الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


مختصر صحيح مسلم کل احادیث (2179)
حدیث نمبر سے تلاش:

مختصر صحيح مسلم
فتنوں کا بیان
حدیث نمبر: 2047
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال بائیں آنکھ کا کانا ہو گا، گھنے بالوں والا ہو گا۔ اس کے ساتھ باغ ہو گا اور آگ ہو گی۔ پس اس کی آگ تو باغ ہے اور اس کا باغ آگ ہے۔ (علماء نے کہا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لئے ایک آزمائش ہے تاکہ حق کو حق کر دے اور جھوٹ کو جھوٹ پھر اس کو رسوا کرے اور لوگوں میں اس کی عاجزی ظاہر کرے)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2047]
حدیث نمبر: 2048
نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح کو دجال کا ذکر کیا تو کبھی اس کو گھٹایا اور کبھی بڑھایا (یعنی کبھی اس کی تحقیر کی اور کبھی اس کے فتنہ کو بڑا کہا یا کبھی بلند آواز سے گفتگو کی اور کبھی پست آواز سے)، یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ دجال کھجور کے درختوں کے جھنڈ میں ہے۔ پھر جب شام کے وقت ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے چہروں پر اس کا اثر معلوم کیا (یعنی ڈر اور خوف)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ نے دجال کا ذکر کیا اور اس کو گھٹایا اور بڑھایا، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہو گیا کہ دجال ان کھجور کے درختوں میں موجود ہے (یعنی اس کا آنا بہت قریب ہے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے دجال کے سوا اور باتوں کا تم پر خوف زیادہ ہے (یعنی فتنوں کا اور آپس کی لڑائیوں کا)، اگر دجال نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود ہوا تو تم سے پہلے میں اس کا مقابل ہوں گا (اس سے لڑائی کروں گا) اور تمہیں اس کے شر سے بچاؤں گا اور اگر وہ نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود نہ ہوا تو ہر مرد (مسلمان) اپنی طرف سے اس سے مقابلہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ اور نگہبان ہو گا۔ البتہ دجال تو جوان، گھونگھریالے بالوں والا ہے، اس کی آنکھ ابھری ہوئی ہے گویا کہ میں اس کی مشابہت عبدالعزیٰ بن قطن کے ساتھ دیتا ہوں۔ پس تم میں سے جو شخص دجال کو پائے، اس کو چاہئے کہ سورۃ الکہف کی شروع کی آیتیں اس پر پڑھے۔ یقیناً وہ شام اور عراق کے درمیان کی راہ سے نکلے گا تو اپنے دائیں اور بائیں ہاتھ فساد پھیلائے گا۔ اے اللہ کے بندو! ایمان پر قائم رہنا۔ صحابہ بولے کہ یا رسول اللہ! وہ زمین پر کتنی مدت رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس دن تک، ان میں سے ایک دن ایک سال کے برابر ہو گا، ایک دن ایک مہینے کے برابر، ایک دن ایک ہفتہ کے برابر اور باقی دن جیسے یہ تمہارے دن ہیں (تو ہمارے دنوں کے حساب سے دجال ایک برس دو مہینے اور چودہ دن تک رہے گا)۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! جو دن سال بھر کے برابر ہو گا، اس دن ہمیں ایک ہی دن کی نمازیں کفایت کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، تم اس دن میں (سال کی نمازوں کا)۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس کی چال زمین میں کیسی ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس بادل کی طرح جس کو ہوا پیچھے سے اڑاتی ہے۔ پس وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور ان کو دعوت دے گا، وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی بات مانیں گے۔ پس وہ آسمان کو حکم کرے گا تو وہ پانی برسائے گا اور زمین کو حکم کرے گا تو وہ گھاس اور اناج اگا دے گی۔ شام کو ان کے جانور آئیں گے تو ان کے کوہان پہلے سے زیادہ لمبے ہوں گے، تھن کشادہ ہوں گے اور کوکھیں تنی ہوئی (یعنی خوب موٹی ہو کر)۔ پھر دجال دوسری قوم کے پاس آئے گا۔ ان کو بھی دعوت دے گا، لیکن وہ اس کی بات کو نہ مانیں گے۔ تو ان کی طرف سے ہٹ جائے گا اور ان پر قحط سالی اور خشکی ہو گی۔ ان کے ہاتھوں میں ان کے مالوں سے کچھ نہ رہے گا۔ اور دجال ویران زمین پر نکلے گا تو اس سے کہے گا کہ اے زمین! اپنے خزانے نکال، تو وہاں کے مال اور خزانے نکل کر اس کے پاس ایسے جمع ہو جائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں سردار مکھی کے گرد ہجوم کرتی ہیں۔ پھر دجال ایک جوان مرد کو بلائے گا اور اس کو تلوار مار کر دو ٹکڑے کر ڈالے گا جیسے نشانہ دو ٹوک ہو جاتا ہے، پھر اس کو زندہ کر کے پکارے گا، پس وہ جوان دمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا سامنے آئے گا۔ سو دجال اسی حال میں ہو گا کہ اچانک اللہ تعالیٰ سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا۔ عیسیٰ علیہ السلام دمشق کے شہر میں مشرق کی طرف سفید مینار کے پاس اتریں گے، وہ زرد رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے ہوں گے اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے ہوں گے۔ جب عیسیٰ علیہ السلام اپنا سر جھکائیں گے تو پسینہ ٹپکے گا اور جب اپنا سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح بوندیں بہیں گی۔ جس کافر تک عیسیٰ علیہ السلام کے دم کی خوشبو پہنچے گی، وہ مر جائے گا اور ان کے دم کا اثر وہاں تک پہنچے گا جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ اس کو باب لد (نامی پہاڑ جو کہ شام میں ہے) پر موجود پا کر اس کو قتل کر دیں گے۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کے پاس وہ لوگ آئیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے شر سے بچایا ہو گا۔ پس وہ شفقت سے ان کے چہروں کو سہلائیں گے اور ان کو ان درجوں کی خبر دیں گے جو جنت میں ان کے رکھے ہیں۔ وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندے نکالے ہیں کہ کسی کو ان سے لڑنے کی طاقت نہیں، تم میرے مسلمان بندوں کو طور (پہاڑ) کی طرف پناہ میں لے جاؤ اور اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر ایک اونچان سے نکل پڑیں گے۔ ان کے پہلے لوگ طبرستان کے دریا پر گزریں گے اور اس کا سارا پانی پی لیں گے۔ پھر ان میں سے پچھلے لوگ جب وہاں آئیں گے تو کہیں گے کہ کبھی اس دریا میں پانی بھی تھا۔ (پھر چلیں گے یہاں تک کہ اس پہاڑ تک پہنچیں گے جہاں درختوں کی کثرت ہے یعنی بیت المقدس کا پہاڑ تو وہ کہیں گے کہ البتہ ہم زمین والوں کو تو قتل کر چکے، اب آؤ آسمان والوں کو قتل کریں تو اپنے تیر آسمان کی طرف چلائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان تیروں کو خون میں بھر کر لوٹا دے گا، وہ یہ سمجھیں گے کہ آسمان کے لوگ بھی مارے گئے یہ مضمون اس روایت میں نہیں ہے بلکہ اس کے بعد کی روایت سے لیا گیا ہے) اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے اصحاب بند رہیں گے یہاں تک کہ ان کے نزدیک بیل کا سر تمہاری آج کی سو اشرفی سے افضل ہو گا (یعنی کھانے کی نہایت تنگی ہو گی)۔ پھر اللہ کے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی دعا کریں گے، پس اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کے لوگوں پر عذاب بھیجے گا تو ان کی گردنوں میں کیڑا پیدا ہو گا تو صبح تک سب مر جائیں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے۔ پھر اللہ کے رسول عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی زمین پر اتریں گے تو زمین میں ایک بالشت برابر جگہ ان کی سڑاند اور گندگی سے خالی نہ پائیں گے (یعنی تمام زمین پر ان کی سڑی ہوئی لاشیں پڑی ہوں گی) پھر اللہ کے رسول عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بڑے اونٹوں کی گردن کے برابر پرندے بھیجے گا، وہ ان کو اٹھا لے جائیں گے اور وہاں پھینک دیں گے جہاں اللہ کا حکم ہو گا، پھر اللہ تعالیٰ ایسا پانی برسائے گا کہ پھر زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھل جما اور اپنی برکت کو پھیر دے اور اس دن ایک انار کو ایک گروہ کھائے گا اور اس کے چھلکے کو بنگلہ سا بنا کر اس کے سایہ میں بیٹھیں گے اور دودھ میں برکت ہو گی، یہاں تک کہ دودھ والی اونٹنی آدمیوں کے بڑے گروہ کو کفایت کرے گی اور دودھ والی گائے ایک برادری کے لوگوں کو کفایت کرے گی اور دودھ والی بکری ایک پورے خاندان کو کفایت کرے گی۔ پس لوگ اسی حالت میں ہوں گے کہ یکایک اللہ تعالیٰ ایک پاک ہوا بھیجے گا، وہ ان کی بغلوں کے نیچے لگے گی اور اثر کر جائے گی تو ہر مومن اور مسلم کی روح کو قبض کرے گی اور برے بدذات لوگ باقی رہ جائیں گے، گدھوں کی طرح سرعام عورتوں سے جماع کریں گے اور ان پر قیامت قائم ہو گی۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2048]
حدیث نمبر: 2049
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے ذکر میں ایک لمبی حدیث بیان کی اور اس میں یہ بھی بیان کیا کہ اس پر مدینہ کی گھاٹی میں گھسنا حرام ہو گا اور وہ مدینہ کے قریب ایک پتھریلی زمین پر آئے گا۔ پھر اس کے پاس ایک شخص جائے گا جو سب لوگوں میں بہتر ہو گا، وہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کا ذکر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث میں کیا ہے۔ دجال لوگوں سے کہے گا کہ بھلا اگر میں اس کو مار ڈالوں، پھر زندہ کر دوں تو کیا تمہیں اس بارے میں کچھ شک رہے گا؟ وہ کہیں گے کہ نہیں۔ دجال اس شخص کو قتل کرے گا اور پھر اس کو زندہ کر دے گا۔ پس جب وہ اس کو زندہ کرے گا تو کہے گا کہ اللہ کی قسم! مجھے پہلے تیرے بارے میں اتنا یقین نہ تھا جتنا اب ہے۔ (یعنی اب تو یقین ہو گیا کہ تو دجال ہے) پھر دجال اس کو قتل کرنا چاہے گا لیکن قتل نہ کر سکے گا۔ راوی ابواسحٰق نے کہا کہ یہ آدمی خضر علیہ السلام ہیں۔ (لیکن یہ ثابت نہیں ہے بلکہ دلائل اس پر شاہد ہیں کہ خضر علیہ السلام وفات پا چکے ہیں)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2049]
حدیث نمبر: 2050
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال نکلے گا اور مسلمانوں میں سے ایک شخص اس کی طرف چلے گا تو راستے میں اس کو دجال کے ہتھیار بند لوگ ملیں گے۔ وہ اس سے پوچھیں گے کہ تو کہاں جاتا ہے؟ وہ بولے گا کہ میں اسی شخص کے پاس جاتا ہوں جو نکلا ہے۔ وہ کہیں گے کہ تو کیا ہمارے مالک پر ایمان نہیں لایا؟ وہ کہے گا کہ ہمارا مالک چھپا نہیں ہے۔ دجال کے لوگ کہیں گے کہ اس کو مار ڈالو۔ پھر آپس میں کہیں گے کہ ہمارے مالک نے تو کسی کو مارنے سے منع کیا ہے جب تک اس کے سامنے نہ لے جائیں، پھر اس کو دجال کے پاس لے جائیں گے۔ جب وہ دجال کو دیکھے گا تو کہے گا کہ اے لوگو! یہ وہی دجال ہے جس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔ دجال اپنے لوگوں کو حکم دے گا تو اس کے سر اور پیٹھ اور پیٹ پر مارا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا کہ اس کو پکڑو اور اس کا سر پھوڑ دو۔ پھر دجال اس سے پوچھے گا کہ تو میرے اوپر (یعنی میری خدائی پر) یقین نہیں کرتا؟ وہ کہے گا کہ تو جھوٹا مسیح ہے۔ پھر دجال حکم دے گا تو وہ آرے سے سر سے لے کر دونوں پاؤں تک چیرا جائے گا، یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو جائے گا۔ پھر دجال ان دونوں ٹکڑوں کے بیچ میں جائے گا اور کہے گا کہ اٹھ کھڑا ہو۔ وہ شخص (زندہ ہو کر سیدھا) اٹھ کر کھڑا ہو جائے گا۔ پھر اس سے پوچھے گا کہ اب تو میرے اوپر ایمان لایا؟ وہ کہے گا کہ مجھے تو اور زیادہ یقین ہوا کہ تو دجال ہے۔ پھر لوگوں سے کہے گا کہ اے لوگو! اب دجال میرے سوا کسی اور سے یہ کام نہ کر سکے گا (یعنی اب کسی کو جلا نہیں سکتا)۔ پھر دجال اس کو ذبح کرنے کے لئے پکڑے گا تو اس کے گلے سے لے کر ہنسلی تک تانبے کا بن جائے گا اور وہ اسے ذبح نہ کر سکے گا، پھر اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ کر پھینک دے گا۔ لوگ سمجھیں گے کہ اس کو آگ میں پھینک دیا حالانکہ وہ جنت میں ڈالا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ شخص سب لوگوں میں اللہ رب العالمین کے نزدیک بڑا شہید ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2050]
حدیث نمبر: 2051
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دجال کے بارے میں اتنا نہیں پوچھا جتنا میں نے پوچھا۔ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو کیوں فکر کرتا ہے؟ دجال تجھے نقصان نہ پہنچائے گا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ کھانا ہو گا اور نہریں ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہو گا، لیکن اللہ تعالیٰ پر تو اس سے زیادہ آسان ہے (اللہ تعالیٰ اس کو اس سے بھی زیادہ اختیار دے سکتا ہے اس پر کیا مشکل ہے، یعنی جو اس کے پاس ہو گا وہ اس سے مومنوں کو گمراہ نہ کر سکے گا) [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2051]
حدیث نمبر: 2052
سیدنا نعمان بن سالم کہتے ہیں کہ میں نے یعقوب بن عاصم بن عروہ بن مسعود ثقفی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے سنا، اور ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یہ حدیث کیا ہے جو تم بیان کرتے ہو کہ قیامت اتنی مدت میں ہو گی۔ انہوں نے (تعجب سے) کہا کہ سبحان اللہ یا لا الٰہ الا اللہ یا اسی طرح کا کوئی اور کلمہ کہا اور پھر کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ اب میں کسی سے کوئی حدیث بیان نہ کروں (کیونکہ لوگ کچھ کہتے ہیں اور مجھے بدنام کرتے ہیں)۔ میں نے تو یہ کہا تھا کہ تم تھوڑے دنوں کے بعد ایک بڑا حادثہ دیکھو گے جو گھر کو جلائے گا اور وہ ضرور ہو گا۔ پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں دجال نکلے گا اور چالیس تک رہے گا۔ میں نہیں جانتا کہ چالیس دن فرمایا یا چالیس مہینے یا چالیس برس۔ پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا اور ان کی شکل و صورت عروہ بن مسعود کی سی ہے۔ وہ دجال کو ڈھونڈھیں گے اور اس کو قتل کریں گے پھر سات برس تک لوگ ایسے رہیں گے کہ دو آدمیوں میں کوئی دشمنی نہ ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا تو زمین پر کوئی ایسا نہ رہے گا جس کے دل میں رتی برابر ایمان یا بھلائی ہو مگر یہ ہوا اس کی جان نکال لے گی، یہاں تک کہ اگر کوئی تم میں سے پہاڑ کے کلیجہ میں گھس جائے تو وہاں بھی یہ ہوا پہنچ کر اس کی جان نکال لے گی۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ پھر برے لوگ دنیا میں رہ جائیں گے، چڑیوں کی طرح جلد باز یا بے عقل اور درندوں کی طرح ان کے اخلاق ہوں گے۔ نہ وہ اچھی بات کو اچھا سمجھیں گے اور نہ بری بات کو برا۔ پھر شیطان ایک صورت بنا کر ان کے پاس آئے گا اور کہے گا کہ کیا تم میری بات کو قبول نہیں کرتے؟ وہ کہیں گے کہ پھر تو ہمیں کیا حکم دیتا ہے؟ شیطان کہے گا کہ بت پرستی کرو۔ وہ بت پوجیں گے اور اس کے باوجود ان کی روزی کشادہ ہو گی اور مزے سے زندگی گزاریں گے۔ پھر صور پھونکا جائے گا اور اس کو کوئی نہ سنے گا مگر ایک طرف سے گردن جھکائے گا اور دوسری طرف سے اٹھے گا (یعنی بیہوش ہو کر گر پڑے گا) اور سب سے پہلے صور کو وہ سنے گا جو اپنے اونٹوں کے حوض کو لیپ رہا ہو گا۔ وہ بیہوش ہو جائے گا اور دوسرے لوگ بھی بیہوش ہو جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ پانی برسائے گا جو نطفہ کی طرح ہو گا، اس سے لوگوں کے بدن اگ آئیں گے۔ پھر صور پھونکا جائے گا تو سب لوگ کھڑے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے۔ پھر پکارا جائے گا کہ اے لوگو! اپنے مالک کے پاس آؤ اور ان کو کھڑا کرو، بیشک ان سے سوال ہو گا (الصافات: 24)۔ پھر کہا جائے گا کہ ایک لشکر کو دوزخ کے لئے نکال لو۔ پوچھا جائے گا کہ کتنے لوگ؟ حکم ہو گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے (اور ہر ہزار میں سے ایک جنتی ہو گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی وہ دن ہے جو بچوں کو (ہیت اور مصیبت سے یا درازی سے) بوڑھا کر دے گا اور یہی وہ دن ہے جب پنڈلی کھلے گی (یعنی سختی ہو گی یا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا جس سے مومن سجدے میں گر جائیں گے)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2052]
47. (قیامت کی) نشانیوں میں سے پہلی یہ ہے کہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہو گا۔
حدیث نمبر: 2053
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث یاد رکھی ہے جس کو میں کبھی نہیں بھولا۔ میں نے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ قیامت کی پہلی نشانیوں میں سے سورج کا مغرب کی طرف سے نکلنا ہے اور چاشت کے وقت لوگوں پر زمین کے جانور کا نکلنا ہے اور جو نشانی ان دونوں میں پہلے ہو گی تو دوسری بھی اس کے بعد جلد ہی ظاہر ہو گی۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2053]
48. دجال کی صفت، اس کے (دنیا میں) نکلنے اور جساسہ کی حدیث کے متعلق۔
حدیث نمبر: 2054
سیدنا عامر بن شراحیل شعبی (شعب ہمدان) سے روایت ہے، انہوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے جو کہ سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں اور ان عورتوں میں سے تھیں جنہوں نے پہلے ہجرت کی تھی، کہا کہ مجھ سے ایک ایسی حدیث بیان کرو جو تم نے رسول اللہ اسے بلاواسطہ سنی ہو۔ وہ بولیں کہ اچھا، اگر تم یہ چاہتے ہو تو میں بیان کروں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہاں بیان کرو۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے ابن مغیرہ سے نکاح کیا اور وہ ان دنوں قریش کے عمدہ جوانوں میں سے تھے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلے ہی جہاد میں شہید ہو گئے۔ جب میں بیوہ ہو گئی تو مجھے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے چند کے ساتھ آ کر نکاح کا پیغام دیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مولیٰ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے لئے پیغام بھیجا۔ اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث سن چکی تھی کہ جو شخص مجھ سے محبت رکھے، اس کو چاہئے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اس بارے میں گفتگو کی تو میں نے کہا کہ میرے کام کا اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس سے چاہیں نکاح کر دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ام شریک کے گھر چلی جاؤ اور ام شریک انصار میں ایک مالدار عورت تھی اور اللہ کی راہ میں بہت زیادہ خرچ کرتی تھیں، اس کے پاس مہمان اترتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ بہت اچھا، میں ام شریک کے پاس چلی جاؤں گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام شریک کے پاس مت جا اس کے پاس مہمان بہت آتے ہیں اور مجھے برا معلوم ہوتا ہے کہ کہیں تیری اوڑھنی گر جائے یا تیری پنڈلیوں پر سے کپڑا ہٹ جائے اور لوگ تیرے بدن میں سے وہ دیکھیں جو تجھے برا لگے گا۔ تم اپنے چچا کے بیٹے عبداللہ بن عمرو ابن ام مکتوم کے پاس چلی جاؤ اور وہ بنی فہر میں سے ایک شخص تھا اور فہر قریش کی ایک شاخ ہے اور وہ اس قبیلہ میں سے تھا جس میں سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ پھر سیدہ فاطمہ نے کہا کہ میں ان کے گھر میں چلی گئی۔ جب میری عدت گزر گئی تو میں نے پکارنے والے کی آواز سنی اور وہ پکارنے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منادی تھا، وہ پکار رہا تھا کہ نماز کے لئے جمع ہو جاؤ۔ میں بھی مسجد کی طرف نکلی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں اس صف میں تھی جس میں عورتیں لوگوں کے پیچھے تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی تو منبر پر بیٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر ایک آدمی اپنی نماز کی جگہ پر رہے۔ پھر فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں اکٹھا کیا ہے؟ صحابہ بولے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں نے تمہیں رغبت دلانے یا ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا، بلکہ اس لئے جمع کیا کہ تمیم داری ایک نصرانی تھا، وہ آیا اور اس نے بیعت کی اور مسلمان ہوا اور مجھ سے ایک حدیث بیان کی جو اس حدیث کے موافق ہے جو میں تم سے دجال کے بارے میں بیان کیا کرتا تھا۔ اس نے بیان کیا کہ وہ یعنی تمیم سمندر کے جہاز میں تیس آدمیوں کے ساتھ سوار ہوا جو لخم اور جذام کی قوم میں سے تھے، پس ان سے ایک مہینہ بھر سمندر کی لہریں کھیلتی رہیں۔ پھر وہ لوگ سمندر میں ڈوبتے سورج کی طرف ایک جزیرے کے کنارے جا لگے۔ پس وہ جہاز سے پلوار (یعنی چھوٹی کشتی) میں بیٹھے اور جزیرے میں داخل ہو گئے وہاں ان کو ایک جانور ملا جو کہ بھاری دم، بہت بالوں والا کہ اس کا اگلا پچھلا حصہ بالوں کے ہجوم سے معلوم نہ ہوتا تھا۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ اے کمبخت تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ جاسوس کیا؟ اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے، کہ وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔ تمیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب اس نے مرد کا نام لیا تو ہم اس جانور سے ڈرے کہ کہیں شیطان نہ ہو۔ تمیم نے کہا کہ پھر ہم دوڑتے ہوئے (یعنی جلدی) دیر میں داخل ہوئے۔ دیکھا تو وہاں ایک بڑے قد کا آدمی ہے کہ ہم نے اتنا بڑا آدمی اور ویسا سخت جکڑا ہوا کبھی نہیں دیکھا۔ اس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور دونوں زانوں سے ٹخنوں تک لوہے سے جکڑا ہوا تھا۔ ہم نے کہا کہ اے کمبخت! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا تم میری خبر پر قابو پا گئے ہو (یعنی میرا حال تو تم کو اب معلوم ہو جائے گا)، تم اپنا حال بتاؤ کہ تم کون ہو؟ لوگوں نے کہا کہ ہم عرب لوگ ہیں، سمندر میں جہاز میں سوار ہوئے تھے، لیکن جب ہم سوار ہوئے تو سمندر کو جوش میں پایا پھر ایک مہینے کی مدت تک لہر ہم سے کھیلتی رہی، پھر ہم اس جزیرے میں آ لگے تو چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر جزیرے میں داخل ہوئے، پس ہمیں ایک بھاری دم کا اور بہت بالوں والا جانور ملا، ہم اس کے بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا پچھلا حصہ نہ پہچانتے تھے۔ ہم نے اس سے کہا کہ اے کمبخت! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں۔ ہم نے کہا کہ جاسوس کیا؟ اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے اور وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔ پس ہم تیری طرف دوڑتے ہوئے آئے اور ہم اس سے ڈرے کہ کہیں بھوت پریت نہ ہو۔ پھر اس مرد نے کہا کہ مجھے بیسان کے نخلستان کی خبر دو۔ ہم نے کہا کہ تو اس کا کون سا حال پوچھتا ہے؟ اس نے کہا کہ میں اس کے نخلستان کے بارے میں پوچھتا ہوں کہ پھلتا ہے؟ ہم نے اس سے کہا کہ ہاں پھلتا ہے۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو عنقریب وہ نہ پھلے گا۔ اس نے کہا کہ مجھے طبرستان کے دریا کے بارے میں بتلاؤ۔ ہم نے کہا کہ تو اس دریا کا کون سا حال پوچھتا ہے؟ وہ بولا کہ اس میں پانی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اس میں بہت پانی ہے۔ اس نے کہا کہ البتہ اس کا پانی عنقریب ختم ہو جائے گا۔ پھر اس نے کہا کہ مجھے زغر کے چشمے کے بارے میں خبر دو۔ لوگوں نے کہا کہ اس کا کیا حال پوچھتا ہے؟ اس نے کہا کہ اس چشمہ میں پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس پانی سے کھیتی کرتے ہیں؟ ہم نے اس سے کہا کہ ہاں! اس میں بہت پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ مجھے امییّن کے پیغمبر کے بارے میں خبر دو کہ وہ کیا رہے؟ لوگوں نے کہا کہ وہ مکہ سے نکلے ہیں اور مدینہ میں گئے ہیں۔ اس نے کہا کہ کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ انہوں نے عربوں کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے کہا کہ وہ اپنے گرد و پیش کے عربوں پر غالب ہوئے اور انہوں نے ان کی اطاعت کی۔ اس نے کہا کہ یہ بات ہو چکی؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ پیغمبر کے تابعدار ہوں۔ اور البتہ میں تم سے اپنا حال کہتا ہوں کہ میں مسیح (دجال) ہوں۔ اور البتہ وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے نکلنے کی اجازت ہو گی۔ پس میں نکلوں گا اور سیر کروں گا اور کسی بستی کو نہ چھوڑوں گا جہاں چالیس رات کے اندر نہ جاؤں، سوائے مکہ اور طیبہ کے، کہ وہاں جانا مجھ پر حرام ہے یعنی منع ہے۔ جب میں ان دونوں بستیوں میں سے کسی کے اندر جانا چاہوں گا تو میرے آگے ایک فرشتہ بڑھ آئے گا اور اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہو گی، وہ مجھے وہاں جانے سے روک دے گا اور البتہ اس کے ہر ایک ناکہ پر فرشتے ہوں گے جو اس کی چوکیداری کریں گے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چھڑی منبر پر مار کر فرمایا کہ طیبہ یہی ہے، طیبہ یہی ہے، طیبہ یہی ہے۔ یعنی طیبہ سے مراد مدینہ منورہ ہے۔ خبردار رہو! بھلا میں تم کو اس حال کی خبر دے نہیں چکا ہوں؟ تو اصحاب نے کہا کہ ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمیم رضی اللہ عنہ کی بات اچھی لگی جو اس چیز کے موافق ہوئی جو میں نے تم لوگوں سے دجال اور مدینہ اور مکہ کے حال سے فرما دیا تھا۔ خبردار ہو کہ وہ شام یا یمن کے سمندر میں ہے؟ نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے (مشرق کی طرف بحر ہند ہے شاید دجال بحر ہند کے کسی جزیرہ میں ہو) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ حدیث میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد رکھی ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2054]
حدیث نمبر: 2055
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شہر ایسا نہیں ہے جس میں دجال نہ آئے سوائے مکہ اور مدینہ کے اور کوئی راستہ نہیں ہو گا مگر فرشتے ان کے ہر راستے پر صف باندھے کھڑے ہوں گے اور چوکیداری کریں گے۔ پھر دجال (مدینہ کے قریب) سبخۃ مقام پر اترے گا اور مدینہ تین بار کانپے گا (یعنی تین بار اس میں زلزلہ ہو گا) اور جو اس میں کافر یا منافق ہو گا، وہ نکل کر دجال کے پاس چلا جائے گا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2055]
49. اصبہان شہر کے ستر ہزار یہودی دجال کی پیروی کریں گے۔
حدیث نمبر: 2056
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اصفہان کے ستر ہزار یہودی سیاہ چادریں اوڑھے ہوئے دجال کی پیروی کریں گے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2056]

Previous    3    4    5    6    7    8    9    Next