سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: مومن اپنے بھائی کا آئینہ ہے، جب وہ اس میں کوئی عیب دیکھتا ہے تو اس کی اصلاح کر دیتا ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الِانْبِسَاطِ إِلَى النَّاسِ/حدیث: 238]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه ابن وهب فى الجامع: 203 و أبوالشيخ فى التوبيخ: 57»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن اپنے بھائی کا آئینہ ہے اور مومن، مومن کا بھائی ہے، اس کو ضائع ہونے اور نقصان سے بچاتا ہے، اور اس کی عدم موجودگی میں اس کی حفاظت کرتا ہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الِانْبِسَاطِ إِلَى النَّاسِ/حدیث: 239]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أبوداؤد، الأدب، باب فى النصيحة و الحياطة: 4918 - الصحيحة: 926»
سیدنا مستورد بن شداد رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی مسلمان کے ذریعے سے ایک لقمہ کھایا، اللہ تعالیٰ اسے اسی کی مثل لقمہ دوزخ کی آگ سے کھلائے گا، اور جس کو کسی مسلمان کے سبب کپڑا پہنایا گیا تو اللہ تعالیٰ اسے اسی جیسا لباس دوزخ سے پہنائے گا۔ جو کسی مسلمان کے ذریعے ریا اور شہرت کے مقام پر کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ روز قیامت ریا اور شہرت کے مقام پر کھڑا کرے گا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الِانْبِسَاطِ إِلَى النَّاسِ/حدیث: 240]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، الأدب، باب فى الغيبة: 4881 - الصحيحة: 934»
قال الشيخ الألباني: صحيح
121. بَابُ مَا لا يَجُوزُ مِنَ اللَّعِبِ وَالْمُزَاحِ
سیدنا یزید بن سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”تم میں سے کوئی شخص اپنے ساتھی کا سامان بطور مذاق لے نہ سنجیدگی سے، حتی کہ جب تم میں سے کوئی اپنے ساتھی کی لاٹھی پکڑے تو وہ بھی واپس کر دے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الِانْبِسَاطِ إِلَى النَّاسِ/حدیث: 241]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أبوداؤد، الأدب، باب من يأخذ الشئ من مزاح: 5003 و الترمذي: 2160 - الإرواء: 1518»
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ خلاف عادت میری سواری چلنے سے عاجز آ گئی ہے، لہٰذا آپ مجھے کوئی سواری دے دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس سواری نہیں ہے، لیکن تم فلاں آدمی کے پاس جاؤ شاید وہ تمہیں سواری دے دے۔“ چنانچہ وہ اس کے پاس گیا تو اس نے اسے سواری دے دی۔ اس نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی خیر کے کام پر راہنمائی کی اس کے لیے بھی عمل کرنے والے کے برابر اجر ہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الِانْبِسَاطِ إِلَى النَّاسِ/حدیث: 242]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، الإمارة، باب فضل إعانة الغازي فى سبيل الله ..........: 1893 و أبوداؤد: 5129 و الترمذي: 267 - الصحيحة: 1660»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت زہر آلود بھنی ہوئی بکری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھا لیا۔ پھر اس عورت کو لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: کیا ہم اس کو قتل نہ کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“! سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلق میں مسلسل زہر کے اثرات دیکھتا رہا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الِانْبِسَاطِ إِلَى النَّاسِ/حدیث: 243]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الهية و فضلها و التحريض عليها: 2617 و مسلم: 2190 و أبوداؤد: 4508 - الصحيحة: 6441»
حضرت وہب بن کیسان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے منبر پر یہ آیت پڑھی: ”عفو و درگزر سے کام لیں اور نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے اعراض کریں۔“ پھر فرمایا: اللہ کی قسم یہ آیت لوگوں کے اخلاق کے متعلق نازل ہوئی۔ اللہ کی قسم جب تک میرا لوگوں سے معاملہ رہے گا میں اس کے حکم کو ضرور لوں گا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الِانْبِسَاطِ إِلَى النَّاسِ/حدیث: 244]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب التفسير: 4643 و أبوداؤد: 4787»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو سکھاؤ، آسانی کا برتاؤ کرو اور تنگی نہ کرو۔ جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وہ خاموش ہو جائے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الِانْبِسَاطِ إِلَى النَّاسِ/حدیث: 245]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 2136 و ابن أبى شيبة: 532/8 و الطيالسي: 2608 و الطبراني فى الكبير: 10951 - الصحيحة: 1375»
حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے ملا تو ان سے عرض کیا کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان صفات کے متعلق بتایئے جو تورات میں مذکور ہیں۔ انہوں نے کہا: ضرور! اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تورات میں کئی صفات ایسی ہیں جو قرآن میں بھی بعینہ مذکور ہیں (جیسے قرآن میں ہے:)”اے نبی! ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔“ اور ان پڑھوں کو (گمراہی سے) بچانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تم میرے بندے اور رسول ہو، میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ہے۔ آپ سخت گو، تند مزاج اور بازاروں میں شور مچانے والے نہیں ہیں۔ اور برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے بلکہ عفو و درگزر کرنے والے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس وقت تک فوت نہیں کرے گا جب تک آپ کے ذریعے ٹیڑھی ملت کو سیدھا نہ کر دے، اس طرح کہ وہ لوگ لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لیں۔ اور لوگ اس کے ذریعے سے اندھی آنکھیں، بہرے کان اور بند دل نہ کھول لیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الِانْبِسَاطِ إِلَى النَّاسِ/حدیث: 246]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب البيوع، باب كراهية السخب فى السوق: 2125، 4838 - المشكاة: 5752»
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ قرآن کی یہ آیت: «﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا﴾» تورات میں بھی ہے . . . . . . (پہلی حدیث کی طرح ہے)۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الِانْبِسَاطِ إِلَى النَّاسِ/حدیث: 247]