1. اللہ تعالیٰ کے قول: ”ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے“ کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 1838
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مشرکین قریش تقدیر کے بارے میں جھگڑتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو یہ آیت اتری کہ ”جس دن اوندھے منہ جہنم میں گھسیٹے جائیں گے (اور کہا جائے گا کہ) اب جہنم (کی آگ) کا لگنا چکھو۔ ہم نے ہر چیز کو تقدیر کے ساتھ پیدا کیا ہے“(القمر: 48-49)۔ (اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں قدر سے یہی تقدیر مراد ہے اور بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ ہم نے ہر چیز کو اس کے اندازے پر پیدا کیا یعنی جتنا مناسب تھا)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1838]
2. ہر چیز تقدیر سے ہے یہاں تک کہ عاجزی اور دانائی بھی۔
حدیث نمبر: 1839
طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ کو پایا وہ کہتے تھے کہ ہر چیز تقدیر سے ہے اور میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ہر چیز تقدیر سے ہے یہاں تک کہ عاجزی اور دانائی بھی (یعنی بعض آدمی ہوشیار اور عقلمند ہوتے ہیں اور بعض بیوقوف اور کاہل ہوتے ہیں یہ بھی تقدیر سے ہے)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1839]
3. طاقت (کا مظاہرہ کرنے) کا حکم اور (اپنے کو) عاجز ظاہر کرنے سے پرہیز کرنے کا حکم۔
حدیث نمبر: 1840
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک طاقتور مومن ضعیف مومن سے زیادہ اچھا اور محبوب ہے اور ہر ایک میں خیر اور بھلائی ہے۔ تم ان کاموں کی حرص کرو جو تمہارے لئے مفید ہیں۔ (یعنی آخرت میں کام دیں) اور اللہ سے مدد مانگو اور ہمت نہ ہارو اور جو تجھ پر کوئی مصیبت آئے تو یوں مت کہہ کہ اگر میں ایسا کرتا یا ایسا کرتا تو یہ مصیبت نہ آتی، لیکن یوں کہو کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں ایسا ہی تھا جو اس نے چاہا کیا اور اگر مگر کرنا شیطان کے لئے راہ کھولنا ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1840]
4. پیدائش سے پہلے قدیر کا لکھا جانا۔
حدیث نمبر: 1841
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر کو آسمان اور زمین کے بنانے سے پچاس ہزار برس پہلے لکھا اور اس وقت اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1841]
5. تقدیر کے ثبوت میں اور سیدنا آدم اور سیدنا موسیٰ علیہما السلام کی آپس میں بحث کا بیان۔
حدیث نمبر: 1842
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم اور موسیٰ علیہما السلام نے اپنے رب کے پاس بحث کی تو آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب ہوئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم وہی آدم ہو جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا، اپنی روح تم میں پھونکی اور تمہیں فرشتوں سے سجدہ کرایا (یعنی سلامی کا سجدہ نہ کہ عبادت کا اور سلامی کا سجدہ اس وقت جائز تھا اور ہمارے دین میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ کرنا حرام ہو گیا) اور تمہیں اپنی جنت میں رہنے کو جگہ دی، پھر تم نے اپنی خطا کی وجہ سے لوگوں کو زمین پر اتار دیا۔ آدم علیہ السلام نے کہا کہ تم وہ موسیٰ ہو جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغمبر کر کے اور کلام کر کے چن لیا اور تمہیں اللہ تعالیٰ نے تورات شریف کی تختیاں دیں جن میں ہر بات کا بیان ہے اور تمہیں سرگوشی کے لئے اپنے نزدیک کیا اور تم کیا سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تورات کو میرے پیدا ہونے سے کتنی مدت پہلے لکھا ہے؟ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ چالیس برس۔ آدم علیہ السلام نے کہا کہ تم نے تورات میں نہیں پڑھا کہ ”آدم نے اپنے رب کے فرمان کے خلاف کیا اور بھٹک گیا“۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ کیوں نہیں میں نے پڑھا ہے۔ آدم علیہ السلام نے کہا کہ پھر تم مجھے اس کام کے کرنے پر ملامت کرتے ہو جو اللہ عزوجل نے میری تقدیر میں میرے پیدا ہونے سے چالیس برس پہلے لکھ دیا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پس آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1842]
6. مقادیر کے سبقت لے جانے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان: ((ونفس و ما سواھا ....)) کی تفسیر کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 1843
ابی الاسود دئلی کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تو کیا سمجھتا ہے کہ آج جس کے لئے لوگ عمل کر رہے ہیں اور محنت اور مشقت اٹھا رہے ہیں، آیا وہ بات فیصلہ پا چکی اور گزر گئی اگلی تقدیر کی رو سے یا آگے ہونے والی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے اور حجت سے؟ میں نے کہا کہ وہ بات فیصلہ پا چکی اور گزر گئی۔ عمران نے کہا کہ کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ (اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے جب کسی کی تقدیر میں جہنمی ہونا لکھ دیا تو پھر وہ اس کے خلاف کیونکر عمل کر سکتا ہے) یہ سن کر میں بہت گھبرایا اور میں نے کہا کہ یہ ظلم اس وجہ سے نہیں ہے کہ ہر ایک چیز اللہ کی بنائی ہوئی ہے اور اسی کی ملک ہے، اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا اور ان (لوگوں) سے پوچھا جائے گا۔ عمران نے کہا کہ اللہ تجھ پر رحم کرے، میں نے یہ اس لئے پوچھا کہ تیری عقل کو آزماؤں۔ مزینہ قبیلہ کے دو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کیا فرماتے ہیں کہ آج جس کے لئے لوگ عمل کر رہے ہیں اور محنت اٹھا رہے ہیں، آیا فیصلہ ہو چکا اور تقدیر میں وہ بات گزر چکی یا آئندہ ہونے والا ہے اس حکم کی رو سے جس کو پیغمبر لے کر آئے اور ان پر حجت ثابت ہو چکی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ اس بات کا فیصلہ ہو چکا اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب سے ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ”قسم ہے جان کی اور قسم اس کی جس نے اس کو بنایا، پھر اس کو برائی اور بھلائی بتا دی“(الشمس: 7-8)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1843]
