بلیّ قبیلے کے ایک صحابی سے روایت ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چھوڑ کر میرے والد سے سرگوشی کی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کیا سرگوشی کی ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم کوئی کام کرنا چاہو تو سنجیدگی اور وقار کے ساتھ کرو، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰٰ تجھے اس کام سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھا دے۔“ یا فرمایا: ”اللہ تعالیٰٰ تیرے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 888]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه ابن أبى شيبة: 25312 و الحارث فى مسنده كما فى البغية: 867 و البيهقي فى شعب الإيمان: 1187 - أنظر الصحيحة: 2307»
محمد ابن الحنفیہ رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: جن لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہے بغیر چارہ نہ ہو، ان کے ساتھ اچھے طریقے سے نہ رہنے والا حکیم اور دانا نہیں ہے۔ اسے چاہیے کہ جن کے ساتھ رہنا ضروری ہو، ان کے ساتھ گزارہ کرتا رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰٰ اس کے لیے کوئی راہ نکال دے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 889]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى شيبة: 35704 و ابن أبى الدنيا فى الحلم: 108 والبيهقي فى الآداب: 224 و ابن المقري فى معجمه: 491 و أبونعيم فى الحلية: 175/3»
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی کو کوئی دودھ والا جانور دیا، یا گلی اور راستے کی راہنمائی کی، اسے ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 890]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الترمذي، كتاب البر و الصلة، باب ماجاء فى المنحة: 1957 - انظر صحيح الترغيب: 898»
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا اپنے ڈول سے پانی اپنے بھائی کے ڈول میں انڈیلنا صدقہ ہے۔ تیرا نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے۔ تیرا اپنے بھائی کو مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے۔ تیرا لوگوں کے راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی ہٹا دینا بھی تیرے لیے صدقہ ہے۔ کسی بھولے ہوئے آدمی کو صحیح راہ پر لگا دینا بھی صدقہ ہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 891]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الترمذي، كتاب البر و الصلة: 1956 - أنظر الصحيحة: 572»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص پر اللہ تعالیٰٰ کی لعنت ہو جس نے کسی اندھے کو صحیح راستے سے بھٹکایا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 892]
تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه أحمد: 2913 و عبد بن حميد: 589 و ابن حبان: 4417 و البيهقي فى الشعب: 4988 - انظر الصحيحة: 3462»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں اپنے گھر کے صحن میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس سے سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ گزرے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مسکرا کر دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”بیٹھوگے نہیں؟“ انہوں نے کہا: کیوں نہیں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے بیٹھ گئے۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اور فرمایا: ”ابھی تمہارے بیٹھے بیٹھے الله کا قاصد میرے پاس آیا۔“ انہوں نے کہا: پھر اس نے آپ سے کیا کہا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اس نے کہا ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ ......﴾ بلاشبہ الله تعالیٰٰ عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی، منکر، اور سرکشی و ظلم سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔“ عثمان کہتے ہیں: اس وقت سے ایمان میرے دل میں قرار دیا گیا اور میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت شروع کر دی۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 893]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه أحمد: 2919 و الطبراني فى الكبير: 39/9»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے دو بچیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں، میں اور وہ جنت میں اس طرح اکھٹے داخل ہوں گے۔“ راویٔ حدیث محمد بن عبدالعزیز نے درمیانی اور شہادت والی انگلی کو ملا کر اشارہ کیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 894]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب البر و الصلة و الأدب: 2631 و الترمذي: 1914 - أنظر الصحيحة: 297»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو گناہوں کی سزا جلد دنیا میں بھی مل جاتی ہے: سرکشی و بغاوت اور قطع رحمی۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 895]
تخریج الحدیث: «صحيح: وأخرجه المصنف فى تاريخه الكبير: 166/1 و الحاكم: 177/4 - انظر الصحيحة: 1120»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”يقيناً معزز بن معزز بن معزز بن معزز یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ہیں۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 896]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے دوست روزِ قیامت متقی لوگ ہوں گے، خواہ کسی کا نسب دوسرے کی نسبت مجھ سے زیادہ قریب ہو۔ ایسا نہ ہو کہ لوگ میرے پاس اعمال لے کر آئیں اور تم دنیا کو اپنی گردنوں پر اٹھائے ہوئے آؤ اور کہو: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مدد کیجیے، تو میں اس طرح سے انکار کروں کہ: چلو چلو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں جانب اعراض کر کے اشارہ کیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 897]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه ابن أبى عاصم فى السنة: 213 و الطبراني فى تهذيب الآثار: 434 و البيهقي فى الزهد: 882 - أنظر الصحيحة: 765»