الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


مسند اسحاق بن راهويه کل احادیث (981)
حدیث نمبر سے تلاش:

مسند اسحاق بن راهويه
كتاب المناسك
اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
حدیث نمبر: 379
اَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ وَرَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ قَالَا: نَا ابْنُ جُرَیْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مِثْلَهٗ سَوَاءٍ.
ابن جریج نے عطاء کے حوالے سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی مثل روایت کیا ہے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب المناسك/حدیث: 379]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله»

حدیث نمبر: 380
اَخْبَرَنَا وَکِیْعٌ، نَا هَمَّامُ بْنُ یَحْیَی، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَکَرَ مِثْلَهٗ.
جناب عطاء رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مثل ذکر کیا ہے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب المناسك/حدیث: 380]
49. کم سنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف
حدیث نمبر: 381
اَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ، نَا طَلْحَةُ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: اَنَّ اَبَا طَالِبٍ کَانَ یَبْعَثُ صِبْیَانَهٗ، وَیَبْعُثُ مُحَمَّدًا مَعَهُمْ وَهُمْ صِبْیَانٌ صِغَارٌ، فَیَنْقُلُوْنَ لَهٗ الْحِجَارَةُ لِیَصْفه زَمْزَم وَعَلٰی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَمِرَةٌ صَغِیْرَةٌ یَجْعَلُهَا عَلٰی عُنُقِهٖ، وَحَمَلَ حَجَرَیْنِ صَغِیْرَیْنِ.. فَطَرَحَ عَنْهُ الْمَجَرَینِ، وَاُغْمِیَ عَلَیْهِ، فَاَفَاقَ فَشَدَّ عَلَیْهِ نَمِرَتَهٗ، فَقَالَ لَهٗ بَنُوْ عَمِّهٖ: مَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: اِنِّی نُهِیْتُ عَنِ التَّعَرّٰی.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ابوطالب اپنے بچوں کو بھیجا کرتے تھے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ بھیجا کرتے تھے جبکہ وہ کم سن تھے، وہ ان کے لیے پتھر لایا کرتے تھے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر سفید و سیاہ دھاریوں والی چھوٹی چادر تھی، وہ اسے اپنی گردن پر رکھ لیتے تھے، آپ نے دو چھوٹے پتھر اٹھائے، (دونوں پتھر آپ سے گر پڑے) آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پس جب ہوش میں آئے تو اپنی چادر باندھی، تو آپ کے چچا زادوں نے آپ سے کہا: آپ کو کیا ہوا؟ فرمایا: مجھے برہنہ ہونے سے منع کیا گیا ہے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب المناسك/حدیث: 381]
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف . وله شواهد فى الصحيحين وغيرهما انظر، بخاري، كتاب الحج، باب فضل مكة وبنيانها . مسلم، كتاب الحيض باب الاعتنا يحفظ العورة، رقم: 340 . صحيح ابن حبان، رقم: 1603 . مسند احمد: 395/3 .»

حدیث نمبر: 382
اَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ، نَا طَلْحَةُ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ مُحَمَّدًا کَانَ یَقُوْمُ عِنْدَ الْکَعْبَةِ عِنْدَ الصَّنَمِ مَعَ بَنِیْ عَمِّهٖ وَهُمْ صِبْیَانٌ صِغَارٌ، وَالصَّنَمُ الَّذِیْ یُقَالُ لَهٗ اَسَافٌ، فَرَفَعَ مُحَمَّدٌ رَأْسَهٗ اِلَی ظَهْرِ الْکَعْبَةِ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَقَالَ لَهٗ بَنُوْ عَمِّهٖ: مَا شَأْنُكَ؟ فَقَالَ: نُهِیْتُ اَنْ اَقُوْمَ عِنْدَ الصَّنَمِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا زادوں کے ساتھ جبکہ وہ کم عمر تھے، کعبہ کے پاس، بت کے پاس کھڑے ہوا کرتے تھے، وہ بت جس کا نام اساف تھا، پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی پشت کی طرف اپنا سر اٹھایا تو آپ کے چچا زادوں نے آپ سے کہا: آپ کا کیا معاملہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے بت کے پاس کھڑے ہونے سے منع کیا گیا ہے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب المناسك/حدیث: 382]
50. حجرِ اسود کا بیان
حدیث نمبر: 383
اَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ، نَا اِسْرَائِیْلُ، عَنْ اَبِیْ یَحْییَ الْقَتَّاتِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: نَزَلَ آدَمُ بِالْحَجَرِ الْاَسْوَدِ، یَمْسَحُ بِدَمُوْعِهِ وَهُوَ اَبْیَضُ مِنَ الْکُرْسُفِ، وَاِنَّمَا۔ حیض (سودته خطایا) اَهْلِ الْجَاهِلِیَّةِ، وَمَا جَفَّتْ دَمُوْعُهٗ مُذْ خَرَجَ مِنَ الْجَنَّةَ حَتّٰی رَجَعَ اِلَیْهَا۔ ولعطاء زیادات فی اهل مکة.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: آدم علیہ السلام حجر اسود کے پاس آنسو صاف کرتے ہوئے اترے، وہ پتھر روئی سے بھی زیادہ سفید تھا، (اس کی سیاہی اہل جاہلیت کے گناہوں کی وجہ سے ہے) اور وہ جب سے جنت سے نکلے ہیں تب سے ان کے آنسو خشک نہیں ہوئے حتیٰ کہ وہ اس کی طرف پلٹ گئے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب المناسك/حدیث: 383]
تخریج الحدیث: «الدر المنشور للسبوطي: 139/11 اسناده ضعيف . فيه ابويحييٰ التقات، لين الحديث، انظر التقريب: 8444 .»

