سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین دعائیں یقیناً مقبول ہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والدین کی اپنی اولاد کے لیے بد دعا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 32]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه الترمذي، البر والصلة، باب ماجاء فى دعوة الوالدين: 1905 و أبوداؤد: 1586 و ابن ماجه: 3862، من حديث هشام الدستوائي به و ابن حبان: 2406»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام اور جریج والے (بچے) کے علاوہ کسی نے گہوارے میں گفتگو نہیں کی۔“ کہا گیا: اللہ کے نبی! جریج والے بچے سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جریج ایک راہب آدمی تھا، جو اپنی کٹیا میں عبادت کیا کرتا تھا، اور اس کی عبادت گاہ کی نچلی جانب ایک گایوں کا چرواہا آ کر ٹھہرا کرتا تھا، اور قریب ہی کے ایک گاؤں کی عورت کا اس کے پاس آنا جانا تھا۔ ایک روز اس (جریج) کی والدہ آئی اور اس نے آواز دی: اے جریج! وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ اس نے نماز پڑھتے ہوئے دل میں سوچا: (ایک طرف) میری ماں ہے اور (دوسری طرف) میری نماز ہے، بالآخر اس نے نماز کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا۔ پھر اس نے دوسری مرتبہ آواز دی تو اس نے دل میں کہا: میری نماز اور میری ماں؟ بالآخر اس نے نماز کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا۔ پھر اس کی ماں نے تیسری مرتبہ آواز دی تو اس نے دل میں کہا: میری ماں اور میری نماز! اسے یہی مناسب لگا کہ نماز کو ترجیح دے۔ اور جب اس نے کوئی جواب نہ دیا تو اس کی ماں نے کہا: اے جریج! اللہ تجھ کو موت نہ دے یہاں تک کہ تو فاحشہ عورتوں کا منہ دیکھ لے۔ پھر وہ چلی گئی (چرواہے کے پاس آنے جانے والی) اس عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے پوچھا: یہ بچہ کس کا ہے؟ اس نے کہا: جریج کا۔ بادشاہ نے کہا: کٹیا والا جریج؟ اس نے کہا: ہاں۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کی عبادت گاہ گرا دو، اور اسے میرے پاس لے آؤ۔ لوگوں نے کلہاڑوں سے اس کی کٹیا گرا دی اور اس کی مشکیں کس کر بادشاہ کے پاس لے گئے۔ اسے فاحشہ عورتوں کے پاس سے گزارا گیا تو وہ انہیں دیکھ کر مسکرایا، اور وہ فاحشہ عورتیں بھی اس کی طرف دیکھ رہی تھیں جب کہ وہاں بہت سے لوگ تھے۔ بادشاہ نے اس سے کہا: یہ عورت کیا کہتی ہے؟ جریج نے کہا: کیا کہتی ہے؟ بادشاہ نے کہا: اس کا دعویٰ ہے کہ یہ بچہ آپ سے پیدا ہوا ہے۔ اس نے کہا: واقعی تیرا یہ دعویٰ ہے؟ اس عورت نے کہا: ہاں۔ جریج نے کہا: وہ نومولود کہاں ہے؟ لوگوں نے کہا: وہ دیکھو اس کی گود میں ہے۔ وہ اس بچے کی طرف متوجہ ہوا اور اسے مخاطب کر کے کہا: تیرا باپ کون ہے؟ اس نے کہا: گایوں کا چرواہا۔ (یہ سن کر بادشاہ شرمندہ ہوا اور) اس نے کہا: تیرا عبادت خانہ ہم سونے کا بنا دیتے ہیں۔ اس نے کہا: نہیں۔ بادشاہ نے کہا: چاندی کا بنا دیں؟ اس نے کہا: نہیں۔ بادشاہ نے کہا: کس طرح کا بنائیں؟ اس نے کہا: جس طرح پہلے تھا ایسا ہی بنا دو۔ بادشاہ نے کہا: تو (راستے میں) مسکرایا کیوں تھا؟ اس نے کہا: ایک بات تھی جسے میں جان گیا تھا (اور وہ یہ تھی کہ) مجھے میری ماں کی بددعا لگ گئی تھی اور پھر انہیں پورا واقعہ بتایا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 33]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، أحاديث الأنبياء، باب واذكر فى الكتاب مريم: 3436 و مسلم: 2550»
ابوکثیر سحیمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: جس کسی یہودی یا عیسائی کو میرا علم ہوا اس نے مجھ سے محبت کی۔ میری والدہ (عیسائی تھیں)، میں چاہتا تھا کہ وہ اسلام قبول کرے مگر وہ انکاری تھی۔ (ایک روز) میں نے اسے (اسلام کی) دعوت دی تو اس نے (حسب عادت) انکار کر دیا۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور والدہ کے لیے دعا کرنے کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔ پھر میں اس (والدہ محترمہ) کے پاس آیا تو اس نے دروازہ بند کر رکھا تھا۔ اور (اندر ہی سے) کہنے لگیں: ابوہریرہ میں مسلمان ہو گئی ہوں! میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور عرض کیا: میرے لیے اور میری والدہ کے لیے دعا فرما دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ”باری تعالیٰ! تیرا بندہ ابوہریرہ اور اس کی والدہ، دونوں کو لوگوں میں محبوب بنا دے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 34]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه، صحيح مسلم، فضائل صحابه، باب من فضائل أبى هريرة: 2491، المشكاة: 5895، مسند أحمد: 200/4»
