1. فتنوں کے قریب ہونے اور ہلاکت کے بیان میں جب کہ برائی زیادہ ہو جائے۔
حدیث نمبر: 1987
ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے اس حال میں بیدار ہوئے کہ آپ فرما رہے تھے ((لا الٰہ الا اللہ))، خرابی ہے عرب کی اس آفت سے جو نزدیک ہے آج یاجوج اور ماجوج کی آڑ اتنی کھل گئی اور (راوی حدیث) سفیان نے دس کا ہندسہ بنایا (یعنی انگوٹھے اور کلمہ کی انگلی سے حلقہ بنایا) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم اس حال میں بھی تباہ ہو جائیں گے جبکہ ہم میں نیک لوگ موجود ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! جب برائی زیادہ ہو گی (یعنی فسق و فجور یا زنا یا اولاد زنا یا معاصی)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1987]
حدیث نمبر: 1988
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج یاجوج اور ماجوج کی آڑ کی دیوار میں سے اتنا کھل گیا (یعنی اس میں اتنا سوراخ ہو گیا) اور (راوی حدیث) وہیب نے اس کو انگلیوں سے نوے کا ہندسہ بنا کر بیان کیا (شاید یہ حدیث پہلے کی ہو اور ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کے بعد کی اور شاید مقصود تمثیل ہو نہ کہ حد بیان کی گئی ہو)[مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1988]
2. بارش کے قطروں کی طرح نازل ہونے والے فتنے۔
حدیث نمبر: 1989
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے محلوں میں سے ایک محل (یا قلعہ) پر چڑھے پھر فرمایا: کیا جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں، تم بھی دیکھ رہے ہو؟ بیشک میں تمہارے گھروں میں فتنوں کی جگہیں اس طرح دیکھتا ہوں جیسے بارش کے گرنے کی جگہوں کو۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1989]
3. دلوں پر فتنوں کا پیش کیا جانا اور فتنوں کا دلوں میں داغ پیدا کر دینا۔
حدیث نمبر: 1990
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے کہا: تم میں سے کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ بعض لوگوں نے کہا کہ ہاں! ہم نے سنا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ شاید تم فتنوں سے وہ فتنے سمجھے ہو جو آدمی کو اس کے گھربار اور مال اور ہمسائے میں ہوتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان فتنوں کا کفارہ تو نماز، روزے اور زکوٰۃ سے ہو جاتا ہے، لیکن تم میں سے ان فتنوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس نے سنا ہے جو دریا کی موجوں کی طرح امڈ کر آئیں گے؟ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ خاموش ہو گئے میں نے کہا کہ میں نے سنا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تو نے سنا ہے تیرا باپ بہت اچھا تھا۔ (یہ ایک دعائیہ کلمہ ہے جو عرب لوگ استعمال کرتے ہیں) سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ فتنے دلوں پر ایک کے بعد ایک، ایک کے بعد ایک ایسے آئیں گے جیسے بورئیے کی تیلیاں ایک کے بعد ایک ہوتی ہیں۔ پھر جس دل میں فتنہ رچ جائے گا، اس میں ایک کالا داغ پیدا ہو گا اور جو دل اس کو نہ مانے گا تو اس میں ایک سفید نورانی دھبہ ہو گا، یہاں تک کہ اسی طرح کالے اور سفید دھبے ہوتے ہوتے دو قسم کے دل ہو جائیں گے۔ ایک تو خالص سفید دل چکنے پتھر کی طرح کہ آسمان و زمین کے قائم رہنے تک اسے کوئی فتنہ نقصان نہ پہنچائے گا۔ دوسرے کالا سفیدی مائل یا الٹے کوزے کی طرح جو نہ کسی اچھی بات کو اچھی سمجھے گا نہ بری بات کو بری، مگر وہی جو اس کے دل میں بیٹھ جائے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ تمہارے اور اس فتنے کے درمیان میں ایک بند دروازہ ہے، مگر نزدیک ہے کہ وہ ٹوٹ جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تیرا باپ نہ ہو (یہ بھی ایک کلمہ ہے جسے عرب عام طور پر کسی کام پر متنبہ کرنے یا مستعد کرنے کو کہتے ہیں)، کیا وہ ٹوٹ جائے گا؟ کھل جاتا تو شاید پھر بند ہو جاتا۔ میں نے کہا کہ نہیں ٹوٹ جائے گا اور میں نے ان سے حدیث بیان کی کہ یہ دروازہ ایک شخص ہے، جو مارا جائے گا یا مر جائے گا۔ پھر یہ حدیث کوئی غلط (دل سے بنائی ہوئی بات) نہ تھی۔ ابوخالد نے کہا کہ میں نے سعید بن طارق سے پوچھا کہ ((”اسود مربادا“)) سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا کہ سیاہی میں سفیدی کی شدت۔ میں نے کہا کہ ((”کالکوز مجخیا“)) سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا کہ اوندھا کیا ہوا کوزا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1990]
4. لوگوں کو فتنے میں ڈالنے کے لئے شیطان کا اپنے لشکروں کو بھیجنا۔
حدیث نمبر: 1991