حدیث نمبر: 384
اَخْبَرَنَا وَکِیْعٌ، نَا مَعْرُوْفُ الْمَکِّیِّ قَالَ: سَمِعْتُ اَبَا الطُّفَیْلِ یَقُوْلُ: رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَاَنَا غُـلَامٌ یَطُوْفُ بِالْبَیْتِ عَلٰی بَعِیْرٍ، وَیَسْتَلِمُ الْحَجَرَ بِمِحْجَنِهٖ.
ابوالطفیل (عامر بن واثلہ بن عمرو) رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں: میں نے جبکہ میں لڑکا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹ پر بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چھڑی کے ساتھ حجر اسود کا استلام کرتے تھے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب المناسك/حدیث: 384]
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الحج، باب جواز الطواف على بعير وغيره، رقم: 1272 . سنن ابوداود، كتاب المناسك، باب الطواف الواجب، رقم: 1877 . سنن ابن ماجه، رقم: 2949 . مسند احمد: 454/5 .»

51. دورانِ طواف رمل کرنا
حدیث نمبر: 385
اَخْبَرَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَةَ، عَنِ (ابْنِ اَبِیْ) حُسَیْنٍ، عَنْ اَبِی الطُّفَیْلِ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ زَعَمَ قَوْمُكَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَمَلَ وَاِنَّهٗ سُنَّةٌ، فَقَالَ: صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا، وَقَالَ فَطَرٌ عَنْ اَبِی الطُّفَیْلِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: صَدَقَوُاْ اِنَّهٗ رَمَلَ، وَکَذَبُوْا اِنَّهٗ سُنَّةٌ.
ابوالطفیل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ کی قوم کے افراد نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (طواف کے دوران) رمل کیا، اور یہ کہ وہ سنت ہے، انہوں نے فرمایا: وہ ٹھیک کہتے ہیں اور غلط کہتے ہیں، فطر نے ابوالطفیل کے حوالے سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا، انہوں نے کہا: انہوں نے ٹھیک کہا ہے کہ آپ نے رمل کیا ہے، اور انہوں نے یہ غلط کہا ہے کہ وہ سنت ہے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب المناسك/حدیث: 385]
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الحج، باب استحباب الرمل فى الطواف والعمرة الخ، رقم: 1264 . مسند حميدي، رقم: 511 .»

حدیث نمبر: 386
اَخْبَرَنَا وَکِیْعٌ، نَا فَطْرٌ، عَنْ اَبِی الطُّفَیْلِ قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ الرَّمْلِ، وَقُلْتُ: قَوْمُكَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَمَلَ، فَقَالَ: صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا، اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ تَحَدَّثَ الْمُشْرِکُوْنَ اِنَّ بِهِ هَزْلًا وَبِاَصْحَابِهٖ، فَاَمَرَهُمْ اَنْ یَّرْمُلُوْا.
ابوالطفیل نے بیان کیا، میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے رمل کے متعلق پوچھا: اور میں نے کہا: آپ کی قوم کے افراد کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمل کیا ہے، انہوں نے فرمایا: انہوں نے ٹھیک کہا ہے اور انہوں نے غلط کہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (مکہ) تشریف لائے تو مشرک باتیں کرنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ جا کر) کمزور پڑ گئے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) کو حکم دیا کہ وہ رمل کریں۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب المناسك/حدیث: 386]
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 229/1 . اسناده حسن»

