الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


الادب المفرد کل احادیث (1322)
حدیث نمبر سے تلاش:

الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب
262. بَابُ الأعْرَابِيَّةِ
262. جنگل میں سکونت اختیار کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 578
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ‏:‏ الْكَبَائِرُ سَبْعٌ، أَوَّلُهُنَّ‏:‏ الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَرَمْيُ الْمُحْصَنَاتِ، وَالأعْرَابِيَّةُ بَعْدَ الْهِجْرَةِ‏.‏
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: کبیرہ گناہ سات ہیں: ان میں سے پہلا اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے، پھر قتل ناحق، پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا اور ہجرت کے بعد جنگل میں سکونت اختیار کرنا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 578]
تخریج الحدیث: «صحيح موقوفًا وهو فى حكم المرفوع، وقد روي مرفوعًا نحوه: الصحيحة: 2244 - أخرجه مرفوعًا ابن أبى حاتم فى تفسيره: 931/3 و البزار فى مسنده: 241/15، من طريق أبى عوانه به مرفوع»

قال الشيخ الألباني: صحيح موقوفًا وهو فى حكم المرفوع ، وقد روي مرفوعًا نحوه

263. بَابُ سَاكِنِ الْقُرَى
263. دیہات میں رہنے والوں کا تذکرہ
حدیث نمبر: 579
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي صَفْوَانُ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ رَاشِدَ بْنَ سَعْدٍ يَقُولُ‏:‏ سَمِعْتُ ثَوْبَانَ يَقُولُ‏:‏ قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”لاَ تَسْكُنِ الْكُفُورَ، فَإِنَّ سَاكِنَ الْكُفُورِ كَسَاكِنِ الْقُبُورِ“، قَالَ أَحْمَدُ‏:‏ الْكُفُورُ‏:‏ الْقُرَى‏.‏
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا بَقِيَّةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي صَفْوَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَاشِدَ بْنَ سَعْدٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”يَا ثَوْبَانُ، لَا تَسْكُنِ الْكُفُورَ، فَإِنَّ سَاكِنَ الْكُفُورِ كَسَاكِنِ الْقُبُورِ.“
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: دور دراز بستیوں میں سکونت اختیار نہ کرنا کیونکہ دور دراز دیہاتوں میں رہنے والا ایسا ہے جیسے وہ قبروں میں رہ رہا ہے۔ احمد بن عاصم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ کفور سے مراد دیہات ہیں۔ ایک دوسری سند سے بھی سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ثوبان! دور دراز بستیوں میں سکونت اختیار نہ کرنا کیونکہ دور دراز بستیوں میں رہنے والا قبروں میں رہنے والوں کی طرح ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 579]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه البيهقي فى شعب الإيمان: 7518 و الطبراني فى مسند الشامين: 99/2 - انظر الصحيحة تحت رقم: 4783»

قال الشيخ الألباني: حسن

264. بَابُ الْبَدْوُ إِلَى التِّلاعِ
264. کبھی کبھار ٹیلوں پر جانا
حدیث نمبر: 580
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ‏:‏ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنِ الْبَدْوِ قُلْتُ‏:‏ وَهَلْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْدُو‏؟‏ فَقَالَتْ‏:‏ نَعَمْ، كَانَ يَبْدُو إِلَى هَؤُلاَءِ التِّلاعِ‏.‏
حضرت شریح رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دیہات کی طرف جانے کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی شہری آبادی سے باہر بھی جاتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار ان ٹیلوں کی طرف جایا کرتے تھے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 580]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الجهاد، باب ما جاء فى الهجرة و سكنى البدو: 2478، 4808 - انظر الصحيحة: 524»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 581
حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصِ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ وَهْبٍ قَالَ‏:‏ رَأَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ أُسَيْدٍ إِذَا رَكِبَ، وَهُوَ مُحْرِمٌ، وَضَعَ ثَوْبَهُ عَنْ مَنْكِبَيْهِ، وَوَضَعَهُ عَلَى فَخِذَيْهِ، فَقُلْتُ‏:‏ مَا هَذَا‏؟‏ قَالَ‏:‏ رَأَيْتُ عَبْدَ اللهِ يَفْعَلُ مِثْلَ هَذَا‏.‏
عمرو بن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن عبداللہ بن اسید رحمہ اللہ کو دیکھا کہ جب وہ احرام کی حالت میں سوار ہوتے تو اپنے کندھوں سے کپڑا اتار کر اپنی رانوں پر رکھ لیتے۔ میں نے ان سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ اس طرح کرتے تھے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 581]
تخریج الحدیث: «ضعيف:» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف

265. بَابُ مَنْ أَحَبَّ كِتْمَانَ السِّرِّ، وَأَنْ يُجَالِسَ كُلَّ قَوْمٍ فَيَعْرِفَ أَخْلاَقَهُمْ
265. راز چھپانے اور لوگوں کے اخلاق جاننے کے لیے ان کے ساتھ بیٹھنے کی اہمیت
حدیث نمبر: 582
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَرَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ كَانَا جَالِسَيْنِ، فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْقَارِيِّ فَجَلَسَ إِلَيْهِمَا، فَقَالَ عُمَرُ‏:‏ إِنَّا لاَ نُحِبُّ مَنْ يَرْفَعُ حَدِيثَنَا، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ‏:‏ لَسْتُ أُجَالِسُ أُولَئِكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ عُمَرُ‏:‏ بَلَى، فَجَالِسْ هَذَا وَهَذَا، وَلاَ تَرْفَعْ حَدِيثَنَا، ثُمَّ قَالَ لِلأَنْصَارِيِّ‏:‏ مَنْ تَرَى النَّاسَ يَقُولُونَ يَكُونُ الْخَلِيفَةَ بَعْدِي‏؟‏ فَعَدَّدَ الأَنْصَارِيُّ رِجَالاً مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، لَمْ يُسَمِّ عَلِيًّا، فَقَالَ عُمَرُ‏:‏ فَمَا لَهُمْ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ‏؟‏ فَوَاللَّهِ إِنَّهُ لَأَحْرَاهُمْ، إِنْ كَانَ عَلَيْهِمْ، أَنْ يُقِيمَهُمْ عَلَى طَرِيقَةٍ مِنَ الْحَقِّ‏.‏
عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن عبدالقاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری بیٹھے تھے کہ عبدالرحمٰن بن عبدالقاری آ کر ان کے پاس بیٹھ گئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم اس شخص کو پسند نہیں کرتے جو ہماری باتیں ادھر ادھر پہنچائے، تو عبدالرحمٰن رحمہ اللہ نے عرض کیا: امیر المؤمنین! میں ان لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھتا جو ایسا کرتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں واقعۃً تم ایسے ہی ہو۔ اس کے ساتھ بیٹھو لیکن ہماری باتیں آگے بیان نہ کرنا۔ پھر انصاری سے فرمایا: تو کیا دیکھتا ہے کہ میرے بعد لوگ کس کے خلیفہ بننے کی باتیں کرتے ہیں یا بنائیں گے؟ انصاری نے کئی مہاجرین کے نام گنوائے لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام نہ لیا، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: انہیں ابوالحسن پر کیا اعتراض ہے، اللہ کی قسم! وہ ان سب سے زیادہ لائق ہیں، اگر وہ ان پر امیر ہو جائیں تو ان کو حق کے راستے پر قائم رکھیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 582]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه عبدالرزاق فى المصنف: 9761»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

