سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا جو سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، کے ہاں تشریف لے جاتے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلاتیں۔ ایک دفعہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر سے جوئیں نکالنے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر اٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 952]
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح البخاري، الجهاد و السير، ح: 2789 و مسلم كتاب الإمارة: 1912، 160»
سیدنا قیس بن عاصم سعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دیہاتیوں کا سردار ہے۔“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کس مقدار میں مال ہو تو مجھ پر کسی سائل یا مہمان کا حق نہیں ہوگا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چالیس (اونٹوں وغیرہ) تک مال ہونا اچھی بات ہے۔ ساٹھ ہو جائے تو یہ بہت کثیر میں شمار ہوگا، اور جن کے پاس سیکڑوں ہوں ان کے لیے ہلاکت ہے، سوائے اس کے جو پیارا مال بطورِ عطیہ دے اور خوب دودھ والا جانور ضرورت مند کو دے اور موٹا تازہ جانور ذبح کرے جو خود بھی کھائے اور ان لوگوں کو بھی کھلائے جو قناعت کیے ہوئے ہیں، اور جو مانگنے والے ہیں انہیں بھی کھلائے۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ عادتیں تو بڑی کریمانہ ہیں۔ جس وادی میں میں رہتا ہوں، میرے مویشیوں کی کثرت کی وجہ سے کوئی وہاں مویشی لاتا ہی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم عطیے میں کیا دیتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: جواں سال گائے یا بیل اور دو دانتا اونٹنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دودھ والے جانور کے بارے میں کیا کرتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: میں اونٹنی دودھ کے لیے دے دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم قابلِ حمل اونٹنیوں کے بارے میں کیا کرتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: لوگ اپنی رسیاں لاتے ہیں اور اونٹ کو مہار ڈال کر لے جاتے ہیں، کسی کو بھی اس سے منع نہیں کیا جاتا۔ اونٹ لے کر جانے والا اپنی مرضی سے جب تک چاہتا ہے اپنے پاس رکھتا ہے، اور خود مرضی ہی سے واپس کر جاتا ہے (میں نے کبھی کسی سے نہیں پوچھا)۔ نبى صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے اپنا مال زیادہ پسند ہے یا اپنے رشتہ داروں کا؟“ اس نے کہا: اپنا مال۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا مال صرف وہ ہے جسے تو نے کھا کر ختم کر دیا، یا کسی کو دے کر صدقے میں لگا دیا، اس کے علاوہ تیرے رشتہ داروں اور وارثوں کا ہے۔“ میں نے عرض کیا: بلاشبہ اب واپس جا کر اپنا مال ضرور کم کروں گا، یعنی صدقہ کروں گا۔ جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹوں کو جمع کیا اور کہا: اے میرے بیٹو! میری باتیں توجہ سے سنو، مجھ سے بڑھ کر تمہارا کوئی خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔ مجھ پر نوحہ مت کرنا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نوحہ نہیں کیا گیا، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نوحہ سے منع کرتے سنا ہے۔ اور مجھے ان کپڑوں میں کفن دینا جن میں، میں نماز پڑھتا تھا۔ اور اپنے بڑوں کو سردار بنانا، جب تم اپنے بڑوں کو سردار بناؤ گے تو تمہارے اندر تمہارے باپ کا کوئی نہ کوئی خلیفہ رہے گا، اور جب تم چھوٹوں کو سردار بناؤ گے تو تمہارے بڑے لوگوں کی نظروں میں حقیر ہو جائیں گے، اور لوگ تم سے بے تعلق ہو جائیں گے۔ اور اپنی روزی کو سوچ سمجھ کر درست رکھو کیونکہ اس طرح لوگوں سے مانگنا نہیں پڑتا۔ لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا کیونکہ یہ بندے کا سب سے آخری ذریعہ معاش ہے۔ اور جب تم مجھے دفن کر لو تو میری قبر برابر کر دینا کیونکہ میرے اور قبیلہ بکر بن وائل کے درمیان جھگڑے رہے ہیں تو مجھے اطمینان نہیں کہ ان کا کوئی بے وقوف کوئی ایسی حرکت کردے جو تمہارے دین میں کوئی عیب کی بات داخل کر دے۔ علی بن مدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابونعمان محمد بن فضل سے مذاکرہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ میں صعق بن حزن (جو کہ ملس تھے) کے پاس اس حدیث کے سلسلے میں گیا تو انہوں نے حسن سے روایت بیان کی۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے حسن سے خود سنی ہے؟ اس نے کہا: نہیں، یونس بن عبید حسن سے بیان کرتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا: کیا آپ نے یونس سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، مجھے قاسم بن مطیب نے یونس سے اور انہوں نے حسن سے بیان کی، انہوں نے قیس سے۔ میں نے ابونعمان سے کہا کہ تم نے یہ طریق کیوں اختیار نہیں کیا؟ انہوں نے کہا: ہم سے ضائع ہو گیا (اور اسے بھول گیا)۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 953]
