عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «وقت الظهر إذا زالت الشمس وكان ظل الرجل كطوله ما لم يحضر وقت العصر ووقت العصر ما لم تصفر الشمس ووقت صلاة المغرب ما لم يغب الشفق ووقت صلاة العشاء إلى نصف الليل الأوسط ووقت صلاة الصبح من طلوع الفجر ما لم تطلع الشمس» . رواه مسلم. وله من حديث بريدة في العصر:«والشمس بيضاء نقية» .ومن حديث أبي موسى:«والشمس مرتفعة» .
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نماز ظہر کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور نماز عصر کے وقت کے آغاز تک رہتا ہے اور عصر کا وقت جب آدمی کا اصل سایہ اس کے قد کے برابر ہو جائے (تب شروع ہوتا ہے) اور نماز عصر کا آخری وقت سورج کی رنگت زرد ہو جانے تک رہتا ہے اور نماز مغرب کا وقت (غروب آفتاب کے ساتھ ہی شروع ہوتا ہے اور) شفق کے غائب ہونے تک رہتا ہے عشاء کی نماز کا وقت رات کے درمیانے نصف تک ہے اور نماز فجر کا وقت صبح صادق کے آغاز سے شروع ہو کر طلوع شمس تک رہتا ہے“(مسلم) اور اسی (یعنی مسلم) میں بریدہ رضی اللہ عنہ سے عصر کے بارے میں مروی ہے کہ ”سورج سفید اور بالکل صاف حالت میں ہو“ اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”آفتاب بلند ہو“۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 129]
وعن أبي برزة الأسلمي رضي الله تعالى عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يصلي العصر ثم يرجع أحدنا إلى رحله في أقصى المدينة والشمس حية وكان يستحب أن يؤخر من العشاء وكان يكره النوم قبلها والحديث بعدها وكان ينفتل من صلاة الغداة حين يعرف الرجل جليسه وكان يقرأ بالستين إلى المائة. متفق عليه. وعندهما من حديث جابر: والعشاء أحيانا يقدمها وأحيانا يؤخرها: إذا راهم اجتمعوا عجل وإذا راهم أبطأوا أخر والصبح: كان النبي صلى الله عليه وآله وسلم يصليها بغلس. ولمسلم من حديث أبي موسى: فأقام الفجر حين انشق الفجر والناس لا يكاد يعرف بعضهم بعضا.
سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر (ایسے وقت) میں پڑھتے کہ ہم میں سے کوئی ایک مدینہ کی آخری حدود تک چلا جاتا پھر آفتاب زندہ (روشن، صاف) ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء کو تاخیر سے پڑھنا پسند فرماتے تھے۔ نماز عشاء سے پہلے سونے اور بعد از نماز عشاء (غیر ضروری) باتیں کرنے کو ناپسند اور مکروہ خیال فرماتے اور نماز فجر سے ایسے وقت فارغ ہوتے جب نمازی اپنے ساتھ والے شخص کو پہچان لیتا (عموماً) ساٹھ سے سو آیات کی تعداد تک تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم) اور جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء کبھی جلدی پڑھ لیتے اور کبھی تاخیر سے۔ (اس کی صورت یہ ہوتی کہ) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے کہ نمازی جمع ہو چکے ہیں تو جلد پڑھا دیتے اور اگر دیکھتے کہ نمازی دیر سے آتے ہیں تو تاخیر کرتے البتہ صبح کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے ہی میں پڑھتے (بخاری و مسلم) مسلم میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صبح کی نماز صبح صادق طلوع ہوتے ہی شروع فرما دیتے یہاں تک کہ اندھیرے کی وجہ سے صحابہ ایک دوسرے کو پہچان نہیں سکتے تھے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 130]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، مواقيت الصلاة، باب وقت العصر، حديث: 547، ومسلم المساجد، باب وقت العشاء وتأخيرها، وحديث جابر أخرجه البخاري، مواقيت الصلاة، حديث:560، ومسلم، المساجد، حديث:646، وحديث أبي موسي أخرجه مسلم، المساجد، حديث:614.»
