سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ دو خطیب آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مشرق سے آئے۔ ان دونوں نے کھڑے ہو کر گفتگو کی پھر بیٹھ گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطیب سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کلام کیا۔ لوگوں کو ان دونوں کی گفتگو سے حیرت ہوئی، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا: ”اے لوگو! تم اپنے طریقے پر بات کرو، بات سے بات نکالتے چلے جانا تو صرف شیطان کی طرف سے ہے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً بعض بیان جادو ہوتے ہیں۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْكَلامِ/حدیث: 875]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 5687 و ابن حبان: 5718 و أخرجه مختصرًا البخاري: 5767 و أبوداؤد: 5007 و الترمذي: 2028»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس خطبہ دیا اور لمبی چوڑی گفتگو کی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خطبوں میں بہت زیادہ باتیں شیطانی فضولیات میں سے ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْكَلامِ/حدیث: 876]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن وهب فى الجامع: 322 و ابن أبى الدنيا فى الصمت: 152»
سیدنا معن بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی مسجدوں میں اکٹھے ہو جاؤ۔ جب ایک قوم اکٹھی ہو جائے تو مجھے اطلاع دینا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے ہمارے ہاں تشریف لائے اور بیٹھ گئے، چنانچہ ہم میں سے ایک آدمی نے گفتگو کی، پھر کہا: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس کی حمد سے اس کی ذات کے سوا اور کوئی مقصد اور نہ اس کے سوا کوئی بھاگنے کی جگہ ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو کر چلے گئے۔ ہم نے ایک دوسرے کو ملامت کی اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے ہمارے ہاں ہی تشریف لائے تھے (پھر ہمارے خطیب کی بات سن کر اٹھ کر چلے گئے) چنانچہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دوسرے کی مسجد میں چلے گئے، اور وہاں بیٹھ گئے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ آئے اور اپنی پہلی نشست یا اس کے قریب بیٹھ گئے، پھر فرمایا: ”ہر قسم کی تعریف اس ذات کے لیے ہے جس نے جو چاہا، جب چاہا بنایا اور جو چاہا بعد میں موجود فرمایا۔ بلاشبہ کئی بیان جادو ہوتے ہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا اور تعلیم دی۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْكَلامِ/حدیث: 877]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أحمد: 15861 و رواه الطبراني أيضًا فى المعجم الكبير: 442/19، 1074»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے چین ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کاش میرے صحابہ میں سے کوئی نیک آدمی میرے پاس آ کر پہرہ دیتا۔“ تب اچانک ہم نے اسلحہ کی آواز سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ اس نے آواز دی: سعد۔ پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کا پہرہ دینے کے لیے آیا ہوں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم آرام سے سو گئے یہاں تک کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹوں کی آواز سنی۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْكَلامِ/حدیث: 878]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب التمني، باب قوله صلى الله عليه وسلم ليت كذا و كذا: 7231 و مسلم: 2410 و الترمذي: 3756»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک رات اہلِ مدینہ پر خوف و ہراس طاری ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا مستعار لیا جسے مندوب کہا جاتا تھا، اور اس پر سوار ہو کر آگے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے تو فرمایا: ”ہم نے کوئی چیز نہیں دیکھی، اور ہم نے اس گھوڑے کو بحر پایا ہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْكَلامِ/حدیث: 879]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الهبة، باب من استعار من الناس الفرس: 2627 و مسلم: 2307 و أبوداؤد: 4988 و الترمذي: 1685 و النسائي فى الكبرىٰ: 8770 و ابن ماجه: 2772»
عبدالرحمٰن بن عجلان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دو آدمیوں کے پاس سے گزرے جو تیر اندازی کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: أسبت، یعنی تو نے ٹھیک کیا (حالانکہ یہ أَصَبْتَ ہے) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تلفظ کی غلطی تیر اندازی کی غلطی سے بری ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْكَلامِ/حدیث: 881]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه ابن سعد فى الطبقات: 215/3 - انظر الضعيفة: 2414»
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ صحیح نہیں ہیں، اور ان کی کوئی حقیقت نہیں۔“ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ کوئی چیز بیان کرتے ہیں جو بسا اوقات صحیح ثابت ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ صحیح بات وہ کلمہ ہوتا ہے جسے شیطان (فرشتوں کی باہمی گفتگو سے) اچک لیتا ہے، اور اپنے دوستوں کے کانوں میں اس طرح ڈالتا ہے جیسے مرغی قر قر کرتی ہے، پھر وہ کاہن اس میں سو سے زیادہ جھوٹ ملا لیتے ہیں۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْكَلامِ/حدیث: 882]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب التوحيد: 7561، 3217 و مسلم: 2228 و الترمذي: 3248»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے کہ ایک اونٹ ہانکنے والے نے حدی پڑھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”افسوس تجھ پر اے انجشہ! شیشوں کو چلانے میں رحم کھا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْكَلامِ/حدیث: 883]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6209 و مسلم: 2323 و تقدم تخريجه برقم: 264»
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: کسی آدمی کے جھوٹے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کر دے۔ راوی کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے میرے خیال میں یہ بھی فرمایا: کیا تعریض اختیار کرنے میں مسلمان کے لیے جھوٹ سے بچاؤ نہیں ہے؟ [الادب المفرد/كِتَابُ الْكَلامِ/حدیث: 884]
تخریج الحدیث: «صحيح موقوفًا: أخرجه ابن أبى شيبة: 25618، 26095 و مسلم فى مقدمة صحيحه: 5 و البيهقي فى شعب الإيمان: 4793، 4997 و هناد فى الزهد: 1377»