سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں کنویں کی منڈیر پر پاؤں کنویں میں لٹکا کر بیٹھے تھے۔ [الادب المفرد/كِتَابٌ/حدیث: 1195]
تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه أحمد: 19653 و النسائي فى الكبرىٰ: 8076 - و أنظر الحديث رقم: 1151»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر سے نکلتے تو یوں دعا کرتے: ”اے اللہ! مجھے سلامت رکھ اور دوسروں کو مجھ سے سلامت رکھنا۔“[الادب المفرد/كِتَابٌ/حدیث: 1196]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر سے نکلتے تو فرماتے: ”بسم اللہ ...... اللہ کے نام سے اور اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے گھر سے نکلتا ہوں۔ گناہ سے بچنے اور نیکی کرنے کی طاقت اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔“[الادب المفرد/كِتَابٌ/حدیث: 1197]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه ابن ماجه، كتاب الدعاء، باب ما يدعو به الرجل إذا خرج من بيته: 3885»
شہاب بن عباد عصر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے وفد عبدالقیس کے بعض لوگوں کو بیان کرتے ہوئے سنا: جب ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جانے کا حتمی فیصلہ کر لیا، اور ہمارا وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑا، اور ہم پہنچنے کے قریب ہوئے تو ہمیں ایک آدمی ملا جو ایک سست رفتار اونٹنی تیزی سے دوڑا رہا تھا۔ اس نے سلام کہا تو ہم نے اس کے سلام کا جواب دیا۔ پھر وہ رکا اور اس نے کہا: تم کون لوگ ہو؟ ہم نے کہا: یہ عبدالقیس کا وفد ہے۔ اس نے کہا: خوش آمدید، میں تمہاری ہی تلاش میں تھا۔ میں تمہیں خوشخبری دینے کے لیے آیا ہوں۔ کل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرق کی طرف دیکھ رہے تھے: ”کل ضرور اس طرف سے، یعنی مشرق سے ایک وفد آئے گا اور وہ عرب کا بہترین وفد ہوگا۔“ میں نے رات بے چینی سے گزاری اور صبح ہوتے ہی اپنی سواری پر کجاوا کس لیا۔ میں خوب تیز چلا یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا، اب میں واپس جانے کا ارادہ کر ہی رہا تھا (کہ وہ وفد تو لیٹ آئے گا) کہ مجھے تمہاری سواریوں کے سر دور سے دکھائی دیے۔ پھر اس نے اپنی سواری کی مہار موڑی اور الٹے پاؤں اسے دوڑاتا ہوا واپس چلا گیا، یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصار و مہاجرین کے جلو میں تشریف فرما تھے۔ اس نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں آپ کو عبدقیس کے وفد کی آمد کی خوشخبری دینے آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عمر! وہ تمہیں کہاں مل گئے؟“ انہوں نے کہا: وہ بس میرے پیچھے ہی آرہے ہیں، ابھی پہنچے۔ اس نے جب یہ بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تجھے بھی اچھی خوشخبری دے۔“ صحابہ اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک طرح سے بیٹھ گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر کے دامن کو اپنے ہاتھ کے نیچے رکھا اور اس کی ٹیک لگا کر دونوں ٹانگیں پھیلا لیں۔ چنانچہ جب وفد آیا تو اس پر مہاجرین و انصار بڑے خوش ہوئے۔ جب وفد والوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا تو اس خوشی میں اپنی سواریوں کو کھلا چھوڑ کر جلدی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ صحابۂ کرام نے مجلس وسیع کر دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سابقہ کیفیت ہی میں تشریف فرما رہے۔ سیدنا اشج رضی اللہ عنہ پیچھے رہ گئے، اور ان کا نام منذر بن عائذ بن منذر بن حارث بن نعمان بن زیاد بن عصر تھا، انہوں نے سب کی سواریوں کو جمع کیا، انہیں بٹھایا، ان کا بوجھ اتارا اور سامان اکٹھا کیا، پھر اپنا تھیلا نکالا اور سفر کے کپڑے اتارے اور حلہ (نیا جوڑا) پہن لیا اور آرام سے چلتا ہوا آیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا سردار، رئیس اور صاحب اختیار کون ہے؟“ سب لوگوں نے اس (اشج) کی طرف اشارہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہارے سرداروں کی اولاد سے ہے؟“ لوگوں نے کہا: اس کے آبا و اجداد جاہلیت میں ہمارے سردار تھے۔ اور یہ اب ہمارا سردار ہے، جو ہمیں اسلام کی طرف لے آیا ہے۔ جب سیدنا اشج رضی اللہ عنہ پہنچے تو انہوں نے ایک طرف بیٹھنے کا ارادہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: ”اشج! ادھر آ جاؤ۔“ یہ پہلا دن تھا جب انہیں اشج کے لقب سے پکارا گیا۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ بچپن میں انہیں گدھی نے کھر مارا تھا اور ان کے چہرے پر چاند کی مثل نشان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پہلو میں بٹھایا، اور بڑی شفقت سے گفتگو فرمائی۔ اور ان کی قوم پر ان کی جو فضیلت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جان لیا۔ پھر لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسائل دریافت کرنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دینے لگے۔ گفتگو کے اختتام پر آپ نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس زادِ سفر ہے؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں، اور جلدی سے اٹھے اور ہر شخص اپنے سامان سے تھوڑی تھوڑی کھجوریں لے آیا، جس سے کھجوروں کا ایک ڈھیر لگ گیا۔ چنانچہ وہ چمڑے کے ایک دستر خوان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دی گئیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو ہاتھوں سے کم اور ایک ہاتھ سے بڑی چھڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ٹیک لگاتے تھے اور اکثر اسے پاس ہی رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چھڑی سے کھجوروں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”تم ان کو تعضوض کہتے ہو؟“ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان کو صرفان بھی کہتے ہو؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان کو برنی کہتے ہو؟“ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تمہاری کھجوروں میں سب سے اچھی شمار ہوتی ہے اور پک کر بہت بہتر ہوتی ہے۔“ قبیلے کے بعض بزرگوں نے یہ الفاظ بھی بیان کیے: ”اور یہ قسم برکت کے اعتبار سے بھی دوسروں سے بڑھ کر ہے۔“ کھجوروں کی یہ قسم ہمارے ہاں سستی شمار ہوتی تھی جسے ہم اونٹوں اور گدھوں کو کھلایا کرتے تھے۔ جب ہم اپنے اس سفر سے واپس آئے تو برنی کھجوروں میں ہماری رغبت زیادہ ہوگئی، اور ہم نے اس کے پودے لگائے یہاں تک کہ ہمارے پھل کھجور کی اسی قسم کے ہوگئے اور ہم نے ان میں برکت بھی دیکھی۔ [الادب المفرد/كِتَابٌ/حدیث: 1198]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه أحمد: 15559 و الطبراني فى الكبير: 345/20 و أبويعلي: 6815»