عن ابن عباس رضي الله عنهما: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم بعث معاذا إلى اليمن فذكر الحديث وفيه: «إن الله قد افترض عليهم صدقة في أموالهم تؤخذ من أغنيائهم فترد في فقرائهم» . متفق عليه واللفظ للبخاري.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ فرمایا، پھر ساری حدیث بیان کی جس میں ہے ”اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر زکوٰۃ فرض کی گئی ہے، جو ان کے مالداروں سے وصول کی جائے اور انہیں کے محتاجوں اور غریبوں میں تقسیم کر دی جائے۔“(بخاری)[بلوغ المرام/كتاب الزكاة/حدیث: 483]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الزكاة، باب لا تؤخذ كرائم أموال الناس في الصدقة، حديث:1458، ومسلم، الإيمان، باب الدعاء إلي الشهادتين وشرائع الإسلام، حديث:19.»
حدیث نمبر: 484
وعن أنس أن أبا بكر الصديق رضي الله عنه كتب له: هذه فريضة الصدقة التي فرضها رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم على المسلمين والتي أمر الله بها رسوله: «في كل أربع وعشرين من الإبل فما دونها الغنم: في كل خمس شاة فإذا بلغت خمسا وعشرين إلى خمس وثلاثين فيها بنت مخاض أثنى فإن لم تكن فابن لبون ذكر فإذا بلغت ستا وثلاثين إلى خمس وأربعين ففيها بنت لبون أنثى فإذا بلغت ستا وأربعين إلى ستين ففيها حقة طروق الجمل فإذا بلغت واحدة وستين إلى خمس وسبعين ففيها جذعة فإذا بلغت ستا وسبعين إلى تسعين ففيها بنتا لبون فإذا بلغت إحدى وتسعين إلى عشرين ومائة ففيها حقتان طروقتا الجمل فإذا زادت على عشرين ومائة ففي كل أربعين بنت لبون وفي كل خمسين حقة ومن لم يكن معه إلا أربع من الإبل فليس فيها صدقة إلا أن يشاء ربها. وفي صدقة الغنم في سائمتها إذع كانت أربعين إلى عشرين ومائة شاة شاة فإذا زادت على عشرين ومائة إلى مائتين ففيها شاتان فإذا زادت على مائتين إلى ثلاثمائة ففيها ثلاث شياه فإذا زادت على ثلاثمائة ففي كل مائة شاة. فإذا كانت سائمة الرجل ناقصة من أربعين شاة شاة واحدة فليس فيها صدقة إلا أن يشاء ربها ولا يجمع بين متفرق ولا يفرق بين مجتمع خشية الصدقة وما كان من خلطين فإنهما تتراجعان بينهما بالسوية ولا يخرج في الصدقة هرمة ولا ذات عوار ولا تيس إلا أن يشاء المصدق وفي الرقة: في مائتي درهم ربع العشر فإن لم تكن إلا تسعين ومائة فليس فيها صدقة إلا أن يشاء ربها ومن بلغت عنده من الإبل صدقة الجذعة، وليست عنده جذعة وعنده حقة فإنها تقبل منه ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له أو عشرين درهما ومن بلغت عنده صدقة الحقة وليست عنده الحقة وعنده الجذعة فإنها تقبل منه الجذعة ويعطيه المصدق عشرين درهما أو شاتين» . رواه البخاري.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو فریضہ زکٰوۃ کے سلسلہ میں یہ تحریر لکھ کر دی تھی۔ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر مقرر فرمایا تھا اور جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا کہ اونٹوں کی چوبیس یا اس سے کم تعداد پر بکریاں ہیں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری، جب تعداد پچیس سے بڑھ کر پینتیس ہو جائے تو اس تعداد پر ایک سالہ اونٹنی۔ اگر میسر نہ ہو تو پھر دو سالہ نر بچہ اور جب چھتیس سے تعداد بڑھ کر پینتالیس تک پہنچ جائے تو ان میں دو سالہ اونٹنی اور جب چھیالیس سے بڑھ کر ساٹھ تک تعداد پہنچ جائے تو ان میں تین سالہ جوان اونٹ جفتی کے قابل اونٹنی اور جب اکسٹھ سے بڑھ کر پچھتر تک پہنچ جائے تو ان میں چار سالہ اونٹ اور جب چھہتر سے تعداد بڑھ کر نوے ہو جائے تو ان میں دو ‘ دو سالہ دو اونٹنیاں اور پھر اکانوے سے بڑھ کر تعداد ایک سو بیس تک پہنچ جائے تو ان میں تین ‘ تین سالہ دو جوان اونٹنیاں۔ جو اونٹ کی جفتی کے قابل ہوں۔ اور جب تعداد ایک سو بیس سے زائد ہو جائے تو پھر ہر چالیس اونٹوں پر ایک دو سالہ اونٹنی اور ہر پچاس پر تین سالہ اور جس کے پاس صرف چار ہی اونٹ ہوں تو اس تعداد پر کوئی زکٰوۃ نہیں الایہ کہ ان کا مالک چاہے اور بکریوں کی زکٰوۃ کہ جو باہر چرنے جاتی ہوں ‘ چالیس سے لے کر ایک سو بیس کی تعداد پر صرف ایک بکری زکٰوۃ میں وصول کی جائے گی۔ جب یہ تعداد ایک سو بیس سے بڑھ کر دو سو تک پہنچ جائے گی تو دو بکریاں زکٰوۃ میں وصول کی جائیں گی۔ پھر جب دو سو سے بڑھ کر تین سو تک پہنچ جائے گی تو تین بکریاں وصول کی جائیں گی۔ جب تعداد تین سو سے بڑھ جائے گی تو ہر سو بکری پر ایک بکری زکٰوۃ وصول کی جائے گی ‘ اگر کسی کی باہر جنگل میں چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم تعداد میں ہوں تو مالک پر کوئی زکٰوۃ نہیں الایہ کہ مالک چاہے۔ زکٰوۃ کے ڈر سے نہ تو الگ الگ چرنے والیوں کو اکٹھا کیا جائے اور نہ ہی اکٹھی چرنے والیوں کو الگ الگ۔ اور جو جانور دو آدمیوں کے درمیان مشترکہ ہوں وہ مساوی طور پر زکٰوۃ کا حصہ نکالیں۔ زکٰوۃ کی مد میں بوڑھا اور نہ یک چشم جانور اور نہ سانڈ لیا جائے الایہ کہ زکٰوۃ دینے والا خود چاہے۔ اور چاندی کے سکوں کا نصاب دو سو درہم ہے اس میں سے چالیسواں حصہ زکٰوۃ ہے۔ اگر کسی کے پاس دو سو درہم سے ایک درہم بھی کم ہے تو اس پر زکٰوۃ واجب نہیں الایہ کہ اس کا مالک خود دینا چاہے۔ اور جس کے اونٹوں کی زکٰوۃ میں چار سالہ اونٹ واجب الوصول ہو اور اس کے پاس اس عمر کا اونٹ نہ ہو اور اس کے پاس تین سالہ ہو جوان اونٹنی تو اس سے دو بکریاں اور تین سالہ جفتی کے لائق جوان اونٹنی وصول کی جائے بشرطیکہ بکریاں بآسانی دستیاب ہو سکیں یا بیس درہم دینا ہوں گے اور جس کی زکٰوۃ میں تین سالہ جوان اونٹنی آتی ہو اور اس کے پاس چار سالہ اونٹ ہو تو اس سے وہی چار سالہ اونٹ ہی وصول کر لیا جائے گا مگر زکٰوۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس دے گا (بخاری)[بلوغ المرام/كتاب الزكاة/حدیث: 484]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الزكاة، باب زكاة الغنم، حديث:1454.»
حدیث نمبر: 485
وعن معاذ بن جبل رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم بعثه إلى اليمن، فأمره أن يأخذ من كل ثلاثين بقرة تبيعا أو تبيعة، ومن كل أربعين مسنة، ومن كل حالم دينارا، أو عدله معافريا. رواه الخمسة واللفظ لأحمد وحسنه الترمذي وأشار إلى اختلاف في وصله، وصححه ابن حبان والحاكم.
