حضرت ابواسماء رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ”جس نے اپنے مسلمان بھائی کی تیمارداری کی تو وہ جنت کے باغوں میں ہے۔“ میں نے ابوقلابہ سے پوچھا: جنت میں ہونے کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا: مطلب یہ ہے کہ اسے اس کے بدلے میں جنت کے پھل ملیں گے۔ میں نے مزید پوچھا کہ ابواسماء یہ حدیث کس سے بیان کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ثوبان سے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 521]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب البر و الصلة و الأدب: 2568 و الترمذي: 967 - انظر صحيح أبى داؤد: 2714»
ابوبکر بن حزم، محمد بن منکدر اور مسجد کے کچھ نمازیوں نے عمر بن حکم بن رافع انصاری رحمہ اللہ کی عیادت کی تو انہوں نے عمر سے کہا: اے ابوحفص! ہمیں کوئی حدیث سنائیں۔ انہوں نے کہا: میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے کسی مریض کی تیمار داری کی وہ رحمت میں پوری طرح گھس گیا یہاں تک کہ جب مریض کے پاس بیٹھ گیا تو گویا اس نے رحمت میں مستقل قرار پکڑ لیا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 522]
تخریج الحدیث: «صحح: أخرجه أحمد: 14260 و ابن حبان: 2956 و الحاكم: 501/1 و البيهقي فى الكبريٰ: 533/3 - انظر الصحيحة: 1929»
حضرت عطاء رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما (عبداللہ) بن صفوان رحمہ اللہ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو نماز کا وقت ہو گیا، تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں دو رکعت نماز پڑھائی اور کہا: ہم مسافر ہیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 523]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا۔ وہ بیمار ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے سرہانے بیٹھ کر فرمایا: ”اسلام قبول کر لو۔“ اس لڑکے نے یہ سن کر سرہانے کھڑے اپنے باپ کی طرف دیکھا تو اس نے کہا: ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لو، چنانچہ وہ لڑکا مسلمان ہو گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے باہر تشریف لائے تو فرما رہے تھے: ”ہر قسم کی تعریف اس ذات کے لیے ہے جس نے اسے آگ سے بچا لیا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 524]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الجنائز، باب إذا أسلم الصبي فمات: 1356، 5657 و أبوداؤد: 3095»
قال الشيخ الألباني: صحيح
240. بَابُ مَا يَقُولُ لِلْمَرِيضِ
240. مریض سے کیا کہا جائے، یعنی کیسے حال پوچھا جائے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو سیدنا ابوبکر اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہما کو بخار ہو گیا۔ وہ فرماتی ہیں: میں ان کی تیمارداری کے لیے گئی تو میں نے کہا: اے ابا جان! کیا حال ہے؟ اور اے بلال! آپ کیسے ہیں؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جب بخار ہوتا تو کہتے: ہر شخص کو اس کے گھر والوں میں ”تمہاری صبح خیر یت کے ساتھ ہو“ کہا جاتا ہے جبکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے بھی اس کے زیادہ قریب ہے۔ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو افاقہ ہوتا تو بآواز بلند کہتے: کاش مجھے پتہ چل جاتا کیا کوئی رات ایسی وادی میں گزاروں گا کہ میرے اردگرد اذخر و جلیل نامی گھاس ہو گی، اور کیا کسی دن میں جحفہ کے پانیوں پر وارد ہوں گا، اور کیا کبھی مجھے شامہ اور طفیل پہاڑ نظر آئیں گے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! مدینہ ہمیں اسی طرح محبوب بنا دے جس طرح ہمیں مکہ محبوب ہے، یا اس سے بھی زیادہ محبوب بنا دے۔ اس کی آب و ہوا کو صحت افزا بنا دے، اور ہمارے لیے اس کے صاع اور مد میں برکت عطا فرما، اور اس کے بخار کو یہاں سے جحفہ منتقل کر دے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 525]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب فضائل المدينة: 889، 5677 و مسلم: 1376»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیہاتی کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی تیمارداری کرتے تو دعا پڑھتے تھے: «لا بأس طهور إن شاء الله»”کوئی حرج نہیں، یہ بیماری پاک کرنے والی ہے، ان شاء اللہ“ اس دیہاتی نے کہا: یہ پاک کرنے والی ہے؟ ہرگز نہیں یہ تو بخار ہے جو بوڑھے پر چڑھ دوڑا ہے تاکہ اسے قبرستان پہنچا دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ایسا ہی ہو گا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 526]
حضرت نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جب کسی مریض کی تیمارداری کرتے تو اس سے پوچھتے: وہ کیسا ہے؟ اور جب وہاں سے اٹھتے تو فرماتے: اللہ تیرے لیے خیر کر دے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتے تھے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 527]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه البيهقي فى شعب الإيمان: 8775 و أبوالعباس الإصم: 349/1»
حضرت سعید بن عمرو رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حجاج بن یوسف سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں بھی وہیں تھا۔ اس نے پوچھا: آپ کا کیا حال ہے؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ٹھیک ہوں۔ حجاج نے کہا: کس نے آپ کو زخمی کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: مجھے اس نے زخمی کیا ہے جس نے اس دن اسلحہ اٹھانے کا حکم دیا، جس دن اسلحہ اٹھانا جائز نہ تھا، یعنی حجاج نے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 528]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب العيدين، باب يكره من حمل السلاح فى العيد و الحرم: 966، 967»
حارث بن عبیداللہ انصاری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا کو ایک ایسے کجاوے پر دیکھا جو لکڑی سے بنا ہوا تھا اور اس پر پردہ نہیں تھا، وہ اہل مسجد میں سے ایک انصاری کی عیادت کے لیے تشریف لائی تھیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 530]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه المصنف فى تاريخه الكبير بنفس الإسناد: 275/2 و ابن عساكر فى تاريخه: 448/11»