7. تقدیر، بدبختی اور نیک بختی کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 1844
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم بقیع میں ایک جنازہ کے ساتھ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چھڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر جھکا کر بیٹھے اور چھڑی سے زمین پر لکیریں کرنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے کوئی جان ایسی نہیں ہے جس کا ٹھکانہ اللہ نے جنت میں یا جہنم میں نہ لکھ دیا ہو اور یہ نہ لکھ دیا ہو کہ وہ نیک بخت ہے یا بدبخت ہے۔ ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہ! پھر ہم اپنے لکھے پر کیوں بھروسہ نہ کریں اور عمل کو چھوڑ دیں (یعنی تقدیر کے روبرو عمل کرنا بےفائدہ ہے جو قسمت میں ہے وہ ضرور ہو گا)؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو نیک بختوں میں سے ہے وہ نیکوں والے کام کی طرف چلے گا اور جو بدبختوں میں سے ہے وہ بدبختوں والے کاموں کی طرف چلے گا۔ اور فرمایا کہ عمل کرو۔ ہر ایک کو آسانی دی گئی ہے لیکن نیکوں کے لئے آسان کیا جائے گا نیکوں کے اعمال کرنا اور بدوں کے لئے آسان کیا جائے گا بدوں کے اعمال کرنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی کہ ”پس جس نے خیرات کی اور ڈرا اور بہتر دین (یعنی اسلام) کو سچا جانا، پس اس پر ہم نیکی کرنا آسان کر دیں گے اور جو بخیل ہوا اور بےپرواہ بنا اور نیک دین کو اس نے جھٹلایا تو ہم اس پر کفر کی سخت راہ کو آسان کر دیں گے“(اللیل: 5...10)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1844]
8. (جن) اعمال (پر انسان کی زندگی کا) خاتمہ (ہوا، ان) کے متعلق۔
حدیث نمبر: 1845
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی مدت تک اچھے کام کیا کرتا ہے (یعنی جنتیوں کے کام)، پھر اس کا خاتمہ دوزخیوں کے کام پر ہوتا ہے اور آدمی مدت تک جہنمیوں کے کام کرتا ہے، پھر اس کا خاتمہ جنتیوں کے کام پر ہوتا ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1845]
9. اجل مقرر ہو چکی ہیں اور رزق تقسیم ہو چکے ہیں۔
حدیث نمبر: 1846
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یااللہ! تو مجھے میرے خاوند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، میرے باپ ابوسفیان رضی اللہ عنہ اور میرے بھائی معاویہ رضی اللہ عنہ سے فائدہ عطا کر۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تو نے اللہ تعالیٰ سے ان باتوں کے لئے کہا جن کی میعادیں مقرر ہیں، اور قدم تک جو چلیں لکھے ہوئے ہیں، اور روزیاں بٹی ہوئی ہیں ان میں سے کسی چیز کو اللہ اس کے وقت سے پہلے یا وقت کے بعد دیر سے کرنے والا نہیں ہے۔ اگر تو اللہ سے یہ مانگتی کہ تجھے جہنم کے عذاب سے یا قبر کے عذاب سے بچائے تو بہتر ہوتا۔ ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہ! بندر اور سؤر ان لوگوں میں سے ہیں جو مسخ ہوئے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جس قوم کو ہلاک کیا یا ان کو عذاب دیا ان کی نسل نہیں چلائی اور بندر اور سؤر تو ان لوگوں سے پہلے موجود تھے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1846]
10. (انسانی) پیدائش کس طرح ہوتی ہے اور شقاوت اور سعادت کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 1847
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (صادق المصدوق) سچے ہیں اور سچے کئے گئے ہیں (فرمایا کہ) بیشک تم میں سے ہر ایک آدمی کا نطفہ اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع رہتا ہے، پھر چالیس دن جمے ہوئے خون کی شکل میں رہتا ہے، پھر چالیس دن میں گوشت کی بوٹی بن جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کی طرف فرشتے کو بھیجتا ہے، وہ اس میں روح پھونکتا ہے اور اس کو چار باتوں کا حکم ہوتا ہے۔ ایک تو اس کی روزی لکھنا (یعنی محتاج ہو گا یا مالدار)، دوسرے اس کی عمر لکھنا (کہ کتنا جئے زندہ رہے گا)، اور تیسرے اس کا عمل لکھنا (کہ کیا کیا کرے گا) اور یہ لکھنا کہ نیک بخت (جنتی) ہو گا یا بدبخت (جہنمی) ہو گا۔ پس میں قسم کھاتا ہوں اس کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کہ بیشک تم لوگوں میں سے کوئی اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس میں اور بہشت میں بالشت بھر کا فاصلہ رہ جاتا ہے (یعنی بہت قریب ہو جاتا ہے) پھر تقدیر کا لکھا اس پر غالب ہو جاتا ہے، پس وہ دوزخیوں کے کام کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں چلا جاتا ہے۔ اور کوئی آدمی عمر بھر دوزخیوں کے کام کیا کرتا ہے، یہاں تک کہ دوزخ میں اور اس میں سوائے ایک ہاتھ بھر کے کچھ فرق نہیں رہتا کہ تقدیر کا لکھا اس پر غالب ہوتا ہے، پس وہ بہشتیوں کے کام کرنے لگتا ہے اور پھر بہشت میں چلا جاتا ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1847]