اسی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے بتاو زانی، چور اور شراب نوش کے متعلق تم کیا خیال کرتے ہو؟“ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ برے ہیں اور ان پر سزا ہے۔“ پھر فرمایا: ”کیا میں تمہیں بڑے بڑے گناہوں کے متعلق نہ بتاوں؟“ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کو ستانا، جھوٹی بات کرنا، مسلمان کو قتل اور پاک دامن خاتوں پر تہمت لگانا۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الايمان/حدیث: 60]
اسی سند سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو دو افراد اسلام میں اللہ کی خاطر محبت کرتے ہیں تو ان دونوں کے درمیان، ان میں سے کسی ایک کا گناہ کا ارتکاب کرنا، بگاڑ پیدا کرتا ہے۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الايمان/حدیث: 61]
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 71/5 . قال شعيب الارناؤوط: حديث صحيح . صحيح الجامع الصغير، رقم: 5603»
اسی سند سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے جب مخلوق کو پیدا فرمایا تو اس نے ایک تحریر لکھی اور اسے اپنے پاس عرش کے اوپر رکھ لیا، اس میں لکھا کہ میری رحمت میرے غصے پر غالب ہے۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الايمان/حدیث: 62]
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب التوحيد، رقم: 8404، 7554 . مسلم، كتاب التوبة، باب فى سعة رحمة الله تعالىٰ وانها سبقت غضبه، رقم: 2751 . سنن ترمذي، رقم: 3543 . مسند احمد: 259/2 . صحيح ابن حبان، رقم: 6144»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بیماری متعدی ہے نہ بدفالی کی کوئی حیثیت ہے، میں نیک شگون لینا پسند کرتا ہوں۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الايمان/حدیث: 63]
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب السلام، باب الطيرة والفال ويكون فيه من الشوم، رقم: 2223 . سنن ابوداود، رقم: 3916 . سنن ابن ماجه، رقم: 3537 . مسند احمد: 507/2»
اسی سند سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا اسلام افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الايمان/حدیث: 64]
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الايمان، باب اي الاسلام افضل، رقم: 11 . مسلم، كتاب الايمان، باب بيان تفاضل الاسلام واي اموره افضل، رقم: 41 . سنن ابوداود، رقم: 2481 . سنن ترمذي، رقم: 2627 . سنن نسائي، رقم: 4999، مسند احمد 163/2»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: دو آدمی گالی دے رہے تھے ان میں سے ایک دوسرے کو اس کی ماں کے حوالے سے عار دلائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو بلوایا، اور فرمایا: ”کیا تم نے اسے اس کی ماں سے متعلق عار دلائی ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات باربار دہرائی، تو اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے جو کہا ہے اس بابت اللہ سے استغفار کرتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا سر اٹھاؤ! اور اس جماعت کی طرف دیکھو۔“ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس حضرات کی طرف دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان میں سے کسی سرخ و سیاہ سے افضل نہیں ہو، فضیلت صرف اسے ہی حاصل ہے جو دین میں افضل ہو۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الايمان/حدیث: 65]
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف، رواة البخاري، رقم: 30 . و مسلم، 1661 . من حديث ابي ذر بمناة واحمد 11/5 . من حديث رجل من اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم بمناة»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے اس سے بہتر اجر ہو گا اور وہ (نیک لوگ) اس دن کی گھبراہٹ سے محفوظ رہیں گے۔“ فرمایا: وہ (نیکی) «لا الهٰ الا الله» ہے، اور جو برائی (گناہ) لے کر آئے گا تو ان کے چہرے جہنم میں اوندھے گرائے جائیں گے۔ فرمایا: ”وہ (گناہ) شرک ہے۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الايمان/حدیث: 66]
صعصعہ بن صوحان نے ابوزید سے کہا: میں تمہاری والدہ کو تم سے زیادہ محبوب نہیں ہوں، جبکہ تم میری والدہ کو مجھ سے زیادہ محبوب ہو، دو خصلتیں ہیں میں تمہیں ان کی وصیت کرتا ہوں، پس انہیں مجھ سے یاد کر لو، مومن شخص سے خالص دوستی رکھو، فاجر شخص سے اچھا برتاؤ کرو، کیونکہ فاجر شخص اچھے اخلاق کے ذریعے تمہاری بات قبول کرے گا، اور مومن تجھ سے حق رکھتا ہے کہ تم اس سے خالص دوستی رکھو۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الايمان/حدیث: 67]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وسوسہ پیدا ہونے کی شکایت کی، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے دلوں میں ایسے ایسے خیالات پیدا ہوتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو آسمان سے گرنا اس (خیال/وسوسے) کو بیان کرنے سے زیادہ پسند ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو خالص ایمان ہے۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الايمان/حدیث: 68]
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الايمان، باب بيان الوسوسة فى الايمان الخ، رقم: 132 . سنن ابوداود، كتاب الادب، باب فى رد الوسوسسة، رقم: 5111، 5112»
قتیلہ بنت صیفی جہنیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، یہودیوں کا ایک عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آیا تو اس نے کہا: امت محمد! تم بہترین لوگ ہو، کاش کہ تم شرک نہ کرتے، فرمایا: وہ کیا ہے؟ اس نے کہا: تم کہتے ہو، کعبہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توقف فرمایا، پھر فرمایا: ”جب تم قسم اٹھاؤ تو کہو: رب کعبہ کی قسم!“ اس نے پھر کہا: تم اچھے لوگ ہو، اگر تم اللہ کا شریک نہ بناؤ، فرمایا: ”وہ کیا ہے؟“ اس نے کہا: تم کہتے ہو: جو اللہ چاہے گا اور جو آپ چاہیں گے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ توقف فرمایا، پھر فرمایا: ”تم میں سے جو کہے جو اللہ چاہے گا، تو وہ کہے پھر جو آپ چاہیں گے۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الايمان/حدیث: 69]
تخریج الحدیث: «سنن ابوداود، كتاب الادب، باب، رقم: 4980 . سنن نسائي، كتاب الايمان والنذور، باب الحلف بالكعبة، رقم: 3773 . قال الشيخ الالباني: صحيح . صحيح ابن حبان، رقم: 5725 . مسند احمد: 393/5»