّأَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا لِكُلِّ صَلَاةٍ طَاهِرًا، أَوْ غَيْرَ طَاهِرٍ عَمَّ ذَلِكَ؟، قَالَ: حَدَّثَتْهُ أَسْمَاءُ بِنْتُ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ حَنْظَلَةَ بْنِ أَبِي عَامِرٍ حَدَّثَهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُمِرَ بِالْوُضُوءِ لِكُلِّ صَلَاةٍ طَاهِرًا أَوْ غَيْرَ طَاهِرٍ، فَلَمَّا شَقَّ ذَلِكَ عَلَيْهِ، أُمِرَ بِالسِّوَاكِ لِكُلِّ صَلَاةٍ"، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، يَرَى أَنَّ بِهِ عَلَى ذَلِكَ قُوَّةً، فَكَانَ لَا يَدَعُ الْوُضُوءَ لِكُلِّ صَلَاةٍ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بیٹے عبید اللہ نے کہا: میں نے سوچا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ہر نماز کے لئے چاہے وہ طاہر رہے ہوں یا غیر طاہر، وضو کرنے کے بارے میں کیا رائے ہے، ایسا کیوں کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: اسماء بنت زید بن الخطاب نے ان سے بیان کیا تھا کہ عبداللہ بن حنظلہ بن ابی عامر نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہر نماز کے لئے وضو کرنے کا حکم دیا، باوضو طاہر ہوں یا بےوضو، پھر جب ایسا کرنا ان کے لئے مشکل ہو گیا تو ہر نماز کے لئے مسواک کا حکم فرمایا، اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا خیال تھا کہ وہ ہر نماز کے لئے وضو کی طاقت رکھتے ہیں، اس لئے وہ کسی نماز کے لئے وضو ترک نہیں کرتے تھے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 681]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 684] »
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المسند 225/5] ، [أبوداؤد 48] ، [البيهقي 37/1] و [المستدرك 155/1]

حدیث نمبر: 682
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ، حَتَّى كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ، صَلَّى الصَّلَوَاتِ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ، وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ"، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: رَأَيْتُكَ صَنَعْتَ شَيْئًا لَمْ تَكُنْ تَصْنَعُهُ؟، قَالَ:"إِنِّي عَمْدًا صَنَعْتُ يَا عُمَرُ"، قَالَ أَبُو مُحَمَّد: فَدَلَّ فِعْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ مَعْنَى قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ سورة المائدة آية 6، لِكُلِّ مُحْدِثٍ، لَيْسَ لِلطَّاهِرِ، وَمِنْهُ قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"لَا وُضُوءَ إِلَّا مِنْ حَدَثٍ"، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
ابن بریدہ نے اپنے باپ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لئے وضو کرتے تھے، حتی کہ جب مکہ فتح ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نمازیں ایک وضو سے پڑھیں، اور خفین پر مسح فرمایا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں نے دیکھا آپ نے ایسا کام کیا ہے جو پہلے کبھی نہ کرتے تھے؟ فرمایا: میں نے عمداً ایسا کیا ہے۔
ابومحمد امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: پس رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل دال ہے اس بات پر کہ اس آیت «﴿إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ﴾» [مائده: 6/5] کا مطلب ہے کہ ہر حدث والے پر ہر نماز کے لئے وضو ہے، اور باوضو کے لئے نہیں، اور اسی قبیل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ وضو صرف حدث سے ہے۔ واللہ اعلم [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 682]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 685] »
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المسند350/5] ، [مسلم 277] ، [أبوداؤد 172] ، [ترمذي 61] ، [نسائي 6/1] وغيرهم۔


1    2    3    4    5    Next