266. بَابُ التُّؤَدَةِ فِي الأمُورِ
266. معاملات میں جلد بازی نہ کرنا
حدیث نمبر: 583
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو هِلاَلٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، أَنَّ رَجُلاً تُوُفِّيَ وَتَرَكَ ابْنًا لَهُ وَمَوْلًى لَهُ، فَأَوْصَى مَوْلاَهُ بِابْنِهِ، فَلَمْ يَأْلُوهُ حَتَّى أَدْرَكَ وَزَوَّجَهُ، فَقَالَ لَهُ‏:‏ جَهَّزْنِي أَطْلُبِ الْعِلْمَ، فَجَهَّزَهُ، فَأَتَى عَالِمًا فَسَأَلَهُ، فَقَالَ‏:‏ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْطَلِقَ فَقُلْ لِي أُعَلِّمْكَ، فَقَالَ‏:‏ حَضَرَ مِنِّي الْخُرُوجُ فَعَلِّمْنِي، فَقَالَ‏:‏ اتَّقِ اللَّهَ وَاصْبِرْ، وَلاَ تَسْتَعْجِلْ‏.‏ قَالَ الْحَسَنُ‏:‏ فِي هَذَا الْخَيْرُ كُلُّهُ، فَجَاءَ وَلاَ يَكَادُ يَنْسَاهُنَّ، إِنَّمَا هُنَّ ثَلاَثٌ، فَلَمَّا جَاءَ أَهْلَهُ نَزَلَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، فَلَمَّا نَزَلَ الدَّارَ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ نَائِمٍ مُتَرَاخٍ عَنِ الْمَرْأَةِ، وَإِذَا امْرَأَتُهُ نَائِمَةٌ، قَالَ‏:‏ وَاللَّهِ مَا أُرِيدُ مَا أَنْتَظِرُ بِهَذَا‏؟‏ فَرَجَعَ إِلَى رَاحِلَتِهِ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَأْخُذَ السَّيْفَ قَالَ‏:‏ اتَّقِ اللَّهَ وَاصْبِرْ، وَلاَ تَسْتَعْجِلْ‏.‏ فَرَجَعَ، فَلَمَّا قَامَ عَلَى رَأْسِهِ قَالَ‏:‏ مَا أَنْتَظِرُ بِهَذَا شَيْئًا، فَرَجَعَ إِلَى رَاحِلَتِهِ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَأْخُذَ سَيْفَهُ ذَكَرَهُ، فَرَجَعَ إِلَيْهِ، فَلَمَّا قَامَ عَلَى رَأْسِهِ اسْتَيْقَظَ الرَّجُلُ، فَلَمَّا رَآهُ وَثَبَ إِلَيْهِ فَعَانَقَهُ وَقَبَّلَهُ، وَسَاءَلَهُ قَالَ‏:‏ مَا أَصَبْتَ بَعْدِي‏؟‏ قَالَ‏:‏ أَصَبْتُ وَاللَّهِ بَعْدَكَ خَيْرًا كَثِيرًا، أَصَبْتُ وَاللَّهِ بَعْدَكَ‏:‏ أَنِّي مَشَيْتُ اللَّيْلَةَ بَيْنَ السَّيْفِ وَبَيْنَ رَأْسِكَ ثَلاَثَ مِرَارٍ، فَحَجَزَنِي مَا أَصَبْتُ مِنَ الْعِلْمِ عَنْ قَتْلِكَ‏.‏
حضرت حسن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی فوت ہوا اور اپنے پیچھے ایک بیٹا اور غلام چھوڑا۔ اپنے غلام کو بیٹے کے بارے میں وصیت کی۔ چنانچہ غلام نے اس لڑکے کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی، یہاں تک کہ وہ لڑکا جوان ہوا تو اس نے اس کی شادی کر دی۔ اس لڑکے نے غلام سے کہا: میرے لیے کچھ سامان تیار کریں تاکہ میں حصول علم کے لیے نکلوں۔ اس نے اسے تیار کر دیا، چنانچہ وہ ایک عالم کے پاس آیا اور اس سے سیکھتا رہا۔ اس نے کہا: جب تم جانے لگو تو مجھے بتانا میں تمہیں کچھ باتیں بتاؤں گا۔ اس نے کہا: میں جانا چاہتا ہوں، مجھے وہ باتیں سکھا دیں۔ اس عالم نے کہا: اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، صبر کرنا اور جلد بازی نہ کرنا۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس میں ہر قسم کی خیر آ گئی۔ وہ لڑکا جب واپس ہوا تو ان تینوں باتوں کو نہ بھولا۔ جب وہ اپنی بیوی کے پاس آیا، سواری سے اترا اور گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک مرد اس کی بیوی سے ذرا فاصلے پر سویا ہوا ہے، اور اس کی بیوی بھی سوئی ہوئی ہے۔ اس نے دل میں کہا: اللہ کی قسم میں اس حالت پر زیادہ انتظار کا ارادہ نہیں رکھتا۔ وہ اپنی سواری کی طرف گیا۔ جب اس نے تلوار پکڑنے کا ارادہ کیا تو خود کو مخاطب کر کے کہا: اللہ سے ڈرو، صبر کرو اور جلد بازی سے کام نہ لو، پھر واپس آ گیا۔ جب وہ اس کے سرہانے کھڑا ہوا تو اس نے کہا: میں اس حالت میں بالکل انتظار نہیں کر سکتا۔ چنانچہ وہ دوبارہ اپنی سواری کے پاس گیا، لیکن جب اس نے تلوار پکڑنے کا ارادہ کیا تو اسے استاد کی وصیت یاد آ گئی۔ وہ پھر واپس گیا اور اس کے سر کے پاس کھڑا ہوا تو وہ آدمی جاگ گیا۔ جب اس نے اس لڑکے کو دیکھا تو فوراً اٹھا اور اس سے گلے ملا اور اسے بوسہ دیا اور اس سے پوچھا: میرے پاس سے جانے کے بعد تم کیسے رہے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم تیرے پاس سے جانے کے بعد مجھے بہت زیادہ بھلائی حاصل ہوئی۔ آپ کے بعد جو کچھ میں نے حاصل کیا وہ یہ کہ آج رات میں تیرے سر اور تلوار کے درمیان تین دفعہ چلا، تاکہ تجھے قتل کروں لیکن جو علم میں نے حاصل کیا اس نے مجھے تیرے قتل سے روک دیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 583]
تخریج الحدیث: «حسن:» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

