عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم سے ابوسفیان بن حرب نے بیان کیا حدیث ہرقل کے سلسلہ میں کہا کہ وہ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے، سچائی اختیار کرنے اور حرام سے بچے رہنے کا حکم دیتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: Q349]
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے یونس کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے انس بن مالک سے، انہوں نے فرمایا کہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور انہوں نے میرا سینہ چاک کیا۔ پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس کو میرے سینے میں رکھ دیا، پھر سینے کو جوڑ دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کھولو۔ اس نے پوچھا، آپ کون ہیں؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پھر انہوں نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ جواب دیا، ہاں میرے ساتھ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا ان کے بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا، جی ہاں! پھر جب انہوں نے دروازہ کھولا تو ہم پہلے آسمان پر چڑھ گئے، وہاں ہم نے ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ان کے داہنی طرف کچھ لوگوں کے جھنڈ تھے اور کچھ جھنڈ بائیں طرف تھے۔ جب وہ اپنی داہنی طرف دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب بائیں طرف نظر کرتے تو روتے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا، آؤ اچھے آئے ہو۔ صالح نبی اور صالح بیٹے! میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور ان کے دائیں بائیں جو جھنڈ ہیں یہ ان کے بیٹوں کی روحیں ہیں۔ جو جھنڈ دائیں طرف ہیں وہ جنتی ہیں اور بائیں طرف کے جھنڈ دوزخی روحیں ہیں۔ اس لیے جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتے ہیں تو خوشی سے مسکراتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو (رنج سے) روتے ہیں۔ پھر جبرائیل مجھے لے کر دوسرے آسمان تک پہنچے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ کھولو۔ اس آسمان کے داروغہ نے بھی پہلے کی طرح پوچھا پھر کھول دیا۔ انس نے کہا کہ ابوذر نے ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پر آدم، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو موجود پایا۔ اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے ہر ایک کا ٹھکانہ نہیں بیان کیا۔ البتہ اتنا بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدم کو پہلے آسمان پر پایا اور ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر۔ انس نے بیان کیا کہ جب جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادریس علیہ السلام پر گزرے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جواب دیا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پھر میں عیسیٰ علیہ السلام تک پہنچا، انہوں نے کہا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پھر میں ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا۔ انہوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بیٹے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن حزم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس اور ابوحبۃ الانصاری رضی اللہ عنہم کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر مجھے جبرائیل علیہ السلام لے کر چڑھے، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں میں نے قلم کی آواز سنی (جو لکھنے والے فرشتوں کی قلموں کی آواز تھی) ابن حزم نے (اپنے شیخ سے) اور انس بن مالک نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر واپس لوٹا۔ جب موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر اللہ نے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا کہ پچاس وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے فرمایا آپ واپس اپنے رب کی بارگاہ میں جائیے۔ کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے۔ میں واپس بارگاہ رب العزت میں گیا تو اللہ نے اس میں سے ایک حصہ کم کر دیا، پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ ایک حصہ کم کر دیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ دوبارہ جائیے کیونکہ آپ کی امت میں اس کے برداشت کی بھی طاقت نہیں ہے۔ پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوا۔ پھر ایک حصہ کم ہوا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ اپنے رب کی بارگاہ میں پھر جائیے، کیونکہ آپ کی امت اس کو بھی برداشت نہ کر سکے گی، پھر میں باربار آیا گیا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نمازیں (عمل میں) پانچ ہیں اور (ثواب میں) پچاس (کے برابر) ہیں۔ میری بات بدلی نہیں جاتی۔ اب میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس جائیے۔ لیکن میں نے کہا مجھے اب اپنے رب سے شرم آتی ہے۔ پھر جبرائیل مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانک رکھا تھا۔ جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں۔ اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 349]
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں خبر دی امام مالک نے صالح بن کیسان سے، انہوں نے عروہ بن زبیر سے، انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے نماز میں دو دو رکعت فرض کی تھی۔ سفر میں بھی اور اقامت کی حالت میں بھی۔ پھر سفر کی نماز تو اپنی اصلی حالت پر باقی رکھی گئی اور حالت اقامت کی نمازوں میں زیادتی کر دی گئی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 350]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
2. بَابُ وُجُوبِ الصَّلاَةِ فِي الثِّيَابِ:
2. باب: اس بیان میں کہ کپڑے پہن کر نماز پڑھنا واجب ہے۔
(سورۃ الاعراف میں) اللہ عزوجل کا حکم ہے «خذوا زينتكم عند كل مسجد» کہ تم کپڑے پہنا کرو ہر نماز کے وقت اور جو ایک ہی کپڑا بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھے (اس نے بھی فرض ادا کر لیا) اور سلمہ بن اکوع سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اگر ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھے تو) اپنے کپڑے کو ٹانک لے اگرچہ کانٹے ہی سے ٹانکنا پڑے، اس کی سند میں گفتگو ہے اور وہ شخص جو اسی کپڑے سے نماز پڑھتا ہے جسے پہن کر وہ جماع کرتا ہے (تو نماز درست ہے) جب تک وہ اس میں کوئی گندگی نہ دیکھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ کوئی ننگا بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: Q351]
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابراہیم نے بیان کیا، وہ محمد سے، وہ ام عطیہ سے، انہوں نے فرمایا کہ ہمیں حکم ہوا کہ ہم عیدین کے دن حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو بھی باہر لے جائیں۔ تاکہ وہ مسلمانوں کے اجتماع اور ان کی دعاؤں میں شریک ہو سکیں۔ البتہ حائضہ عورتوں کو نماز پڑھنے کی جگہ سے دور رکھیں۔ ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ! ہم میں بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے پاس (پردہ کرنے کے لیے) چادر نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی ساتھی عورت اپنی چادر کا ایک حصہ اسے اڑھا دے۔ اور عبداللہ بن رجاء نے کہا ہم سے عمران قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن سیرین نے، کہا ہم سے ام عطیہ نے، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور یہی حدیث بیان کی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 351]
اور ابوحازم سلمہ بن دینار نے سہل بن سعد سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی تہبند کندھوں پر باندھ کر نماز پڑھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: Q352]
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عاصم بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے واقد بن محمد نے محمد بن منکدر کے حوالہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے تہبند باندھ کر نماز پڑھی۔ جسے انہوں نے سر تک باندھ رکھا تھا اور آپ کے کپڑے کھونٹی پر ٹنگے ہوئے تھے۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ آپ ایک تہبند میں نماز پڑھتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ میں نے ایسا اس لیے کیا کہ تجھ جیسا کوئی احمق مجھے دیکھے۔ بھلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو کپڑے بھی کس کے پاس تھے؟ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 352]
ہم سے ابومصعب بن عبداللہ مطرف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن ابی الموالی نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن منکدر سے، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا اور انہوں نے بتلایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 353]
امام زہری نے اپنی حدیث میں کہا کہ «ملتحف متوشح» کو کہتے ہیں۔ جو اپنی چادر کے ایک حصے کو دوسرے کاندھے پر اور دوسرے حصے کو پہلے کاندھے پر ڈال لے اور وہ دونوں کاندھوں کو (چادر سے) ڈھانک لیتا ہے۔ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر اوڑھی اور اس کے دونوں کناروں کو اس سے مخالف طرف کے کاندھے پر ڈالا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: Q354]
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے اپنے والد کے حوالہ سے بیان کیا، وہ عمر بن ابی سلمہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی اور آپ نے کپڑے کے دونوں کناروں کو مخالف طرف کے کاندھے پر ڈال لیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 354]