سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: بنی اسرائیل میں قصاص تھا، لیکن ان میں دیت نہیں تھی، تو اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے فرمایا: ”قتل کے بارے میں تم پر قصاص لکھ دیا گیا ہے، آزاد کے بدلے میں آزاد“، حتیٰ کہ یہاں تک آیت پہنچی: ”جسے اپنے بھائی کی طرف سے کچھ معافی/رعایت مل جائے۔“ راوی نے بیان کیا: اس کا معاف کرنا اس کا دیت قبول کرنا ہے۔ پس معروف (بھلے طریقے) اسے اتباع و مطالبہ کرنا ہے، فرمایا: وہ اس سے معروف طریقے سے مطالبہ کرے گا اور اس کے لیے احسان کی وصیت کرے گا۔ سفیان کے حوالے سے یہ اضافہ نقل کیا ہے: ”یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف و رحمت ہے۔“ اس سے مراد ہے: قتل عمد کی دیت قبول کرنا۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الجنائز/حدیث: 273]
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب التفسير، باب يايها الذين امنوا كتب عليكم القصاص الخ، رقم: 4498 . سنن نسائي، كتاب القسامة، باب تاويل قوله عزوجل فمن عفي له الخ، رقم: 4782 . سنن كبري بيهقي: 52/8 .»