حدیث نمبر: 387
اَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَیْلٍ، نَا حَمَّادُ بْنُ سَلِمَةَ، نَا اَبُوْ عَاصِمٍ، عَنْ اَبِی الطُّفَیْلِ قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ یَزْعَمُ قَوْمُكَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَمَلَ، وَاِنَّهٗ سُنَّةٌ، فَقَالَ: صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا، قُلْتُ: وَمَا صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا؟ فَقَالَ: قَدْ رَمَلَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اِنَّ قُرَیْشًا قَالَتْ: دَعَوْهُمْ حَتّٰی یَمُوْتُوْا فِی (العام) الَّذِیْ اُحْصِرُوْا فِیْهِ، فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَکَّةَ، وَالْمُشْرِکُوْنَ مِنْ قِبَلِ قُعَیْقَعَانَ، فَاَمَرَهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَنْ یَّرْمُلُوْا بِالْبَیْتِ ثَـلَاثَةَ اَشْوَاطٍ فَرَمَلُوْا وَسَعَوْا اِلَی الرُّکْنِ، وَذٰلِكَ لَیْسَ بِسُنَّةٍ، قُلْتُ لِاِبْنِ عَبَّاسٍ: اَنَّ قَوْمَكَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ طَافَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ عَلٰی بَعِیْرٍ، وَاِنَّ ذٰلِكَ سُنَّةٌ، فَقَالَ: صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا اِنَّ اِبْرَاهِیْمَ لَمَّا بَیَّنَ لَهٗ الْمَنَاسِكُ، عَرَضَ لَهٗ الشَّیْطَانُ فِی السَّبْعِ فَسَابَقَهٗ، فَسَبَقَهٗ اِبْرَاهِیْمُ، وَاِنَّ جِبْرِیْلَ ذَهَبَ بِهٖ اِلَی الْجَمْرَةَ، فَعَرَضَ لَهٗ الشَّیْطَانُ فَرَمَاهُ سَبْعَ حَصَیَاتٍ، فَذَهَبَ ثُمَّ اَتَی بَیْنَ الْجَمْرَةِ وَالْوُسْطٰی، فَرْمَاهُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ، فَذَهَبَ ثُمَّ تَلَّ اِسْمَاعِیْلَ لِلْجَبِیْنِ وَعَلَیْهِ ثَوْبٌ اَبْیَضُ فَقَالَ لَهٗ: یَا أَبَهْ اِنَّهٗ لَیْسَ عَلٰی ثَوْبٍ غَیْرِ (ذِی) یَکْفِیْنِیْ عَنْهُ، فَاَخْلَعَہٗ عَنِّیْ حَتّٰی تَلفنِیْ فِیْهِ، فَبَیْنَمَا هُوَ یَخْلَعُهٗ اِذْ نُوْدِیَ ﴿اَن یَّاِبْرَهِیْمَ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّوْیَا اِنَّا کَذٰلِكَ نَجْزِْی الْمُحْسِنِیْنَ﴾ فَالْتَفَتَ فَاِذَا هُوَ بِکَبْشٍ اَبْیَضِ اَقْرَنِ اَعْیَنِ، فَذَبَحَهٗ ثُمَّ ذَهَبَ اِلَی الْجَمْرَةِ الْقَصْوٰی فَرَمَاهَا سَبْعَ حَصَیَاتٍ، ثُمَّ اَتَی بِهٖ مِنًی فَقَالَ: هٰذَا مَنَاخِ النَّاسِ، ثُمَّ اَتٰی بِهٖ جَمْعًا فَقَالَ: هَذَا الْمَشْعَرُ الْحَرَامِ، ثُمَّ اَتٰی عَرْفَةَ فَقَالَ لَهٗ: هَلْ عَرَفْتَ؟ فَمِنْ ثُمَّ سُمِّیَتْ عَرَفَةَ، ثُمَّ قَالَ: اَتَدْرِیْ کَیْفَ کَانَتِ التَّلْبِیَّةُ، اِنَّ اِبْرَاهِیْمَ اُمِرَ اَنْ یُؤَذِّنَ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ، فَرُفِعَتْ لَهُ الْقُرٰی، وَخَفَضَتِ الْجِبَالُ وَرُؤُوْسُهَا، فَاَذَّنَ بِالنَّاسِ فِی الْحَجِّ.
ابوالطفیل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ کی قوم کے افراد کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمل کیا ہے اور یہ کہ وہ سنت ہے، تو انہوں نے فرمایا: ان لوگوں نے سچ کہا اور جھوٹ کہا ہے، میں نے کہا: انہوں نے کیا سچ کہا ہے اور کیا جھوٹ کہا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمل کیا، کیونکہ قریش نے کہا: انہیں چھوڑو حتیٰ کہ وہ اسی غار میں مر جائیں گے جس میں ان کا محاصرہ کیا گیا تھا، پس جب اگلا سال آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے، جبکہ مشرک قعیقعان (پہاڑ) کی جانب تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم فرمایا کہ وہ بیت اللہ کے تین چکروں میں رمل کریں (کندھے ہلا ہلا کر تیز تیز چلیں)، پس انہوں نے رکن تک رمل کیا، اور یہ سنت نہیں ہے، میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ کی قوم کے افراد کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا و مروہ کے درمیان اونٹ پر سعی کی ہے اور یہ سنت ہے، تو انہوں نے فرمایا: انہوں نے سچ کہا اور غلط بات کی ہے، کیونکہ جب ابراہیم علیہ السلام کو مناسک حج بیان کر دئیے گئے تو شیطان سات مقامات پر ان کے آڑے آیا، پس اس نے ان سے مسابقت کی تو ابراہیم علیہ السلام اس پر سبقت لے گئے اور جبریل علیہ السلام انہیں جمرہ پر لے گئے، شیطان ان کے آڑے آیا تو انہوں نے اسے سات کنکریاں ماریں، پس وہ چلا گیا، پھر وہ جمرہ اور جمرہ وسطی کے درمیان آیا تو انہوں نے اسے سات کنکریاں ماریں، وہ چلا گیا، پھر انہوں نے اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹایا اور ان پر سفید کپڑا تھا، کیونکہ لباس کے علاوہ ان پر کوئی اور کپڑا نہ تھا جو ان اس سے کفایت کرتا، پس اسے مجھ سے اتار دو حتیٰ کہ تم مجھے اس میں لپیٹ لو، پس اس اثنا میں کہ وہ اسے اتار رہے تھے تو آواز دی گئی: کہ اے ابراہیم! تم نے خواب سچ کر دکھایا، ہم نیکوکاروں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ پس انہوں نے اچانک وہاں سفید رنگ کا بڑی آنکھوں اور سینگوں والا مینڈھا دیکھا تو انہوں نے اسے ذبح کر دیا، پھر وہ جمرہ قصوی پر تشریف لے گئے تو اسے سات کنکریاں ماریں، پھر وہ انہیں منیٰ لائے تو انہیں فرمایا: یہ لوگوں کے اونٹ بٹھانے کی جگہ ہے، پھر انہیں مزدلفہ لائے، تو فرمایا: یہ مشعر حرام ہے، پھر انہیں عرفات لائے تو انہیں فرمایا: کیا تم نے معلوم کر لیا ہے؟ کہ اس کا نام عرفہ (عرفات) کیوں رکھا گیا؟ پھر کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ تلبیہ کس طرح تھا؟ ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ لوگوں میں حج کا اعلان کریں، ان کے لیے بستیاں بلند کر دی گئیں اور پہاڑ اپنی چوٹیوں سمیت پست کر دیئے گئے تو انہوں نے لوگوں میں حج کا اعلان کیا۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب المناسك/حدیث: 387]
تخریج الحدیث: «سنن ابوداود، كتاب المناسك، باب الرمل، رقم: 1885 . قال الشيخ الالباني: صحيح مسند احمد: 297/1 . 311»

52. ابراہیم علیہ السلام کا لوگوں میں حج کا اعلان کرنا
حدیث نمبر: 388
اَخْبَرَنَا وَکِیْعٌ، نَا الرَّبِیْعُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ طُهْفَةَ، عَنْ اَبِی الطُّفَیْلِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا اُمِرَ اِبْرَاهِیْمُ اَنْ یُّؤَذِّنَ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ، رُفِعَتْ لَهٗ الْقُرٰی، وَتَوَاضَعَتْ لَهُ الْجِبَالُ، فَقَالَ: یَا اَیُّهَا النَّاسُ اَجِیْبُوْا رَبَّکُمْ، فَاَجَابُوْهٗ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: جب ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ وہ لوگوں میں حج کا اعلان کریں، تو ان کے لیے بستیاں بلند کر دی گئیں اور پہاڑ پست کر دیئے گئے، تو انہوں نے فرمایا: لوگو! اپنے رب کی دعوت کو قبول کرو، تو انہوں نے اسے قبول کیا۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب المناسك/حدیث: 388]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله»


Previous    5    6    7    8    9    10    Next