سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2079]
7. دنیا (کے مال) کی فراوانی اور اس میں شوق کرنے کا خوف۔
حدیث نمبر: 2080
سیدنا عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بحرین کی طرف وہاں کا جزیہ لینے کو بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی اور ان پر سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو حاکم مقرر کیا تھا۔ پھر سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ وہ مال بحرین سے لے کر آئے۔ یہ خبر انصار کو پہنچی تو انہوں نے فجر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر پھرے تو انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر تبسم فرمایا اور فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ تم نے سنا کہ ابوعبیدہ کے بحرین سے کچھ مال لے کر آنے کا سن لیا ہے؟ (اور تم اسی خیال سے آج جمع ہوئے کہ مال ملے گا) انہوں نے کہا کہ بیشک یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوش ہو جاؤ اور اس بات کی امید رکھو جس سے تم خوش ہوتے ہو۔ پس اللہ کی قسم! مجھے تم پر فقیری کا ڈر نہیں، لیکن مجھے اس کا ڈر ہے کہ دنیا تم پر کشادہ ہو جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ ہوئی تھی، پھر ایک دوسرے سے زیادہ شوق کرنے لگو جیسے اگلے لوگوں نے شوق کیا تھا اور وہ (شوق یا وہ دنیا) تمہیں ہلاک کر دے جیسے اس نے ان لوگوں کو ہلاک کیا تھا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2080]
8. دنیا (کے مال) فتح ہونے کے وقت آپس میں حسد اور مال میں شوق کرنے کا خوف۔
حدیث نمبر: 2081
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب فارس اور روم فتح ہو جائیں گے تو تم کیا کہو گے؟ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم وہی کہیں گے جو اللہ نے ہمیں حکم کیا (یعنی اس کا شکر ادا کریں گے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور کچھ نہیں کہتے، رشک کرو گے، پھر حسد کرو گے، پھر دوستوں سے بگاڑو گے، پھر دشمنی کرو گے یا ایسا ہی کچھ فرمایا۔ پھر مسکین مہاجرین کے پاس جاؤ گے اور ایک کو دوسروں کا حاکم بناؤ گے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2081]
9. دنیا (کی اہمیت) آخرت کے مقابلہ میں اتنی ہی ہے جیسے انگلی دریا میں ڈبوئی جائے۔
حدیث نمبر: 2082
سیدنا مستوراخی بنی فہر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم دنیا آخرت کے سامنے ایسے ہے جیسے تم میں سے کوئی یہ انگلی دریا میں ڈالے (اور یحییٰ نے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا)، پھر دیکھے کہ کتنی تری دریا میں سے لاتا ہے (تو جتنا پانی انگلی میں لگا رہتا ہے وہ گویا دنیا ہے اور وہ دریا آخرت ہے۔ یہ نسبت دنیا کو آخرت سے ہے اور چونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت دائمی باقی ہے، اس واسطے اس سے بھی کم ہے)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2082]
10. دنیا (کے مال) کے ذریعہ آزمائش کے متعلق اور (انسان) کیسے عمل کرے؟
حدیث نمبر: 2083
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل کے لوگوں میں تین آدمی تھے، ایک کوڑھی سفید داغ والا، دوسرا گنجا اور تیسرا اندھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمانا چاہا کہ تو ان کے پاس فرشتہ بھیجا۔ پس وہ سفید داغ والے کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پیاری ہے؟ اس نے کہا کہ اچھا رنگ اچھی کھال اور مجھ سے یہ بیماری دور ہو جائے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا۔ پس اس کی بدصورتی دور ہو گئی اور اس کو اچھا رنگ اور اچھی کھال دی گئی۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اونٹ یا گائے۔ (راوی حدیث اسحاق بن عبداللہ کو شک ہے کہ اس نے اونٹ مانگا یا گائے لیکن سفید داغ والے یا گنجے نے ان میں سے ایک نے اونٹ کہا اور دوسرے نے گائے)۔ پس اس کو دس مہینے کی گابھن اونٹنی دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے واسطے اس میں برکت دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا پس کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اچھے بال اور یہ بیماری جاتی رہے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ پھر اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کو اچھے بال ملے۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ گائے۔ پس اس کو گابھن گائے دے دی گئی۔ فرشتے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے مال میں برکت دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آنکھ میں بینائی کر دے تو میں اس کے سبب سے لوگوں کو دیکھوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اللہ نے اس کو بینائی دے دی۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ بھیڑ بکری۔ تو اس کو گابھن بکری ملی۔ پھر ان دونوں (اونٹنی اور گائے) اور اس (بکری) نے بچے دئیے۔ پھر ہوتے ہوتے سفید داغ والے کے جنگل بھر اونٹ ہو گئے اور گنجے کے جنگل بھر گائے بیل ہو گئے اور اندھے کے جنگل بھر بکریاں ہو گئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدت کے بعد وہی فرشتہ سفید داغ والے کے پاس اس کی پہلی صورت اور شکل میں آیا، اور کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں، سفر میں میرے تمام اسباب کٹ گئے (یعنی تدبیریں جاتی رہیں اور مال اور اسباب نہ رہا)، پس آج میرے لئے اللہ کی مدد کے سوا اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر منزل پر پہنچنا ممکن نہیں ہے، میں تجھ سے اس کے نام پر جس نے تجھے ستھرا رنگ اور ستھری کھال دی اور مال اونٹ دئیے، ایک اونٹ مانگتا ہوں جو میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے کہا کہ مجھ پر لوگوں کے بہت حق ہیں (یعنی قرضدار ہوں یا گھربار کے خرچ سے زیادہ مال نہیں جو تجھے دوں)۔ پھر فرشتہ نے کہا کہ البتہ میں تجھے پہچانتا ہوں بھلا کیا تو محتاج کوڑھی نہ تھا؟ کہ لوگ تجھ سے نفرت کرتے تھے، پھر اللہ نے اپنے فضل سے تجھے یہ مال دیا۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے تو یہ مال اپنے باپ دادا سے پایا ہے جو کئی پشت سے نقل ہو کر آیا ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھے ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو پہلے تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اس کی پہلی صورت اور شکل میں آیا اور اس سے ویسا ہی کہا جیسا سفید داغ والے سے کہا تھا اور اس نے بھی وہی جواب دیا جو سفید داغ والے نے دیا تھا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھے ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ اندھے کے پاس اس کی پہلی شکل و صورت میں گیا، اور کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں اور مسافر ہوں، میرے سفر میں میرے سب وسیلے اور تدبیریں کٹ گئیں، پس مجھے آج منزل پر اللہ کی مدد اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر پہنچنا مشکل ہے۔ پس میں تجھ سے اس اللہ کے نام پر، جس نے تجھے بینائی دی، ایک بکری مانگتا ہوں تاکہ وہ میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے کہا کہ بیشک میں اندھا تھا تو اللہ نے مجھے (بینائی والی) آنکھ دی، تو ان بکریوں میں سے جتنی چاہو لے جاؤ اور جتنی چاہو چھوڑ جاؤ۔ اللہ کی قسم! آج جو چیز تو اللہ کی راہ میں لے گا، میں تجھے مشکل میں نہ ڈالوں گا (یعنی تیرا ہاتھ نہ پکڑوں گا)۔ پس فرشتے نے کہا کہ اپنا مال اپنے پاس رکھو، تم تینوں آدمی صرف آزمائے گئے تھے۔ پس تجھ سے تو اللہ تعالیٰ راضی ہوا اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناخوش ہوا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2083]
11. دنیا (کے مال) کی کمی، اس پر صبر کرنے اور درختوں کے پتے کھانے کے متعلق۔
حدیث نمبر: 2084
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر مارا اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتے تھے اور ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتا مگر جلے ہوئے پتے اور ببول (یہ دونوں جنگلی درخت ہیں)، یہاں تک کہ ہم میں سے کوئی ایسا پاخانہ کرتا جیسے بکری کرتی ہے۔ پھر آج بنو اسد کے لوگ (یعنی سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی اولاد) مجھے دین کے لئے تنبیہہ کرتے ہیں یا سزا دینا چاہتے ہیں، ایسا ہو تو میں بالکل خسارے میں پڑا اور میری محنت ضائع ہو گئی۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2084]
حدیث نمبر: 2085