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کی طرف (عامل مقرر کر کے) بھیجا۔ ان کو حکم دیا کہ وہ تیس گائیوں پر ایک سالہ مادہ گائے یا نر بچھڑا وصول کریں اور ہر چالیس کی تعداد پر ایک دو سالہ بچھڑا لیا جائے اور ہر نوجوان سے ایک دینار یا معافری کپڑا لیا جائے۔ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔ متن حدیث کے الفاظ احمد کے ہیں اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے اور اس کے موصول ہونے کے بارے میں اختلاف کا اشارہ کیا ہے۔ ابن حبان اور حاکم دونوں نے اسے صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الزكاة/حدیث: 485]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الزكاة، باب في زكاة السائمة، حديث:1576، والترمذي، الزكاة، حديث:623، والنسائي، الزكاة، حديث:2452، وابن ماجه، الزكاة، حديث:1803، وأحمد:5 /230، 233، 247، وابن حبان (الإحسان): 7 /195، حديث:4866، والحاكم:1 /398: الأعمش مدلس وعنعن.»
حدیث نمبر: 486
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنهم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «تؤخذ صدقات المسلمين على مياههم» . رواه أحمد. ولأبي داود: «ولا تؤخذ صدقاتهم إلا في دورهم» .
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ”مسلمانوں سے زکوٰۃ ان کے پانی پلانے کی جگہوں پر وصول کی جائے گی۔“ احمد، اور ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ مسلمانوں کے صدقات ان کے گھروں ہی پر حاصل کیے جائیں گے۔ [بلوغ المرام/كتاب الزكاة/حدیث: 486]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الزكاة، باب أين تصدق الأموال، حديث:1591، وأحمد:2 /185.»
حدیث نمبر: 487
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «ليس على المسلم في عبده ولا في فرسه صدقة» . رواه البخاري. ولمسلم: «ليس في العبد صدقة إلا صدقة الفطر» .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”مسلمان پر نہ اس کے غلام میں زکوٰۃ ہے اور نہ اس کے گھوڑے میں۔“(بخاری) اور مسلم کی روایت میں ہے کہ ”غلام میں زکوٰۃ نہیں مگر صدقہ فطر ہے۔“[بلوغ المرام/كتاب الزكاة/حدیث: 487]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الزكاة، باب ليس علي المسلم في عبده صدقة، حديث:1463، ومسلم، الزكاة، باب لا زكاة علي المسلم في عبده وفرسه، حديث:982.»
حدیث نمبر: 488
وعن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده رضي الله عنهم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «في كل سائمة إبل في أربعين بنت لبون لا تفرق إبل عن حسابها من أعطاها مؤتجرا بها فله أجرها ومن منعها فإنا آخذوها وشطر ماله عزمة من عزمات ربنا لا يحل لآل محمد منها شيء» . رواه أحمد وأبو داود والنسائي وصححه الحاكم وعلق الشافعي القول به على ثبوته.
سیدنا بہز بن حکیم رحمہ اللہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” چرنے والے تمام اونٹوں میں چالیس پر ایک، دو سالہ اونٹنی ہے اور اونٹوں کو ان کے حساب سے جدا نہ کیا جائے گا اور جو شخص حصول ثواب کی نیت سے زکٰوۃ ادا کرے گا اس کو اس کا ثواب بھی ملے گا اور جس نے زکٰوۃ روک لی تو ہم زکٰوۃ زبردستی وصول کریں گے اور اس کا کچھ مال بھی، ہمارے پروردگار کے فرائض میں سے ایک لازمی حصہ ہے، ان میں سے کوئی چیز بھی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے حلال نہیں ہے۔ “ اسے احمد، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور شافعی نے اس کے ثابت ہونے پر اپنے قول کو معلق رکھا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الزكاة/حدیث: 488]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الزكاة، باب في زكاة السائمة، حديث:1575، والنسائي، الزكاة، حديث:2451، وأحمد: 5 /2، 4، والحاكم:1 /398.»
