ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے مویشی کی حفاظت یا شکار کی غرض کے سوا کسی اور وجہ سے کتا پالا اس کے ثواب سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہو جاتی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ/حدیث: 5482]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
7. بَابُ إِذَا أَكَلَ الْكَلْبُ:
7. باب: جب کتا شکار میں سے خود کھا لے تو اس کا کیا حکم ہے؟
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ المائدہ میں) فرمایا کہ ”آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا چیز کھانی ہمارے لیے حلال کی گئی ہے، آپ کہہ دیں کہ تم پر کل پاکیزہ جانور کھانے حلال ہیں اور تمہارے سدھائے ہوئے شکاری کتوں اور جانوروں کا شکار بھی جو شکار پر چھوڑ جاتے ہیں۔ تم انہیں اس طریقہ پر سکھاتے ہو جس طرح تمہیں اللہ نے سکھایا ہے سو کھاؤ اس شکار کو جسے (شکاری جانور یا کتا) تمہارے لیے پکڑ کر رکھیں۔“ اللہ کے قول ”بیشک اللہ حساب جلد کر دیتا ہے“ تک۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر کتے نے شکار کا گوشت خود بھی کھا لیا تو اس نے شکار کو ناپاک کر دیا کیونکہ اس صورت میں اس نے خود اپنے لیے شکار کو روکا ہے اور اللہ تعالیٰ کا اسی سورۃ میں فرمانا کہ ”تم انہیں سکھاتے ہو اس میں سے جو اللہ نے تمہیں سکھایا ہے“ اس لیے ایسے کتے کو پیٹا جائے گا اور سکھایا جاتا رہے گا، یہاں تک کہ شکار میں سے وہ کھانے کی عادت چھوڑ دے۔ ایسے شکار کو ابن عمر رضی اللہ عنہما مکروہ سمجھتے تھے اور عطاء نے کہا کہ اگر صرف شکار کا خون پی لیا ہو اور اس کا گوشت نہ کھایا ہو تو تم کھا سکتے ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ/حدیث: Q5483]
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، ان سے بیان بن بشر نے، ان سے شعبی نے اور ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم لوگ ان کتوں سے شکار کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اپنے سکھائے ہوئے کتوں کو شکار کے لیے چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیتے ہو تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ کر لائیں اسے کھاؤ خواہ وہ شکار کو مار ہی ڈالیں۔ البتہ اگر کتا شکار میں سے خود بھی کھا لے تو اس میں یہ اندیشہ ہے کہ اس نے یہ شکار خود اپنے لیے پکڑا تھا اور اگر دوسرے کتے بھی تمہارے کتوں کے سوا شکار میں شریک ہو جائیں تو نہ کھاؤ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ/حدیث: 5483]
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت بن یزید نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم نے اپنا کتا شکار پر چھوڑا اور بسم اللہ بھی پڑھی اور کتے نے شکار پکڑا اور اسے مار ڈالا تو اسے کھاؤ اور اگر اس نے خود بھی کھا لیا تو تم نہ کھاؤ کیونکہ یہ شکار اس نے اپنے لیے پکڑا ہے اور اگر دوسرے کتے جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، اس کتے کے ساتھ شکار میں شریک ہو جائیں اور شکار پکڑ کر مار ڈالیں تو ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ کس کتے نے مارا ہے اور اگر تم نے شکار پر تیر مارا پھر وہ شکار تمہیں دو یا تین دن بعد ملا اور اس پر تمہارے تیر کے نشان کے سوا اور کوئی دوسرا نشان نہیں ہے تو ایسا شکار کھاؤ لیکن اگر وہ پانی میں گر گیا ہو تو نہ کھاؤ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ/حدیث: 5484]
اور عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے داؤد بن ابی یاسر نے، ان سے عامر شعبی نے اور ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ وہ شکار تیر سے مارتے ہیں پھر دو یا تین دن پر اسے تلاش کرتے ہیں، تب وہ مردہ حالت میں ملتا ہے اور اس کے اندر ان کا تیر گھسا ہوا ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو چاہے تو کھا سکتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ/حدیث: 5485]
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی السفر نے، ان سے عامر شعبی نے اور ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں (شکار کے لیے) اپنا کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لیا ہو اور پھر وہ کتا شکار پکڑ کے مار ڈالے اور خود بھی کھا لے تو ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ یہ شکار اس نے خود اپنے لیے پکڑا ہے۔ میں نے کہا کہ میں کتا شکار پر چھوڑتا ہوں لیکن اس کے ساتھ دوسرا کتا بھی مجھے ملتا ہے اور مجھے یہ معلوم نہیں کہ کس نے شکار پکڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی ہے دوسرے کتے پر نہیں پڑھی اور میں نے آپ سے بے پر کے تیر یا لکڑی سے شکار کا حکم پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر شکار نوک کی دھار سے مرا ہو تو کھا لیکن اگر تو نے اس کی چوڑائی سے اسے مارا ہے تو ایسا شکار بوجھ سے مرا ہے پس اسے نہ کھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ/حدیث: 5486]
مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد ابن فضل نے خبر دی، ان سے بیان بن بشر نے، ان سے عامر شعبی نے اور ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم اس قوم میں سکونت رکھتے ہیں جو ان کتوں سے شکار کرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم اپنا سکھایا ہوا کتا چھوڑو اور اس پر اللہ کا نام لے لو تو اگر وہ کتا تمہارے لیے شکار لایا ہو تو تم اسے کھا سکتے ہو لیکن اگر کتے نے خود بھی کھا لیا ہو تو وہ شکار نہ کھاؤ کیونکہ اندیشہ ہے کہ اس نے وہ شکار خود اپنے لیے پکڑا ہے اور اگر اس کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا بھی شکار میں شریک ہو جائے تو پھر شکار نہ کھاؤ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ/حدیث: 5487]
ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا، ان سے حیوہ بن شریح نے (دوسری سند) اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا، مجھ سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن المبارک نے بیان کیا، ان سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا کہ میں نے ربیعہ بن یزید دمشقی سے سنا، کہا کہ مجھے ابوادریس عائذ اللہ نے خبر دی، کہا کہ میں ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہیں اور ان کے برتن میں کھاتے ہیں اور ہم شکار کی زمین میں رہتے ہیں، جہاں میں اپنے تیر سے شکار کرتا ہوں اور اپنے سدھائے ہوئے کتے سے۔ تو اس میں سے کیا چیز ہمارے لیے جائز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے جو یہ کہا ہے کہ تم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہو اور ان کے برتن میں بھی کھاتے ہو تو اگر تمہیں ان کے برتنوں کے سوا دوسرے برتن مل جائیں تو ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ لیکن ان کے برتنوں کے سوا دوسرے برتن نہ ملیں تو انہیں دھو کر پھر ان میں کھاؤ اور تم نے شکار کی سر زمین کا ذکر کیا ہے تو جو شکار تم اپنے تیر سے مارو اور تیر چلاتے وقت اللہ کا نام لیا ہو تو اسے کھاؤ اور جو شکار تم نے اپنے سدھائے ہوئے کتے سے کیا ہو اور اس پر اللہ کا نام لیا ہو تو اسے کھاؤ اور جو شکار تم نے اپنے بلا سدھائے کتے سے کیا ہو اور اسے ذبح بھی خود ہی کیا ہو تو اسے بھی کھاؤ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ/حدیث: 5488]
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن زید نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مرالظہران (مکہ کے قریب ایک مقام) میں ہم نے ایک خرگوش کو ابھارا لوگ اس کے پیچھے دوڑے مگر نہ پایا پھر میں اس کے پیچھے لگا اور میں نے اسے پکڑ لیا اور اسے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس لایا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کا کولھا اور دونوں رانیں بھیجیں تو آپ نے انہیں قبول فرما لیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ/حدیث: 5489]
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابوالنضر نے، ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے غلام نافع نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے وہ مکہ کے راستہ میں ایک جگہ پر اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ جو احرام باندھے ہوئے تھے پیچھے رہ گئے خود ابوقتادہ رضی اللہ عنہ احرام سے نہیں تھے اسی عرصہ میں انہوں نے ایک گورخر دیکھا اور (اسے شکار کرنے کے ارادہ سے) اپنے گھوڑے پر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد اپنے ساتھیوں سے (جو محرم تھے) کوڑا مانگا لیکن انہوں نے دینے سے انکار کیا پھر اپنا نیزہ مانگا لیکن اسے بھی اٹھانے کے لیے وہ تیار نہیں ہوئے تو انہوں نے وہ خود اٹھایا اور گورخر پر حملہ کیا اور اسے شکار کر لیا پھر بعض نے اس کا گوشت کھایا اور بعض نے کھانے سے انکار کیا۔ اس کے بعد جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس کا حکم پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو ایک کھانا تھا جو اللہ نے تمہارے لیے مہیا کیا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ/حدیث: 5490]