سیدنا خالد بن عمیر عدوی کہتے ہیں کہ(امیر بصرہ) عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد کہا کہ بعد حمد و صلوٰۃ کے معلوم ہو کہ دنیا نے ختم ہونے کی خبر دی؟ اور دنیا میں سے کچھ باقی نہ رہا مگر جیسے برتن میں کچھ بچا ہوا پانی رہ جاتا ہے جس کو اس کا صاحب پیتا ہے۔ اور تم دنیا سے ایسے گھر کو جانے والے ہو جس کو زوال نہیں، پس اپنی زندگی میں نیک عمل کر کے جاؤ، اس لئے کہ ہم سے بیان کیا گیا کہ پتھر جہنم کے اوپر کے کنارے سے ڈالا جائے گا اور ستر برس تک اس میں اترتا جائے گا اور اس کی تہہ کو نہ پہنچے گا۔ اللہ کی قسم! جہنم بھری جائے گی۔ کیا تم تعجب کرتے ہو؟ اور ہم سے بیان کیا گیا کہ جنت کے دروازے کی ایک طرف سے لے کر دوسری طرف کنارے تک چالیس برس کی راہ ہے اور ایک دن ایسا آئے گا کہ دروازہ لوگوں کے ہجوم سے بھرا ہوا ہو گا اور میں اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ میں سات شخصوں میں سے ساتواں شخص تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہمارا کھانا درخت کے پتوں کے سوا کچھ نہ تھا یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں (بوجہ پتوں کی حرارت اور سختی کے)۔ میں نے ایک چادر پائی اور اس کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کئے، ایک ٹکڑے کا میں نے تہبند بنایا اور دوسرے ٹکڑے کا سعد بن مالک نے۔ اب آج کے روز کوئی ہم میں سے ایسا نہیں ہے کہ کسی شہر کا حاکم نہ ہو اور میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو بڑا سمجھوں، لیکن اللہ کے نزدیک چھوٹا ہوں اور بیشک کسی پیغمبر کی نبوت (دنیا میں) ہمیشہ نہیں رہی بلکہ نبوت کا اثر (تھوڑی مدت میں) جاتا رہا؟ یہاں تک کہ اس کا آخری انجام یہ ہوا کہ وہ سلطنت ہو گئی۔ پس عنقریب تم ہمارے بعد آنے والے امراء کو دیکھو گے اور تجربہ کرو گے ان امیروں کا جو ہمارے بعد آئیں گے (کہ ان میں دین کی باتیں جو نبوت کا اثر ہے، نہ رہیں گی اور وہ بالکل دنیادار ہو جائیں گے)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2085]
12. میت (کے پاس) سے اس کے اہل و عیال اور مال واپس آ جاتے ہیں اور اس کا عمل اس کے پاس رہ جاتا ہے۔
حدیث نمبر: 2086
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردے کے ساتھ تین چیزیں (قبرستان میں) جاتی ہیں۔ پھر دو لوٹ آتی ہیں اور ایک رہ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ اس کے گھر والے اور مال اور عمل جاتے ہیں، سو گھر والے اور مال تو لوٹ آتے ہیں اور عمل اس کے ساتھ رہ جاتا ہے (پس عمل پوری رفاقت کرتا ہے اسی کے لئے انسان کو کوشش کرنی چاہئے۔ بال بچے مال دولت یہ سب جینے تک کے ساتھ ہیں مرنے کے بعد کچھ کام کے نہیں اور ان میں دل لگانا بےعقلی ہے)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2086]
13. اس کی طرف دیکھو جو تم سے (مال و اسباب میں) کم ہو۔
حدیث نمبر: 2087
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کو دیکھو جو تم سے (مال اور دولت میں اور حسن و جمال میں اور بال بچوں میں) کم ہے اور اس کو مت دیکھو جو (ان چیزوں میں) تم سے زیادہ ہے۔ اگر ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی نعمت کو اپنے اوپر حقیر نہ سمجھو گے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2087]
14. اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند کرتا ہے جو پرہیزگار، دولت مند اور ایک کونہ میں رہنے والا ہو۔
حدیث نمبر: 2088
سیدنا عامر بن سعد کہتے ہیں کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے اونٹوں میں تھے کہ ان کا بیٹا عمر آیا (یہ عمر بن سعد وہی ہے جو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے لڑا اور جس نے دنیا کے لئے اپنی آخرت برباد کی) جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اس کو دیکھا تو کہا کہ میں اس سوار کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں۔ پھر وہ اترا اور بولا کہ تم اپنے اونٹوں اور بکریوں میں اترے ہو اور لوگوں کو چھوڑ دیا وہ سلطنت کے لئے لڑ رہے ہیں؟ (یعنی خلافت اور حکومت کے لئے) سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اس کے سینہ پر مارا اور کہا کہ چپ رہ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ اس بندے کو دوست رکھتا ہے جو پرہیزگار ہے، مالدار ہے اور (فتنے فساد کے وقت) ایک کونے میں چھپا بیٹھا ہے۔ (اور اپنا ایمان نہیں بگاڑتا۔ افسوس ہے کہ عمر بن سعد نے اپنے باپ کی نصیحت کو فراموش کیا)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2088]