ابن ابی ہذیل رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کسی آدمی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب گھر میں داخل ہوئے تو وہ صاحب اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تیری دونوں آنکھیں پھوڑ دی جاتیں تو یہ تیرے لیے زیادہ بہتر تھا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 1305]
تخریج الحدیث: «حسن الإسناد موقوفًا: أخرجه هناد فى الزهد: 1421»
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ کچھ عراقی لوگ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے تو انہوں نے ان کی ایک خادمہ (لونڈی) کے گلے میں سونے کا ہار دیکھا تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تم لوگوں کی نظریں شر دیکھنے کے لیے بڑی تیز ہیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 1306]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے برے اور شریر لوگ وہ ہیں جو بہت زیادہ بولنے والے، باچھیں پھاڑ کر گفتگو کرنے والے، اور منہ بھر بھر کر بولنے والے ہیں۔ اور میری امت کے بہترین لوگ وہ ہیں جو اخلاق کے اعتبار سے بہت اچھے ہیں۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 1308]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 8822 و البيهقي فى الآداب: 519 - أنظر الصحيحة: 751، 791، 1891»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”برے لوگوں میں وہ شخص بھی ہے جو دوغلے پن کا مظاہرہ کرے، ایک گروہ کے پاس ایک بات کرتا ہے اور دوسرے کے پاس جا کر دوسری۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 1309]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأحكام: 7179، 3494 و مسلم: 2526»
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو دنیا میں دو چہروں والا (دوغلا) ہو گا اس کی قیامت کے دن آگ سے بنی دو زبانیں ہوں گی۔“ پھر ایک بھاری بھر کم آدمی گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ان میں سے ہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 1310]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أبوداؤد، كتاب الأدب، باب فى ذي الوجهين: 4873 و ابن أبى شيبة: 25463 و الدارمي: 2806 - أنظر الصحيحة: 892»
قال الشيخ الألباني: حسن
636. بَابٌ: شَرُّ النَّاسِ مَنْ يُتَّقَى شَرُّهُ
636. لوگوں میں برا آدمی وہ ہے جس کے شر سے بچا جائے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اجازت دے دو، یہ اپنے قبیلے کا برا آدمی ہے۔“ چنانچہ جب وہ اندر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ نرمی کے ساتھ گفتگو فرمائی۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے اس آدمی کے بارے میں جو فرمایا سو فرمایا: پھر آپ نے اس سے نرمی کے ساتھ گفتگو فرمائی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے فرمایا: ”اے عائشہ! لوگوں میں سے بدترین وہ آدمی ہے جسے لوگ اس کی بدکلامی اور بدزبانی سے بچنے کے لیے چھوڑ دیں۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 1311]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب لم يكن النبى صلى الله عليه وسلم فاحشًا: 6054 و مسلم: 2591 و أبوداؤد: 4791 و الترمذي: 1996»
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حیا خیر ہی لاتی ہے۔“ بشیر بن کعب نے کہا: حکمت میں لکھا ہے کہ حیا سے سنجیدگی آتی ہے اور اطمینان بھی حیا سے ہے۔ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سناتا ہوں اور تم مجھے اپنے صحیفے کی با تیں بتاتے ہو۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 1312]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6117 و مسلم: 37 و أبوداؤد: 4796»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: بلاشبہ حیا اور ایمان دونوں ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اس لیے جب ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 1313]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى شيبة: 25350 و ابن نصر فى تعظيم قدر الصلاة: 884 و الحاكم: 22/1 و البيهقي فى شعب الإيمان: 7727»
سيدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حيا ایمان سے ہے اور ایمان (والا) جنت میں ہو گا۔ بدکلامی سخت مزاجی سے ہے اور اکھڑ پن (والا) جہنم میں ہو گا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 1314]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن ماجه، كتاب الزهد، باب الحياء: 4184 - أنظر الصحيحة: 49»