سیدنا عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے خلیل سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وضو کا پانی لے کر حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر مبارک کو جنبش دی اور ہونٹوں کو دانتوں میں دبایا۔ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، میں نے آپ کو تکلیف دی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، لیکن تم ایسے امراء یا ائمہ دیکھو گے جو نماز کو وقت سے مؤخر کر کے پڑھیں گے۔“ میں نے عرض کیا: تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم بر وقت نماز پڑھو، اور پھر اگر ان کے ساتھ نماز پاؤ تو بھی پڑھ لو، اور یہ نہ کہو کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے، لہٰذا میں نماز نہیں پڑھوں گا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 954]
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح مسلم، المساجد و مواضع الصلاة، ح: 648»
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت میرے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم (تہجد کی) نماز نہیں پڑھتے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہماری جانیں تو صرف اللہ کے قبضے میں ہیں، جب وہ چاہتا ہے ہمیں اٹھا دیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور مجھے کچھ نہ کہا۔ پھر میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس جاتے ہوئے ہاتھ ران پر مارتے ہوئے (یہ آیت تلاوت) فرما رہے تھے: ”اور آدمی سب سے بڑھ کر جھگڑالو ہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 955]
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح البخاري، الجمعة، ح: 1127»
ابورزین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا ابوہریره رضی اللہ عنہ کو اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے دیکھا، اور وہ فرما رہے تھے۔ اے اہلِ عراق! کیا تم سمجھتے ہو کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتا ہوں؟ کیا تمہارے لیے لذت اور راحت ہو اور مجھ پر گناہ ہو؟ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب تم میں سے کسی (کے جوتے) کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ دوسرے (ایک) جوتے میں نہ چلے یہاں تک کہ اس کو درست کر لے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 956]
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح مسلم، اللباس و الزينة، ح: 2098»
ابوالعالیہ براء رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میرے پاس سے سیدنا عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ گزرے تو میں نے ان کے لیے کرسی بچھا دی اور وہ اس پر بیٹھ گئے۔ میں نے ان سے پوچھا: ابن زیاد نماز کو بہت لیٹ کر دیتا ہے، اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے زور سے میری ران پر ہاتھ مارا حتی کہ اس میں نشان پڑ گیا۔ پھر فرمایا: میں نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے یہی پوچھا تھا جو تم نے مجھ سے پوچھا ہے، تو انہوں نے اسی طرح میری ران پر ہاتھ مارا جس طرح میں نے تیری ران پر مارا ہے۔ اور انہوں نے فرمایا: نماز کو بروقت ادا کر لو، پھر اگر ان کے ساتھ نماز پا لو تو بھی پڑھ لو اور یوں نہ کہو: میں تو نماز پڑھ چکا ہوں، لہٰذا نماز نہیں پڑھوں گا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 957]
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح مسلم، المساجد مواضع الصلاة، ح: 648»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کے ایک گروہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابن صیاد کی طرف گئے، یہاں تک کہ اسے اس حالت میں پایا کہ وہ بنومغالہ کے قلعے کے پاس لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ ابن صیاد ان دنوں بلوغت کے قریب تھا۔ اسے اس وقت پتا چلا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کمر پر تھپکی دی، پھر فرمایا: ”کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟“ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھوں کے رسول ہیں۔ پھر بولا اور کہا: آپ بھی گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مضبوطی سے دبایا، پھر فرمایا: ”میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔“ پھر ابن صیاد سے فرمایا: ”تو کیا دیکھتا ہے؟“ ابن صیاد نے کہا: میرے پاس سچا اور جھوٹا دونوں آتے ہیں۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھ پر معاملہ خلط ملط کر دیا گیا ہے۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ”میں نے تیرے لیے دل میں ایک چیز چھپا رکھی ہے (بتا وہ کیا ہے؟)