سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم میں سے ایک آدمی کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اس نے اس کا نام قاسم رکھا۔ انصار نے کہا: ہم تمہیں ابوالقاسم کہہ کر نہیں بلائیں گے، اور تیری آنکھیں ٹھنڈی نہیں کریں گے۔ چنانچہ وہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور انصار کی بات بتائی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار نے اچھا کیا ہے، تم میرے نام پر نام رکھ لو، لیکن میری کنیت پر کنیت نہ رکھو، کیونکہ قاسم میں ہی ہوں۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الكُنْيَةِ/حدیث: 842]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6186، 3114 و مسلم: 2133»
محمد ابن الحنفیہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے رخصت تھی (کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور کنیت رکھیں) انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر آپ کے بعد میرا کوئی بیٹا ہو تو کیا میں اس کا نام اور کنیت آپ کے نام اور کنیت پر رکھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الكُنْيَةِ/حدیث: 843]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه المصنف فى التاريخ الكبير: 182/1 بالإسناد نفسه و أبوداؤد: 4967 و الترمذي: 2843 - انظر الصحيحة: 2946»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نام اور کنیت ایک ساتھ رکھنے سے منع کیا اور فرمایا: ”میں ابوالقاسم ہوں۔ اللہ تعالیٰٰ دیتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الكُنْيَةِ/حدیث: 844]
تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه الترمذي، كتاب الأدب: 2141 و أحمد: 423/2 من حديث محمد بن عجلان به وعلقه: 4966»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں تھے کہ ایک آدمی نے کہا: اے ابوالقاسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا: میں نے اس یعنی کسی اور شخص کو بلایا تھا۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے نام پر نام رکھ لیا کرو، مگر میری کنیت پرکنیت نہ رکھو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الكُنْيَةِ/حدیث: 845]
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں پہنچے جہاں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا۔ اور یہ عبداللہ بن ابی کے اظہارِ اسلام سے پہلے کا واقعہ ہے۔ اس نے کہا: ہمیں ہماری مجلسوں میں اذیت نہ دیا کرو۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے تو ان سے فرمایا: ”اے سعد! کیا تم نے سنا نہیں کہ ابوحباب نے کیا کہا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الكُنْيَةِ/حدیث: 846]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب كنية المشرك: 6207 و مسلم: 1798»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لاتے اور میرا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کی کنیت ابوعمیر تھی۔ اس نے ایک بلبل پال رکھی تھی، جس کے ساتھ وہ کھیلتا تھا، تو وہ مرگئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اسے پریشان دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اسے کیا مسئلہ ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اس کی بلبل مرگئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوعمیر! تیری بلبل کو کیا ہوا تجھے جدائی دے گئی۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الكُنْيَةِ/حدیث: 847]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6203، 6129 و مسلم،كتاب الأدب: 2150»
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے علقمہ رحمہ اللہ کی کنیت ابوشبل رکھی حالانکہ اس وقت ان کی اولاد نہیں تھی۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الكُنْيَةِ/حدیث: 848]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن الجعد فى مسنده: 633 و العقيلي فى الضعفاء عن المصنف به: 125/2 و ابن سعد فى الطبقات: 147/6»
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ علقمہ رحمہ اللہ نے فرمایا: میرے ہاں اولاد پیدا ہونے سے پہلے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے میری کنیت رکھی۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الكُنْيَةِ/حدیث: 849]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى شيبة: 26288 و الدولابي فى الكني: 65082»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے اپنی بیویوں کی کنیت رکھی ہے تو میری بھی کنیت رکھ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے بھانجے عبداللہ کے نام پر کنیت رکھ لو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الكُنْيَةِ/حدیث: 850]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 24619 و ابن أبى عاصم فى الآحاد: 3055 و الطبراني فى الكبير: 18/23 و البيهقي فى الأدب: 618 - انظر الصحيحة: 132»
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے نبی! آپ میری کنیت نہیں رکھ دیتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے بیٹے یعنی عبداللہ بن زبیر کے نام پر کنیت رکھ لو۔“ چنانچہ انہیں ام عبداللہ کہا جاتا تھا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الكُنْيَةِ/حدیث: 851]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن سعد فى الطبقات: 152/8 و رواه ابن ماجه نحوه: 3739»