عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «من مات ولم يغز ولم يحدث نفسه به مات على شعبة من نفاق» رواه مسلم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو شخص ایسی حالت میں مر گیا کہ اس نے نہ کبھی جہاد میں حصہ لیا اور نہ کبھی اس کے دل میں یہ خیال آیا اور نہ اس کی خواہش و تمنا پیدا ہوئی تو اس کی موت نفاق کے شعبہ پر ہوئی۔“(مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1080]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الإمارة، باب ذم من مات ولم يغز...، حديث:1910.»
حدیث نمبر: 1081
وعن أنس رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «جاهدوا المشركين بأموالكم وأنفسكم وألسنتكم» رواه أحمد والنسائي وصححه الحاكم.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” مشرکین سے اپنے مالوں، اپنی جانوں اور اپنی زبانوں سے جہاد کرو۔“ اسے احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1081]
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قلت: يا رسول الله على النساء جهاد؟ قال: «نعم جهاد لا قتال فيه: الحج والعمرة» رواه ابن ماجه وأصله في البخاري.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا خواتین پر بھی جہاد ہے؟ فرمایا ” ہاں! جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں۔ اور وہ ہے حج اور عمرہ۔“ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور اس کی اصل بخاری میں ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1082]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن ماجه، المناسك، باب الحج جهاد النساء، حديث:2901، والبخاري، الجهاد، حديث:2875.»
حدیث نمبر: 1083
وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم يستأذنه في الجهاد فقال: «أحي والداك؟» قال: نعم قال: «ففيهما فجاهد» .متفق عليه. ولأحمد وأبي داود من حديث أبي سعيد نحوه وزاد:«ارجع فاستأذنهما فإن أذنا لك وإلا فبرهما» .
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کر رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کیا تیرے والدین بقید حیات ہیں؟ “ وہ بولا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” پس ان دونوں (کی خدمت) میں جدوجہد کرو۔ “(بخاری و مسلم) مسند احمد اور ابوداؤد میں ابوسعید کی روایت بھی اسی طرح منقول ہے۔ اس میں اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” واپس چلے جاؤ ان سے اجازت طلب کرو۔ پھر اگر وہ دونوں تجھے اجازت دے دیں تو درست ورنہ ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرو۔ “[بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1083]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجهاد، بإذن الأبوين، حديث:3004، ومسلم، البر والصلة، باب برالوالدين وأيهما أحق به، حديث:2549، وحديث أبي سعيد: أخرجه أبوداود، الجهاد، حديث:2530، وأحمد:3 /75.»
حدیث نمبر: 1084
وعن جرير البجلي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «أنا بريء من كل مسلم يقيم بين المشركين» رواه الثلاثة وإسناده صحيح ورجح البخاري إرساله.
سیدنا جریر بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین میں قیام پذیر ہو۔ “ اسے تینوں نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے مگر بخاری نے اس کے مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1084]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الجهاد، باب النهي عن قتل من اعتصم بالسجود، حديث:2645، والترمذي، السير، حديث:1604، والنسائي، القسامة، حديث:4784 من حديث قيس بن أبي حازم مرسلًا.* أبو معاوية الضرير عنعن وله طرق ضعيفة كلها.»
حدیث نمبر: 1085
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «لا هجرة بعد الفتح ولكن جهاد ونية» متفق عليه.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” فتح (مکہ) کے بعد ہجرت نہیں لیکن جہاد اور نیت باقی ہے۔ “(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1085]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجهاد، باب وجوب النفير...، حديث:2825، ومسلم، الإمارة، باب المبايعة بعد فتح مكة...، حديث:1353.»
حدیث نمبر: 1086
وعن أبي موسى الأشعري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله» متفق عليه.
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو شخص اس نیت سے لڑا کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو تو وہ اللہ کی راہ میں لڑنے والا ہے۔“(بخاری ومسلم)[بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1086]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجهاد، باب من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا، حديث:2810، ومسلم، الإمارة، باب من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا...، حديث:1904.»
حدیث نمبر: 1087
وعن عبد الله بن السعدي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «لا تنقطع الهجرة ما قوتل العدو» . رواه النسائي وصححه ابن حبان.
سیدنا عبداللہ بن سعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب تک دشمنوں سے جنگ جاری رہے گی ہجرت بھی جاری رہے گی۔“ اسے نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1087]
تخریج الحدیث: «أخرجه النسائي، البيعة، باب ذكر الاختلاف في انقطاع الهجرة، حديث:4177، وابن حبان (الإحسان):7 /179، حديث:4846.»
حدیث نمبر: 1088
وعن نافع رضي الله عنه قال: أغار رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم على بني المصطلق وهم غارون فقتل مقاتلتهم وسبى ذراريهم. حدثني بذلك عبد الله بن عمر. متفق عليه.
