عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة» . متفق عليه.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”عمرہ دوسرے عمرے تک دونوں کے مابین گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کا بدلہ جنت کے علاوہ اور کوئی نہیں۔“(مسلم و بخاری)[بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 579]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، العمرة، باب وجوب العمرة وفضلها، حديث:1773، ومسلم، الحج، باب في فضل الحج والعمرة ويوم عرفة، حديث:1349.»
حدیث نمبر: 580
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قلت: يا رسول الله على النساء جهاد؟ قال: «نعم عليهن جهاد لا قتال فيه: الحج والعمرة» . رواه أحمد وابن ماجه واللفظ له وإسناده صحيحح وأصله في الصحيح.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! کیا عورتوں پر جہاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں! ان پر وہ جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں (یعنی) حج اور عمرہ۔“ اسے احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں۔ اس کی سند صحیح ہے اور اس کی اصل بخاری میں ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 580]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن ماجه، المناسك، باب الحج جهاد النساء، حديث:2901، وأحمد:6 /165، وأصل الحديث عند البخاري، الحج، حديث:1520.»
حدیث نمبر: 581
وعن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: أتى النبي صلى الله عليه وآله وسلم أعرابي فقال: يا رسول الله أخبرني عن العمرة أواجبة هي؟ فقال: «لا، وأن تعتمر خير لك» . رواه أحمد والترمذي والراجح وقفه وأخرجه ابن عدي من وجه آخر ضعيف عن جابر مرفوعا:«الحج والعمرة فريضتان» .
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بدوی حاضر ہوا تو اس نے کہا، اے اللہ کے رسول! مجھے عمرہ کے بارے بتلائیے کہ کیا یہ واجب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نہیں اگر تو عمرہ کرے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔“ اسے احمد و ترمذی نے روایت کیا ہے اور اس کا موقوف ہونا راجح ہے اور امام ابن عدی نے ایک اور ضعیف سند سے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ ”حج اور عمرہ دونوں فرض ہیں۔“[بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 581]
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، الحج، باب ما جاء في العمرة أواجبة هي أم لا، حديث:931، وقال: "حسن صحيح"، وأحمد:3 /316. * حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس، وحديث جابر أخرجه ابن عدي في الكامل:4 /1468 وسنده ضعيف، ابن لهيعةعنعن.»
حدیث نمبر: 582
وعن أنس رضي الله عنه قال: قيل: يا رسول الله ما السبيل؟ قال: «الزاد والراحلة» . رواه الدارقطني، وصححه الحاكم، والراجح إرساله، وأخرجه الترمذي من حديث ابن عمر وفي إسناده ضعف.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ! ”سبیل“ سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”راستے کا خرچ اور سواری۔“ اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے مگر راجح اس کا مرسل ہونا ہے اور ترمذی نے اسے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں کمزوری ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 582]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدارقطني:2 /216، والحاكم:1 /442.* قتادة مدلس وقد عنعن، وللحديث شواهد ضعيفة، وحديث ابن عمر أخرجه الترمذي، الحج، حديث:813، وسنده ضعيف جدًا، إبراهيم الخوزي متروك الحديث.»
حدیث نمبر: 583
وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم لقى ركبا بالروحاء فقال: «من القوم؟» قالوا: المسلمون فقالوا: من أنت؟ قال: «رسول الله» فرفعت إليه امرأة صبيا فقالت ألهذا حج: قال: «نعم ولك أجر» . رواه مسلم.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روحاء مقام پر کچھ سواروں سے ملے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تم کون ہو؟“ تو انہوں نے عرض کیا، ہم مسلمان ہیں۔ پھر انہوں نے پوچھا آپ کون ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ کا رسول ہوں“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت اپنے بچے کو اٹھا کر لائی اور پوچھا کیا اس کا حج ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں! اس کا ثواب تجھے ملے گا۔“(مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 583]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الحج، باب صحة حج الصبي وأجرمن حج به، حديث:1336.»
حدیث نمبر: 584
وعنه رضي الله عنهما قال: كان الفضل بن عباس رديف رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فجاءت امرأة من خثعم فجعل الفضل ينظر إليها وتنظر إليه وجعل النبي صلى الله عليه وآله وسلم يصرف وجه الفضل إلى الشق الآخر فقالت: يا رسول الله إن فريضة الله على عباده في الحج أدركت أبي شيخا كبيرا لا يثبت على الراحلة أفأحج عنه؟ قال: «نعم» وذلك في حجة الوداع. متفق عليه واللفظ للبخاري.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے کہ قبیلہ خشعم کی ایک عورت آئی تو فضل رضی اللہ عنہ اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، فضل رضی اللہ عنہ کا منہ دوسری جانب پھیرتے تھے۔ پس اس عورت نے کہا، اے اللہ کے رسول! بیشک حج، اللہ کا فرض ہے اس کے بندوں پر۔ میرا باپ بڑی عمر والا بوڑھا ہے۔ وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتا کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں! اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔“(بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 584]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب وجوب الحج وفضله، حديث:1513، ومسلم، الحج، باب الحج عن العاجز، حديث:1334.»