حدیث نمبر: 489
وعن علي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إذا كانت لك مائتا درهم وحال عليها الحول ففيها خمسة دراهم وليس عليك شيء حتى يكون لك عشرون دينارا وحال عليها الحول ففيها نصف دينار فما زاد فبحساب ذلك وليس في مال زكاة حتى يحول عليه الحول» . رواه أبو داود، وهو حسن، وقد اختلف في رفعه.وللترمذي عن ابن عمر رضي الله عنهما: من استفاد مالا فلا زكاة عليه حتى يحول عليه الحول. والراجح وقفه.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تیرے پاس دو سو درہم ہوں اور ان پر پورا سال گذر جائے تو ان میں پانچ درہم زکوٰۃ ہے۔ جب تک تیرے پاس بیس دینار نہ ہوں اور ان پر پورا سال گزر نہ جائے، اس وقت تک تجھ پر کوئی چیز نہیں۔ جب بیس دینار ہوں تو ان میں نصف دینار زکوٰۃ ہے۔ جو اس سے زیادہ ہو گا تو اسی حساب سے زکوٰۃ ہو گی۔ کسی بھی مال پر اس وقت تک زکوٰۃ نہیں جب تک اس پر پورا سال نہ گزر جائے۔“ ابوداؤد نے اسے روایت کیا ہے اور یہ حسن ہے۔ اس کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے۔ اور ترمذی میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ جو مالی سال کے دوران حاصل ہو اس پر بھی سال گزرنے سے پہلے کوئی زکوٰۃ نہیں اور راجح یہی ہے کہ یہ روایت موقوف ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الزكاة/حدیث: 489]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الزكاة، باب في زكاة السائمة، حديث:1573، وحديث ابن عمر أخرجه الترمذي، الزكاة، حديث:631 وسنده ضعيف- في سند أبي داود أبو إسحاق وعنعن، وفي سند الترمذي عبدالرحمن بن زيد بن أسلم ضعيف.»
حدیث نمبر: 490
وعن علي رضي الله عنه قال: ليس في البقر العوامل صدقة. رواه أبو داود والدارقطني، والراجح وقفه أيضا.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کام کرنے والے بیلوں پر زکٰوۃ واجب نہیں۔ اسے ابوداؤد اور دارقطنی نے روایت کیا ہے۔ راجح یہی ہے کہ یہ بھی موقوف ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الزكاة/حدیث: 490]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الزكاة، باب في زكاة السائمة، حديث: 1572، والدار قطني: 2 /103، أبو إسحاق عنعن.»
حدیث نمبر: 491
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده عبد الله بن عمرو رضي الله عنهم أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «من ولي يتيما له مال فليتجر له ولا يتركه حتى تأكله الصدقة» . رواه الترمذي والدارقطني وإسناده ضعيف وله شاهد مرسل عند الشافعي.
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ اپنے والد اور وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو شخص کسی یتیم کا متولی بنے اسے چاہیئے کہ مال یتیم کو تجارت میں لگائے، اسے یوں ہی بیکار پڑا نہ رہنے دے کہ زکوٰۃ ہی اسے کھا جائے۔“ اسے ترمذی اور دارقطنی نے روایت کیا ہے۔ اس کی سند ضعیف ہے، البتہ امام شافعی کے پاس ایک مرسل روایت اس کی شاہد ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الزكاة/حدیث: 491]
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، الزكاة، باب ما جاء في زكاة مال اليتيم، حديث:641، وذكر كلامًا، والدار قطني: 2 /109، 110. * المثني ضعيف، وتابعه محمد بن عبيد الله العرزمي وهو متروك، وللحديث طرق ضعيفة منها شاهد مرسل عندالشافعي في الأم: 2 /29 وسنده ضعيف مرسل، ابن جريج عنعن.»
حدیث نمبر: 492
وعن عبد الله بن أبي أوفى رضي الله عنهما قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا أتاه قوم بصدقتهم قال: «اللهم صل عليهم» . متفق عليه.
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب لوگ زکوٰۃ لے کر حاضر ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے یوں دعا فرماتے «اللهم صل عليهم»”یا اللہ! ان پر رحم و کرم فرما۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الزكاة/حدیث: 492]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الزكاة، باب صلاة الإمام و دعائه لصاحب الصدقة....، حديث:1497، ومسلم، الزكاة، باب الدعاء لمن أتي بصدقة، حديث:1078.»