ابوعثمان نہدی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ایک غیر مسلم چوہدری (یا راہب) کو خط لکھا تو اسے سلام بھی لکھا۔ ان سے کہا گیا: آپ اس کو سلام کرتے ہیں حالانکہ وہ کافر ہے؟ انہوں نے فرمایا: اس نے مجھے اپنے خط میں سلام لکھا تھا؟ میں نے اس کا جواب دیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ أَهْلِ الْكِتَابِ/حدیث: 1101]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسدد فى مسنده كما فى المطالب العالية: 2653 و اتحاف الخيرة المهرة: 5292 - أنظر الصحيحة: 704»
قال الشيخ الألباني: صحيح
513. بَابُ لا يَبْدَأُ أَهْلَ الذِّمَّةِ بِالسَّلامِ
سیدنا ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں کل صبح یہودیوں کی طرف جارہا ہوں، لہٰذا انہیں سلام میں پہل نہ کرنا، اور اگر وہ تمہیں سلام کہیں تو جواب میں وعلیکم کہنا۔“ ایک دوسرے طریق سے سیدنا ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے، مگر اس میں ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ أَهْلِ الْكِتَابِ/حدیث: 1102]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى شيبة: 25764 و أحمد: 27235 و النسائي فى الكبرىٰ: 10148 و ابن ماجه: 3699 من حديث أبى عبدالرحمٰن الجهني»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہلِ کتاب کو سلام میں (کسی صورت بھی) پہل نہ کرو، اور انہیں تنگ راستے کی طرف مجبور کر دو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ أَهْلِ الْكِتَابِ/حدیث: 1103]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب السلام: 2167 و أبوداؤد: 5205 و الترمذي: 1602»
علقمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ذمی چوہدریوں کو اشارے سے سلام کیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ أَهْلِ الْكِتَابِ/حدیث: 1104]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: السام علیکم (تمہیں موت آئے)، صحابۂ کرام نے سلام کا جواب دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے تو السام علیکم کہا ہے۔“ یہودی کو پکڑا گیا تو اس نے اعتراف کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم بھی اس کے جواب میں ایسے ہی کہو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ أَهْلِ الْكِتَابِ/حدیث: 1105]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الترمذي، كتاب تفسير القرآن: 3301 و مسلم: 2163 و أبوداؤد: 5207 و النسائي فى الكبرىٰ: 10147 و ابن ماجه: 3697 مختصرًا»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب یہودیوں میں سے کوئی تمہیں سلام کہتا ہے تو وہ کہتا ہے: السام علیک (تمہیں موت آئے)، تم بھی جواب میں وعلیک (تجھے موت پڑے) کہا کرو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ أَهْلِ الْكِتَابِ/حدیث: 1106]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الاستئذان: 6257 و مسلم: 2164 و أبوداؤد: 5206 و الترمذي: 1603 و النسائي فى الكبرىٰ: 10138»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا: یہودی، عیسائی اور مجوسی ہر ایک کو سلام کا جواب دو کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ”جب تمہیں تحفۂ سلام پیش کیا جائے تو اس کا اچھے اور بہتر طریقے سے جواب دو یا اتنا ہی لوٹا دو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ أَهْلِ الْكِتَابِ/حدیث: 1107]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه ابن أبى شيبة: 25765 و ابن أبى الدنيا فى الصمت: 307 و ابن أبى حاتم فى تفسيره: 5729 و أبويعلي: 1527 - أنظر الصحيحة: 329/2»
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس کے کجاوے پر فدک کی بنی ہوئی چادر تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید کو پیچھے بٹھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا، یہ اس اللہ کے دشمن کے اظہارِ اسلام سے پہلے کا واقعہ ہے، مجلس میں مسلمان، مشرک اور بت پرست ملے جلے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کہا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ أَهْلِ الْكِتَابِ/حدیث: 1108]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6207 و مسلم: 1798 و النسائي فى الكبرىٰ: 7460»
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ روم کے بادشاہ ہرقل نے سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خط منگوایا جو اس کی طرف بھیجا گیا تھا۔ یہ خط آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا وحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو بصری کے حاکم کو دینے کا حکم دیا، تو اس نے اسے ہرقل کو پہنچایا، اس نے اسے پڑھا، اس میں تھا: ”بسم الله الرحمن الرحیم ...... اللہ کے بندے اور رسول محمد کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کی طرف، سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔ بلاشبہ میں تم کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں۔ اسلام قبول کر لو، سلامت رہو گے، اور الله تعالیٰ تمہیں اس کا دوہرا اجر عطا فرمائے گا، اور اگر تم نے انکار کیا تو رعایا کا گناه بھی تم پر ہوگا۔ اور اے اہلِ کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے ...... تم اس کے گواہ رہو گے کہ ہم مسلمان ہیں۔“[الادب المفرد/كِتَابُ أَهْلِ الْكِتَابِ/حدیث: 1109]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب بدء الوحي: 7 و مسلم: 1773»
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ یہودیوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو کہا: السام علیکم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وعلیکم۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بہت غصہ آیا تو انہوں نے کہا: (اللہ کے رسول!) آپ نے سنا نہیں جو انہوں نے کہا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں، میں نے سنا ہے اور وہ الفاظ انہی پر لوٹا دیے ہیں۔ ہماری دعا ان کے خلاف قبول ہوتی ہے، اور ان کی ہمارے خلاف کی گئی دعا قبول نہیں ہوتی۔“[الادب المفرد/كِتَابُ أَهْلِ الْكِتَابِ/حدیث: 1110]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب السلام: 2166»