سیدنا نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو مصطلق پر شب خون مارا تو اس وقت یہ لوگ بےخبر و غافل تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لڑائی کرنے والوں کو قتل کیا اور ان کی اولاد کو قیدی بنا لیا۔ یہ مجھ سے عبداللہ بن عمر نے بیان کیا۔ (بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1088]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، العتق، باب من ملك من العرب رقيقا فوهب وباع...، حديث:2541، ومسلم، الجهاد والسير، باب جواز الإغارة علي الكفار...، حديث:1730.»
حدیث نمبر: 1089
وعن سليمان بن بريدة عن أبيه رضي الله عنهما قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا أمر أميرا على جيش أو سرية أوصاه في خاصته بتقوى الله وبمن معه من المسلمين خيرا ثم قال: «اغزوا باسم الله في سبيل الله قاتلوا من كفر بالله اغزوا ولا تغلوا ولا تغدوا ولا تمثلوا ولا تقتلوا وليدا وإذا لقيت عدوك من المشركين فأدعهم إلى ثلاث خصال فأيتهن أجابوك إليها فاقبل منهم وكف عنهم: ادعهم إلى الإسلام فإن أجابوك فاقبل منهم ثم ادعهم إلى التحول من دارهم إلى دار المهاجرين فإن أبوا فأخبرهم أنهم يكونون كأعراب المسلمين ولا يكون لهم في الغنيمة والفيء شيء إلا أن يجاهدوا مع المسلمين فإن هم أبوا فاسألهم الجزية فإن هم أجابوك فاقبل منهم فإن هم أبوا فاستعن بالله وقاتلهم وإذا حاصرت أهل حصن فأرادوك أن تجعل لهم ذمة الله وذمة نبيه فلا تفعل ولكن اجعل لهم ذمتك فإنكم إن تخفروا ذمتكم أهون من أن تخفروا ذمة الله وإن أرادوك أن تنزلهم على حكم الله فلاتفعل بل على حكمك فإنك لا تدري أتصيب فيهم حكم الله أم لا؟» أخرجه مسلم.
سیدنا سلیمان بن بریدہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر یا سریہ کا امیر مقرر فرماتے تو اسے بالخصوص خدا خوفی اور اپنے مسلمانوں ساتھیوں کے ساتھ بھلائی اور خیر کی نصیحت فرماتے۔ اس کے بعد فرماتے ” اللہ کے نام کے ساتھ اس کے راستہ میں جہاد کرو ان لوگوں سے جو خدا کے منکر و کافر ہیں۔ لڑائی کرو، خیانت نہ کرنا، دھوکہ نہ دینا اور مثلہ نہ کرنا، بچوں کو قتل نہ کرنا۔ مشرک دشمن سے جب ملاقات ہو تو ان کو لڑائی سے پہلے تین چیزوں کی دعوت پیش کرو۔ ان میں سے جسے وہ قبول کر لیں اسے قبول کر لو اور ان سے لڑائی نہ کرو۔ پہلے ان کو اسلام کی دعوت پیش کرو۔ پس اگر وہ اس کو تسلیم کر لیں تو اسے قبول کر لو۔ پھر ان کو دعوت دو کہ وہ اپنے گھربار چھوڑ کر (دارالسلام) مہاجرین کے ملک کی طرف ہجرت کر کے آ جائیں۔ اگر وہ انکار کریں تو ان کو خبردار کر دو کہ ان کے حقوق بدوی مسلمانوں کے برابر ہوں گے اور ان کے لیے مال غنیمت اور اموال فے میں سے کچھ بھی نہیں ہو گا۔ الایہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد میں شریک ہوں۔ اگر اس سے انکار کریں تو ان سے جزیہ لو۔ اگر وہ تسلیم کر لیں تو اسے بھی قبول کر لو اور اگر وہ انکار کریں تو اللہ سے مدد طلب کرو اور ان سے لڑائی شروع کر دو اور جب تم کسی قلعہ کا محاصرہ کر لو اور وہ تم سے اللہ اور اس کے نبی کا ذمہ و عہد لینا چاہیں تو انہیں یہ ذمہ نہ دو بلکہ تم اپنا عہد و ذمہ ان کو دے دو۔ (اس کے خلاف نہ کرنا) اس لئے کہ اگر تم اپنے عہد و ذمہ کو توڑتے ہو تو یہ اللہ کی پناہ کو توڑنے سے بہت خفیف و ہلکا ہے اور جب یہ چاہیں کہ تو ان کو اللہ کے حکم و فیصلہ پر اتارے تو ایسا نہ کرنا بلکہ اپنے حکم و فیصلہ پر اتارنا کیونکہ تجھے علم نہیں کہ تو اللہ کے فیصلہ پر پہنچ بھی سکے گا یا نہیں۔ (مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الجهاد/حدیث: 1089]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الجهاد والسير، باب تأمير الإمام الأمراء علي البعوث...، حديث:1731.»