ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے زبید ایامی نے، ان سے شعبی نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج (عید الاضحی کے دن) کی ابتداء ہم نماز (عید) سے کریں گے پھر واپس آ کر قربانی کریں گے جو اس طرح کرے گا وہ ہماری سنت کے مطابق کرے گا لیکن جو شخص (نماز عید سے) پہلے ذبح کرے گا تو اس کی حیثیت صرف گوشت کی ہو گی جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کر لیا ہے قربانی وہ قطعاً بھی نہیں۔ اس پر ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے انہوں نے (نماز عید سے پہلے ہی) ذبح کر لیا تھا اور عرض کیا کہ میرے پاس ایک سال سے کم عمر کا بکرا ہے (کیا اس کی دوبارہ قربانی اب نماز کے بعد کر لوں؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی قربانی کر لو لیکن تمہارے بعد یہ کسی اور کے لیے کافی نہیں ہو گا۔ مطرف نے عامر سے بیان کیا اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہو گی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کے مطابق عمل کیا۔ [صحيح البخاري/كتاب الأضاحي/حدیث: 5545]
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کر لی اس نے اپنی ذات کے لیے جانور ذبح کیا اور جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہوئی۔ اس نے مسلمانوں کی سنت کو پا لیا۔ [صحيح البخاري/كتاب الأضاحي/حدیث: 5546]
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے اور ان سے بعجہ الجہنی نے اور ان سے عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں قربانی کے جانور تقسیم کئے۔ عقبہ رضی اللہ عنہ کے حصہ میں ایک سال سے کم کا بکری کا بچہ آیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے حصہ میں تو ایک سال سے کم کا بچہ آیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسی کی قربانی کر لو۔ [صحيح البخاري/كتاب الأضاحي/حدیث: 5547]
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (حجۃ الوداع کے موقع پر) ان کے پاس آئے وہ مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے پہلے مقام سرف میں حائضہ ہو گئی تھیں۔ اس وقت آپ رو رہی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے کیا تمہیں حیض کا خون آنے لگا ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کے مقدر میں لکھ دیا ہے۔ تم حاجیوں کی طرح تمام اعمال حج ادا کر لو بس بیت اللہ کا طواف نہ کرو، پھر جب ہم منیٰ میں تھے تو ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے۔ [صحيح البخاري/كتاب الأضاحي/حدیث: 5548]
ہم سے صدقہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن علیہ نے خبر دی، انہیں ایوب نے، انہیں محمد بن سیرین نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن فرمایا کہ جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کر لی ہے وہ دوبارہ قربانی کرے اس پر ایک صاحب نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ وہ دن ہے جس میں گوشت کھانے کی خواہش ہوتی ہے پھر انہوں نے اپنے پڑوسیوں کا ذکر کیا اور (کہا کہ) میرے پاس ایک سال سے کم کا بکری کا بچہ ہے جس کا گوشت دو بکریوں کے گوشت سے بہتر ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت دے دی۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ اجازت دوسروں کو بھی ہے یا نہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کی طرف مڑے اور انہیں ذبح کیا پھر لوگ بکریوں کی طرف بڑھے اور انہیں تقسیم کر کے (ذبح کیا)۔ [صحيح البخاري/كتاب الأضاحي/حدیث: 5549]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
5. بَابُ مَنْ قَالَ الأَضْحَى يَوْمَ النَّحْرِ:
5. باب: جس نے کہا کہ قربانی صرف دسویں تاریخ تک ہی درست ہے۔
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے ابن ابی بکرہ نے اور ان سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمانہ پھر کر اسی حالت پر آ گیا ہے جس حالت پر اس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کئے تھے۔ سال بارہ مہینہ کا ہوتا ہے ان میں چار حرمت کے مہینے ہیں، تین پے در پے ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور ایک مضر کا رجب جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں پڑتا ہے۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا) یہ کون سا مہینہ ہے، ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ ہم نے سمجھا کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا ذی الحجہ ہی ہے۔ پھر فرمایا یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو اس کا زیادہ علم ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اور ہم نے سمجھا کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ بلدہ (مکہ مکرمہ) نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ دن کون سا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول کو اس کا بہتر علم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اور ہم نے سمجھا کہ آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ قربانی کا دن (یوم النحر) نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس تمہارا خون، تمہارے اموال۔ محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ (ابن ابی بکرہ نے) یہ بھی کہا کہ اور تمہاری عزت تم پر (ایک کی دوسرے پر) اس طرح باحرمت ہیں جس طرح اس دن کی حرمت تمہارے اس شہر میں اور اس مہینہ میں ہے اور عنقریب اپنے رب سے ملو گے اس وقت وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا آ گاہ ہو جاؤ میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض دوسرے کی گردن مارنے لگے۔ ہاں جو یہاں موجود ہیں وہ (میرا یہ پیغام) غیر موجود لوگوں کو پہنچا دیں۔ ممکن ہے کہ بعض وہ جنہیں یہ پیغام پہنچایا جائے بعض ان سے زیادہ اسے محفوظ کرنے والے ہوں جو اسے سن رہے ہیں۔ اس پر محمد بن سیرین کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آگاہ ہو جاؤ کیا میں نے (اس کا پیغام تم کو) پہنچا دیا ہے۔ آگاہ ہو جاؤ کیا میں نے پہنچا دیا ہے؟ [صحيح البخاري/كتاب الأضاحي/حدیث: 5550]
ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا اور ان سے نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قربان گاہ میں نحر کیا کرتے تھے اور عبیداللہ نے بیان کیا کہ مراد وہ جگہ ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كتاب الأضاحي/حدیث: 5551]
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے کثیر بن فرقد نے، ان سے نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (قربانی) ذبح اور نحر عیدگاہ میں کیا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كتاب الأضاحي/حدیث: 5552]
اور یحییٰ بن سعید نے بیان کیا کہ میں نے ابوامامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم مدینہ منورہ میں قربانی کے جانور کو کھلا پلا کر فربہ کیا کرتے تھے اور عام مسلمان بھی قربانی کے جانور کو اسی طرح فربہ کیا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كتاب الأضاحي/حدیث: Q5553]