حدیث نمبر: 131
وعن رافع بن خديج رضي الله عنه قال: كنا نصلي المغرب مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فينصرف أحدنا وإنه ليبصر مواقع نبله. متفق عليه
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نماز مغرب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے پھر ہم میں سے کوئی نماز سے فارغ ہو کر واپس ہوتا (تو اتنی روشنی ابھی باقی ہوتی تھی) کہ تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ لیتا۔ (بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 131]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، مواقيت الصلاة، باب وقت المغرب، حديث:559، ومسلم، المساجد، باب بيان أن أول وقت المغرب عند غروب الشمس، حديث:637.»
حدیث نمبر: 132
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: أعتم النبي صلى الله عليه وآله وسلم ذات ليلة بالعشاء حتى ذهب عامة الليل ثم خرج فصلى وقال: «إنه لوقتها لولا أن أشق على أمتي» رواه مسلم.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شب نماز عشاء تاخیر سے پڑھی کہ رات کا اول حصہ زیادہ تر گزر گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کیلئے تشریف لائے اور نماز پڑھی اور فرمایا کہ ”اگر میری امت پر (یہ وقت) گراں نہ ہوتا تو میں نماز عشاء کا یہی وقت مقرر کرتا۔“(مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 132]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، المساجد، باب وقت العشاء وتأخيرها، حديث:638.»
حدیث نمبر: 133
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إذا اشتد الحر فأبردوا بالصلاة فإن شدة الحر من فيح جهنم» متفق عليه.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب گرمی کی شدت ہو تو اس وقت نماز (ظہر) کو ٹھنڈا کر کے پڑھو۔ (یعنی ذرا انتظار کر لو کہ، وقت ذرا ٹھنڈا ہو جائے) کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کے سانس (لینے کی وجہ) سے ہے۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 133]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، مواقيت الصلاة، باب الإبراد بالظهر في شدة الحر، حديث:536، ومسلم، المساجد، باب استحباب الإبرارد بالظهر في شدة الحر...، حديث:615.»
حدیث نمبر: 134
وعن رافع بن خديج رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «أصبحوا بالصبح فإنه أعظم لأجوركم» . رواه الخمسة. وصححه الترمذي وابن حبان.
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نماز فجر صبح کے خوب واضح ہونے پر پڑھا کرو۔ یہ تمہارے اجر میں اضافہ کا موجب ہو گی۔“ اس کو پانچوں یعنی احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ ترمذی اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 134]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب وقت الصبح، حديث:424، والترمذي، الصلاة، حديث:154، والنسائي، الصلاة، حديث:549، وابن ماجه، الصلاة، حديث:672، وأحمد:4 /140، وابن حبان (الإحسان) حديث:1489*هذا حديث منسوخ كما بينته في نيل المقصود في التعليق علي سنن أبي داود، وغيره.»
حدیث نمبر: 135
وعن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «من أدرك من الصبح ركعة قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبح ومن أدرك ركعة من العصر قبل أن تغرب الشمس فقد أدرك العصر» متفق عليه. ولمسلم عن عائشة رضي الله عنها نحوه وقال «سجدة» بدل «ركعة» . ثم قال:"والسجدة إنما هي الركعة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”طلوع آفتاب سے پہلے جس نے نماز فجر کی ایک رکعت پا لی اس نے صبح کی نماز پا لی اور جس نے غروب آفتاب سے قبل نماز عصر کی ایک رکعت پا لی اس نے عصر کی نماز پا لی۔“(بخاری و مسلم) اور مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں بھی اسی طرح بیان ہے مگر اس میں «ركعة» کی جگہ «سجدة» کا لفظ ہے پھر کہا کہ ( «سجدة») سے مراد تو رکعت ہی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 135]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، مواقيت الصلاة، باب من أدرك من الفجر ركعة، حديث:579، ومسلم، المساجد، باب من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك تلك الصلاة، حديث:608، وحديث عائشة أخرجه مسلم، المساجد، حديث:609.»
