اسی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلندیاں تو صرف دو ہیں: خیر کی بلندی اور شر کی بلندی، پس شر کی بلندی تم میں سے کسی کو خیر کی بلندی سے زیادہ پسندیدہ نہ ہو۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الفتن/حدیث: 858]
اسی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے تمہیں تین چیزوں سے پناہ دی ہے: یہ کہ تم سب کے سب گمراہی پر جمع نہیں ہو گے، تم پر باطل غالب نہیں آئے گا اور تم ایسی دعا نہیں کرو گے کہ تم سب ہلاک ہو جاؤ، لیکن تمہارے لیے دجال، دھواں اور زمین کا جانور ضروری ہے۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الفتن/حدیث: 859]
تخریج الحدیث: «سنن ابي داود، كتاب الفتن، باب ذكر الفتن و دلاثلها، رقم: 4253 . قال الشيخ الالباني ضعيف ولكن الجملة الثالثة صحيح .»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! دنیا ختم نہیں ہو گی حتیٰ کہ آدمی کسی قبر کے پاس سے گزرے گا اور کہے گا: کاش یہ قبر میری ہوتی، وہ دین کی وجہ سے ایسے نہیں کہے گا، بلکہ وہ صرف (دنیوی) مشکلات کی وجہ سے ایسے کہے گا۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الفتن/حدیث: 862]
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الفتن، باب تقوم الساعة يمر الرجل الخ، رقم: 157 . صحيح ترغيب وترهيب، رقم: 391 .»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمین کا جانور نکلے گا اس کے ساتھ موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی اور سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی ہو گی، عصا سے مومن کا چہرہ منور ہو جائے گا اور انگوٹھی کے ساتھ کافر کی ناک پر مہر لگا دی جائے گی، لوگ دسترخوان پر جمع ہوں گے، تو یہ کہے گا: یہ مومن اور کہے گا: یہ کافر ہے۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الفتن/حدیث: 863]
تخریج الحدیث: «سنن ترمذي، ابواب تفسير القرآن، باب سورة النمل، رقم: 3187 . سنن ابن ماجه، كتاب الفتن، باب جيش البيداء، رقم: 4066 . قال الشيخ الالباني: ضعيف .»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ چیزیں ظاہر ہوں گی، ان نشانیوں میں سے کون سی پہلے واقع ہو گی جبکہ کسی نفس کا ایمان لانا اس کے لیے نفع مند نہیں ہو گا جو پہلے ایمان نہیں لایا ہو گا: (وہ نشانیاں یہ ہیں) سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دجال، یاجوج و ماجوج، دھواں اور جانور کا ظاہر ہونا۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الفتن/حدیث: 864]
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف: والحديث بغير هذا للفظ يصح من وجوه عن ابي هريرة فقد رواه بلفظ لا تقوم الساعة حتي تطلع الشمس من مغربها الخ انظر: 178 . ثلاثه اذا اخرجن لم ينفع نفسا ايمانها الداية الخ انظر: 220 .»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج یاجوج ماجوج کے بند میں اس طرح سوراخ گیا ہے۔“ راوی مومل نے اپنے ہاتھ سے دس کی گرہ لگائی۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الفتن/حدیث: 865]
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الانبياء، باب قصة ياجوج وماجوج، رقم: 3347 . مسلم، كتاب الفتن، باب افتران الفتن وفتح ردم ياجوج وماجوج، رقم: 2881 .»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: میں ہونے والے ایک فتنے کے متعلق جانتا ہوں لیکن میں اس میں سے نکلنے کی راہ نہیں جانتا، ان سے پوچھا گیا: اس سے نکلنے کی راہ کیا ہے؟ فرمایا: میرے ہاتھ کے ساتھ اس طرح پکڑے حتیٰ کہ ایک آدمی میرے پاس آئے اور مجھے قتل کر دے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الفتن/حدیث: 866]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہند کا ذکر کیا تو فرمایا: ”تمہارا ایک لشکر ہند پر حملہ کرے گا تو اللہ ان پر فتح عطا فرمائے گا حتیٰ کہ سندھ کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے، اللہ ان کے گناہ بخش دے گا، جس وقت وہ واپس جائیں گے تو وہ مسیح ابن مریم کو شام میں پائیں گے۔“ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر میں نے اس غزوہ کو پا لیا تو میں اپنے جانور اور جائیداد فروخت کر دوں گا اور اس غزوہ میں شرکت کروں گا، جب اللہ ہمیں فتح عطا فرمائے گا تو ہم واپس جائیں گے تو میں جہنم سے آزاد کیا ہوا ابوہریرہ شام واپس آنے والا ہوں گا، وہ مسیح ابن مریم علیہ السلام سے ملاقات کرے گا، پس میں بہت ہی کوشش کروں گا کہ میں ان سے قریب ہو جاؤں اور انہیں بتاؤں کہ میں اللہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہوں، راوی نے بیان کیا: پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیئے، اور فرمایا: ”اس کا دوسری بار آنا پہلی بار آنے کی طرح نہیں ہو گا، اس پر موت کی سی ہیبت ڈالے گا، وہ مردوں کے چہروں پر ہاتھ پھیرے گا اور جنت کے درجات کے متعلق انہیں بتائے گا۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الفتن/حدیث: 867]
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف لجهاله الشيخ عن ابي هريرة .»