حدیث نمبر: 585
وعنه رضي الله عنهما أن امرأة من جهينة جاءت إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقالت: إن أمي نذرت أن تحج ولم تحج حتى ماتت أفأحج عنها؟ قال: «نعم حجي عنها أرأيت لو كان على أمك دين أكنت قاضيته؟ اقضوا الله فالله أحق بالوفاء» . رواه البخاري.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ہے کہ قبیلہ جھینہ کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا، بیشک میری ماں نے حج کرنے کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہیں کر سکی، اور فوت ہو گئی ہے کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہاں! اس کی طرف سے حج کر، اگر تیری ماں کے ذمہ ادھار ہوتا تو کیا تم وہ قرض نہ اتارتی؟ اللہ کا حق پورا کرو کیونکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ اس کا حق پورا کیا جائے۔ “(بخاری)[بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 585]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الاعتصام بالكتاب والسنة، باب من شبه أصلاً معلومًا....، حديث:7315.»
حدیث نمبر: 586
وعنه رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «أيما صبي حج ثم بلغ الحنث فعليه أن يحج حجة أخرى وأيما عبد حج ثم أعتق فعليه أن يحج حجة أخرى» . رواه ابن أبي شيبة والبيهقي ورجاله ثقات إلا أنه اختلف في رفعه والمحفوظ أنه موقوف.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو بچہ حج کرے پھر وہ بلوغت کو پہنچ جائے تو اس پر ضروری ہے کہ دوسرا حج کرے اور جو غلام حج کرے پھر آزاد کر دیا جائے تو اس پر لازم ہے کہ دوسرا حج کرے۔“ اسے ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے اس کے راوی ثقہ ہیں مگر اس کے مرفوع ہونے میں اختلاف کیا گیا ہے اور محفوظ یہ ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 586]
تخریج الحدیث: «أخرجه البيهقي:4 /325، 5 /179 وأشار إلي علته.»
حدیث نمبر: 587
وعنه رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يخطب يقول: «لا يخلون رجل بامرأة إلا ومعها ذو محرم ولا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم» فقام رجل فقال: يا رسول الله إن امرأتي خرجت حاجة وإني اكتتبت في غزوة كذا وكذا فقال: «انطلق فحج مع امرأتك» . متفق عليه واللفظ لمسلم.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ میں یہ ارشاد فرماتے سنا کہ ” کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ ہرگز اکیلا نہ ہو مگر اس کے ساتھ محرم ہو اور کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ “ پس ایک آدمی کھڑا ہوا تو اس نے کہا اے اللہ کے رسول! بیشک میری عورت حج کے لئے روانہ ہوئی اور میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں شامل ہونے کیلئے لکھا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جاؤ اپنی بیوی کے ہمراہ حج کرو۔ “(بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 587]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجهاد، باب من اكتتب في جيش فخرجت امرأته حاجة، حديث:3006، الحج، باب سفرالمرأة مع محرم إلي حج وغيره، حديث:1341.»
حدیث نمبر: 588
وعنه رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم سمع رجلا يقول: لبيك عن شبرمة قال: «من شبرمة؟» قال: أخ لي أو قريب لي فقال: «حججت عن نفسك؟» قال: لا. قال: «حج عن نفسك، ثم حج عن شبرمة» . رواه أبو داود وابن ماجه وصححه ابن حبان والراجح عند أحمد وقفه.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کہتے سنا ”شبرمہ کی طرف سے لبیک“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”شبرمہ کون ہے؟“ اس کہا کہ وہ میرا بھائی ہے یا قریبی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تو نے اپنی طرف سے حج کیا ہے؟“ اس نے کہا ”نہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پہلے اپنی طرف سے کر پھر شبرمہ کی طرف سے کر لینا۔“ اسے ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے اور امام احمد کے نزدیک اس کا موقوف ہونا راجح ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 588]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، المناسك، باب الرجل يحج عن غيره، حديث:1811، وابن ماجه، المناسك، حديث:2903، وابن حبان(الموارد):962، قتاده مدلس وعنعن، وللحديث شواهد ضعيفة.»