حدیث نمبر: 136
وعن أبي سعيد الخدري رضي الله تعالى عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «لا صلاة بعد الصبح حتى تطلع الشمس ولا صلاة بعد العصر حتى تغيب الشمس» . متفق عليه. ولفظ مسلم: «لا صلاة بعد صلاة الفجر» . وله عن عقبة بن عامر: ثلاث ساعات كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ينهانا أن نصلي فيهن وأن نقبر فيهن موتانا:" حين تطلع الشمس بازغة حتى ترتفع وحين يقوم قائم الظهيرة حتى تزول الشمس وحين تتضيف الشمس للغروب". والحكم الثاني عند الشافعي من حديث أبي هريرة بسند ضعيف. وزاد:" إلا يوم الجمعة".وكذا لأبي داود عن أبي قتادة نحوه.
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا ہے کہ ”صبح کی نماز ادا کر لینے کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز (جائز) نہیں اور اسی طرح نماز عصر ادا کر چکنے کے بعد غروب آفتاب تک کوئی دوسری نماز (جائز) نہیں۔“(بخاری و مسلم) اور مسلم کے الفاظ ہیں ”کوئی نماز، نماز فجر کے بعد نہیں۔“ اور مسلم میں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تین اوقات ایسے ہیں جن میں نماز پڑھنے اور میت کی تدفین سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں منع فرمایا کرتے تھے۔ اول یہ کہ جب آفتاب طلوع ہو رہا ہو تاآنکہ وہ بلند ہو جائے۔ دوم جب سورج نصف آسمان پر ہو تاوقتیکہ وہ ڈھل نہ جائے اور سوم جس وقت سورج غروب ہونا شروع ہو۔ دوسرا حکم (یعنی نصف النہار کے وقت نماز کی ادائیگی ممنوع ہونا) امام شافعی رحمہ اللہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ضعیف سند سے روایت کیا ہے، مگر اس میں «إلا يوم الجمعة» کے الفاظ زیادہ ہیں۔ (یعنی نصف النہار کے وقت نماز نہ پڑھو مگر جمعہ کے روز پڑھ سکتے ہو) اور ابوداؤد نے بھی سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مانند روایت نقل کی ہے (جس میں جمعہ کے دن کا استثنا ہے)۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 136]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، مواقيت الصلاة، باب لاتتحري الصلاة قبل غروب الشمس، حديث:586، ومسلم، صلاة المسافرين، باب الأوقات التي نهي عن الصلاة فيها، حديث:827، وحديث عقبة بن عامر أخرجه مسلم، صلاة المسافرين، حديث:831، وحديث أبي هريرة أخرجه الشافعي في مسنده:1 /139 وإسناده ضعيف جدًا، وحديث أبي قتادة أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث: 1083 وسنده ضعيف، وللحديث شواهد ضعيفة* سند أبي داود منقطع وفيه ليث بن أبي سليم وهو ضعيف، ترك من أجل اختلاطه.»
حدیث نمبر: 137
وعن جبير بن مطعم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «يا بني عبد مناف لا تمنعوا أحدا طاف بهذا البيت وصلى أية ساعة شاء من ليل أو نهار» . رواه الخمسة. وصححه الترمذي وابن حبان.
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اے عبد مناف کی اولاد! بیت اللہ کے طواف کرنے والے کسی کو مت منع کرو (کہ وہ طواف نہ کرے) اور نہ کسی نماز پڑھنے والے کو (نماز پڑھنے سے منع کرو) خواہ وہ شب و روز کی کسی گھڑی میں یہ کام کرے۔“ اسے پانچوں یعنی احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ترمذی اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 137]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، المناسك، باب الطواف بعد العصر، حديث:1894، والترمذي، الحج، حديث:868، والنسائي، مناسك الحج، حديث:2927، وابن ماجه، الصلاة، حديث:1254، وأحمد:4 /80، وابن حبان (الإحسان): 3 /46، حديث: 1550.»
حدیث نمبر: 138
وعن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال:«الشفق الحمرة» .رواه الدارقطني وصححه ابن خزيمة وغيره وقفه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”شفق سے مراد سرخی ہے۔“ دارقطنی نے اسے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ وغیرہ نے کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 138]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدار قطني: 1 /269 وهو حديث شاذ، هارون بن سفيان لم أجد له ترجمة، وراه الثقات موقوفًا، وابن خزيمة:1 /182، 183، حديث:354.»