“ اس نے کہا: دخ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دور ہو جا، تو اپنی حیثیت سے آگے نہیں بڑھا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے اس کی گردن اڑانے کی اجازت دیتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ وہ یعنی دجال ہے تو تم اس پر قابو نہیں پا سکتے، اور اگر وہ نہیں ہے تو پھر اس کے قتل میں تمہارے لیے خیر کا کوئی پہلو نہیں۔“ سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا: اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ایک دن اس باغ کی طرف گئے جس میں ابن صیاد تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نخلستان میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے تنوں کی اوٹ لے کر ابن صیاد سے اس کے دیکھنے سے پہلے کچھ سننا چاہتے تھے (کہ وہ کیا گنگنا رہا ہے)، ابن صیاد اپنے بستر پر چادر لپیٹے لیٹا ہوا تھا اور بڑ بڑ کر رہا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے درختوں کی اوٹ میں چھپ کر قریب آ رہے تھے کہ ابن صیاد کی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا، اور ابن صیاد سے کہا: اوئے صاف! (یہ اس کا نام تھا) یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آرہے ہیں۔ تو ابن صیاد خاموش ہو گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ اس کو اس کے حال پر رہنے دیتی تو معاملہ بالکل واضح ہو جاتا۔“ سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰٰ کے شایانِ شان اس کی تعریف فرمائی، پھر دجال کا ذکر کر کے فرمایا: ”میں تمہیں اس سے خبردار کرتا ہوں، اور ہر نبی نے اپنی امت کو اس سے ڈرایا ہے۔ حتی کہ نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا۔ لیکن میں تمہیں اس کے بارے میں ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی: تمہیں جان لینا چاہیے کہ وہ کانا ہے، اور الله تعالیٰٰ یک چشم نہیں ہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 958]
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح البخاري، الجنائز: 1355 و الجهاد، ح: 3056، 3057»
سيدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب جنبی ہوتے تو پانی کی تین لپیں اپنے سر پر ڈال لیتے۔ حسن بن محمد ابن حنفیہ نے کہا: ابوعبداللہ! میرے بال اس سے بہت زیادہ ہیں (کہ تین لپ کفایت کریں)۔ راوی کہتے ہیں کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ حسن رحمہ اللہ کی ران پر مار کر فرمایا: میرے بھتیجے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تیرے بالوں سے زیادہ اور پاکیزہ تھے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 959]
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ طیبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے کھجور کے ایک تنے پر گر گئے، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک کو موچ آگئی۔ ہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے چوبارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کرتے تھے، چنانچہ ایک دفعہ ہم آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی، پھر ہم دوبارہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز بیٹھ کر پڑھ رہے تھے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھی، تو (دورانِ نماز) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کی تو فرمایا: ”جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو، اور جب وہ کھڑے ہو کر پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو۔ امام بیٹھا ہو تو تم کھڑے مت رہو جس طرح اہلِ فارس اپنے بڑوں کے لیے کرتے ہیں۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 960]
تخریج الحدیث: «صحيح: سنن أبى داؤد، الصلاة، ح: 602 و ابن ماجة، الطب، ح: 3485»
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ انصار کے کسی آدمی کے ہاں بچہ ہوا تو اس نے اس کا نام محمد رکھا۔ انصار نے کہا: ہم تمہیں اللہ کے رسول کی کنیت سے نہیں پکاریں گے یہاں تک کہ ہم راستہ میں بیٹھ گئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے متعلق سوال کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مجھ سے قیامت کے متعلق سوال کرنے کے لیے آئے ہو؟“ ہم نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی زنده جان ایسی نہیں جو سو سال پورے کرے۔“(مگر اس پر قیامت آجائے گی۔) ہم نے عرض کیا: ایک انصاری کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے جس کا نام اس نے محمد رکھا ہے، تو انصار نے اسے کہا ہے کہ ہم تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت سے ہرگز نہیں پکاریں گے، (یعنی ابوالقاسم نہیں کہیں گے۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار نے اچھا کیا ہے، میرے نام پر نام رکھ لو، مگر میری کنیت پر کنیت نہ رکھو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 961]
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح البخاري، فرض الخمس، ح: 3115»