267. بَابُ التُّؤَدَةِ فِي الأمُورِ
267. کاموں میں سنجیدگی اختیار کرنا
حدیث نمبر: 584
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَشَجِّ عَبْدِ الْقَيْسِ قَالَ‏:‏ قَالَ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”إِنَّ فِيكَ لَخُلُقَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ“، قُلْتُ‏:‏ وَمَا هُمَا يَا رَسُولَ اللهِ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”الْحِلْمُ وَالْحَيَاءُ“، قُلْتُ‏:‏ قَدِيمًا كَانَ أَوْ حَدِيثًا‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”قَدِيمًا“، قُلْتُ‏:‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَبَلَنِي عَلَى خُلُقَيْنِ أَحَبَّهُمَا اللَّهُ‏.‏
سیدنا اشج عبدالقیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: تجھ میں دو عادتیں ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! وہ دو خصلتیں کیا ہیں؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلم و بردباری اور حیا۔ میں نے عرض کیا: یہ خصلتیں مجھ میں پیدائشی ہیں یا ابھی پیدا ہوئی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے سے ہیں۔ میں نے کہا: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں، جس نے میرے اندر دو خصلتیں پیدا کیں ہیں جنہیں وہ پسند کرتا ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 584]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى شيبة: 25342 و أحمد: 17828 و النسائي فى الكبرىٰ: 7699 - انظر المشكاة: 625»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 585
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي هَاشِمٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مَنْ لَقِيَ الْوَفْدَ الَّذِينَ قَدِمُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ، وَذَكَرَ قَتَادَةُ أَبَا نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ‏:‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأَشَجِّ عَبْدِ الْقَيْسِ‏:‏ ”إِنَّ فِيكَ لَخَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ‏:‏ الْحِلْمُ وَالأَنَاةُ‏.‏“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا اشج عبدالقیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تیرے اندر دو خصلتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں، بردباری اور وقار۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 585]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الإيمان: 26، 18 - انظر المشكاة: 5054، التحقيق الثاني»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 586
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا قُرَّةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ‏:‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلأَشَجِّ أَشَجِّ عَبْدِ الْقَيْسِ‏:‏ ”إِنَّ فِيكَ لَخَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ‏:‏ الْحِلْمُ وَالأنَاةُ‏.‏“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا اشج عبدالقیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تیرے اندر دو خصلتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں: حلم و بردباری اور وقار و ٹھہراؤ۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 586]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الإيمان: 25، 17 و الترمذي: 2011 و ابن ماجه: 4188 - انظر المشكاة: 5054»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 587
حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا طَالِبُ بْنُ حُجَيْرٍ الْعَبْدِيُّ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي هُودُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَعْدٍ، سَمِعَ جَدَّهُ مَزِيدَةَ الْعَبْدِيَّ قَالَ‏:‏ جَاءَ الأَشَجُّ يَمْشِي حَتَّى أَخَذَ بِيَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَّلَهَا، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”أَمَا إِنَّ فِيكَ لَخُلُقَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ“، قَالَ‏:‏ جَبْلاً جُبِلْتُ عَلَيْهِ، أَوْ خُلِقَا مَعِي‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”لَا، بَلْ جَبْلاً جُبِلْتَ عَلَيْهِ“، قَالَ‏:‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَبَلَنِي عَلَى مَا يُحِبُّ اللَّهُ وَرَسُولُهُ‏.‏
سیدنا مزیدہ عبدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سیدنا اشج رضی اللہ عنہ چلتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا اور اسے بوسہ دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرے اندر دو خصلتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو پسند ہیں۔ انہوں نے کہا: کیا یہ میری پیدائشی صفات ہیں یا بعد میں پیدا ہوئیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ یہ تیرے اندر فطری ہیں۔ انہوں نے کہا: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے ان صفات پر پیدا فرمایا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو پسند ہیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 587]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه المصنف فى خلق أفعال العباد، ص: 60 و ابن أبى عاصم فى الآحاد و المثاني: 1690 و أبويعلي: 6815»

قال الشيخ الألباني: ضعيف


Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next