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے، پھر اپنے لشکروں کو دنیا میں فساد کرنے کو بھیجتا ہے۔ پس سب سے بڑا فتنہ باز اس کا سب سے زیادہ قریبی ہوتا ہے۔ کوئی شیطان ان میں سے آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں کام کیا (یعنی فلاں سے چوری کرائی، فلاں کو شراب پلوائی وغیرہ) تو شیطان کہتا ہے کہ تو نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر کوئی آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں کو نہ چھوڑا، یہاں تک کہ اس میں اور اس کی بیوی میں جدائی کرا دی۔ تو اس کو اپنے قریب کر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں تو نے بڑا کام کیا ہے۔ اعمش نے کہا، میرا خیال ہے کہ اس کو اپنے ساتھ چمٹا لیتا ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1991]
5. فتنے اور ان کی کیفیات کے متعلق۔
حدیث نمبر: 1992
ابو ادریس خولانی کہتے ہیں کہ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں سب لوگوں سے زیادہ ہر فتنہ کو جانتا ہوں جو میرے درمیان اور قیامت کے درمیان ہونے والا ہے۔ اور یہ بات نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپا کر کوئی بات خاص مجھ سے بیان کی ہو جو اوروں سے نہ کی ہو، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں فتنوں کا بیان کیا جس میں میں بھی تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان فتنوں کا شمار کرتے ہوئے فرمایا: تین ان میں سے ایسے ہیں جو قریب قریب کچھ نہ چھوڑیں گے اور ان میں سے بعض گرمی کی آندھیوں کی طرح ہیں، بعض ان میں چھوٹے ہیں اور بعض بڑے ہیں۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (اب) میرے سوا اس مجلس کے سب لوگ فوت ہو چکے ہیں۔ ایک میں باقی ہوں (اس وجہ سے اب مجھ سے زیادہ کوئی فتنوں کا جاننے والا باقی نہ رہا)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1992]
حدیث نمبر: 1993
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ہم میں (وعظ سنانے کو) کھڑے ہوئے تو کوئی بات نہ چھوڑی جو اس وقت سے لے کر قیامت تک ہونے والی تھی مگر اس کو بیان کر دیا۔ پھر یاد رکھا جس نے رکھا اور بھول گیا جو بھول گیا۔ میرے ساتھی اس کو جانتے ہیں اور بعض بات ہوتی ہے جس کو میں بھول گیا تھا، پھر جب میں اس کو دیکھتا ہوں تو یاد آجاتی ہے جیسے آدمی دوسرے آدمی کی عدم موجودگی میں اس کا چہرہ یاد رکھتا ہے، پھر جب اس کو دیکھے تو پہچان لیتا ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1993]
حدیث نمبر: 1994
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک بات بتا دی جو قیامت تک ہونے والی تھی اور کوئی بات ایسی نہ رہی جس کو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پوچھا ہو، البتہ میں نے یہ نہ پوچھا کہ مدینہ والوں کو مدینہ سے کون سی چیز نکالے گی۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1994]
حدیث نمبر: 1995
سیدنا ابوزید (یعنی عمرو بن اخطب) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر چڑھ کر ہمیں وعظ سنایا، یہاں تک کہ ظہر کا وقت آ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور نماز پڑھی۔ پھر منبر پر چڑھے اور ہمیں وعظ سنایا، یہاں تک کہ عصر کا وقت آ گیا۔ پھر اترے اور نماز پڑھی۔ پھر منبر پر چڑھے اور ہمیں وعظ سنایا، یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔ پس جو کچھ ہو چکا ہے اور جو کچھ ہونے والا تھا، سب کی ہمیں خبر دے دی۔ اور ہم میں سب سے زیادہ وہ عالم ہے جس نے سب سے زیادہ ان باتوں کو یاد رکھا ہو۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1995]
6. فتنوں کے بیان میں اور جو ان سے محفوظ رہے گا یا جوان فتنوں کو یاد رکھے گا۔
حدیث نمبر: 1996
محمد (ابن سیرین) کہتے ہیں کہ جندب نے کہا کہ میں نے یوم الجرعہ (یعنی جس دن جرعہ میں فساد ہونے والا تھا، اور جرعہ کوفہ میں ایک مقام ہے جہاں کوفہ والے سعید بن عاص سے لڑنے کے لئے جمع ہوئے تھے جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو کوفہ کا حاکم بنا کر بھیجا تھا) کو ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو کہا کہ آج تو یہاں کئی خون ہوں گے۔ وہ شخص بولا کہ ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! خون نہ ہوں گے۔ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! خون ضرور ہوں گے وہ بولا کہ اللہ کی قسم! ہرگز خون نہ ہوں گے۔ میں نے کہا اللہ کی قسم! ضرور قتل ہوں گے۔ اس نے کہا اللہ کی قسم! ہرگز قتل نہ ہوں گے، اور میں نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمائی تھی۔ میں نے کہا کہ تو آج میرا برا ساتھی ہے، اس لئے کہ تو سنتا ہے میں تیرا خلاف کر رہا ہوں اور تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے اور مجھے منع نہیں کرتا۔ پھر میں نے کہا کہ اس غصے سے کیا فائدہ؟ اور میں اس شخص کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول ہیں۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1996]