ابو اسید (سیدنا مالک بن ربیعہ) رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ہم (ایک روز) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ کی وفات کے بعد بھی کوئی چیز باقی ہے جس کے ذریعے سے میں ان کے ساتھ حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! چار چیزیں ہیں: ان کے لیے دعا کرنا، ان کے لیے مغفرت طلب کرنا، ان کی وصیت کو پورا کرنا، ان کے دوستوں کی عزت و تکریم کرنا اور وہ صلہ رحمی کرنا جس کا تعلق صرف ماں باپ سے ہو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 35]
تخریج الحدیث: «ضعيف: الضعيفة: 597 و أخرجه أبوداؤد، الأدب، باب فى بر الوالدين: 5142 و ابن ماجه: 3664»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: میت کے درجات اس کے مرنے کے بعد بلند کیے جاتے ہیں تو وہ عرض کرتا ہے: اے میرے رب! میرا درجہ کس بنا پر بلند ہوا؟ اسے کہا جاتا ہے: تیری اولاد نے تیرے لیے استغفار کیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 36]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه ابن ماجه، أبواب الأدب: 3660 و أحمد: 363/2، عن عبد الوارث به و ابن حبان، ح: 66 و البوصيري وله شاهد عند الحاكم: 178/2»
محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک رات سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، انہوں نے (یہ دعا) فرمائی: اے اللہ! ابوہریرہ اور اس کی والدہ کو معاف فرما دے، اور ان دونوں کے لیے استغفار کرنے والے سے بھی درگزر فرما۔ محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم ان دونوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں تاکہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعا کے مستحق قرار پائیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 37]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بندہ فوت ہو جائے تو اس کے تمام اعمال ختم ہو جاتے ہیں، سوائے تین چیزوں کے، (ان کا نفع پہنچتا رہتا ہے) صدقہ جاریہ، علم جس سے استفادہ کیا جاتا ہو، یا نیک (مومن) اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 38]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، الوصية، باب ما يلحق الانسان من الثواب بعد وفاته: 1631 و أبوداؤد: 2880 و النسائي: 3651 و الترمذي: 1376 و مسند أحمد: 372/2»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! بے شک میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس نے کوئی وصیت نہیں کی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اسے نفع دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 39]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الوصايا: 2756 و الترمذي: 669 و أبوداؤد: 2882 و النسائي: 3654»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک اعرابی کسی سفر میں (میرے) قریب سے گزرا۔ اس اعرابی کا باپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا دوست تھا، تو اس نے اعرابی کو کہا: کیا تم فلاں کے بیٹے نہیں ہو؟ اس نے کہا: ہاں۔ پھر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے (اس پہچان کی وجہ سے) ایک گدھا دینے کا حکم دیا۔ اور اپنے سر سے پگڑی اتار کر بھی اسے دے دی۔ آپ کے بعض ہم سفروں نے عرض کیا: اس کو دو درہم دے دینے کافی نہیں تھے؟ آپ نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”اپنے والد کی دوستی کا خیال رکھو، اس کو مت توڑو ورنہ اللہ تمہارا نور بجھا دے گا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 40]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه أحمد فى المسند: 3/5، زيادة من شعب الإيمان للبيهقي: 7898 و الطبراني الكبير: 394/11 و مسلم: 2552، الضعيفة: 2089»