الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


مختصر صحيح مسلم کل احادیث (2179)
حدیث نمبر سے تلاش:

مختصر صحيح مسلم
دیگر صحابہ کی فضیلت کا بیان
3. سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1639
فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقعہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو (مدینہ میں) خلیفہ بنایا، تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوتے کہ تمہارا درجہ میرے پاس ایسا ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے پاس ہارون علیہ السلام کا تھا، لیکن میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1639]
حدیث نمبر: 1640
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی لڑائی کے دن فرمایا کہ میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح دے گا اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ اور اللہ کے رسول اس کو چاہتے ہوں گے۔ پھر رات بھر لوگ ذکر کرتے رہے کہ دیکھیں یہ شان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس کو دیتے ہیں۔ جب صبح ہوئی تو سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہی امید لئے آئے کہ یہ جھنڈا مجھے ملے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان کی آنکھیں دکھتی ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا بھیجا اور ان کی آنکھوں میں تھوک لگایا اور ان کے لئے دعا کی تو وہ بالکل اچھے ہو گئے گویا ان کو کوئی تکلیف نہ تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جھنڈا دیا۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں ان سے لڑوں گا یہاں تک کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) ہو جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آہستہ چلتا جا، یہاں تک کہ ان کے میدان میں اترے، پھر ان کو اسلام کی طرف بلا اور ان کو بتا جو اللہ کا حق ان پر واجب ہے۔ اللہ کی قسم اگر اللہ تعالیٰ تیری وجہ سے ایک شخص کو ہدایت کرے تو وہ تیرے لئے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1640]
حدیث نمبر: 1641
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کی اولاد میں سے ایک شخص حاکم ہوا تو اس نے سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کو بلایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالی دینے کا حکم دیا۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے انکار کیا تو وہ شخص بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ کہ ابوتراب پر اللہ کی لعنت ہو۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ابوتراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا اور وہ اس نام کے ساتھ پکارنے والے شخص سے خوش ہوتے تھے۔ وہ شخص بولا کہ اس کا قصہ بیان کرو کہ ان کا نام ابوتراب کیوں ہوا؟ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہ پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟ وہ بولیں کہ مجھ میں اور ان میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ غصہ ہو کر چلے گئے اور یہاں نہیں سوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ آیا اور بولا کہ یا رسول اللہ! علی مسجد میں سو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، وہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر ان کے پہلو سے الگ ہو گئی تھی اور (ان کے بدن سے) مٹی لگ گئی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی پونچھنا شروع کی اور فرمانے لگے کہ اے ابوتراب! اٹھ۔ اے ابوتراب! اٹھ۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1641]
4. سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1642
ابوعثمان کہتے ہیں کہ ان دنوں میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کافروں سے) لڑتے تھے بعض دن کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ رہا سوائے سیدنا طلحہ اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہما کے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1642]
5. سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1643
محمد بن منکدر سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے دن لوگوں کو جہاد کی ترغیب دی۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ حاضر اور مستعد ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا تو سیدنا زبیر ہی نے جواب دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا تو سیدنا زبیر ہی نے جواب دیا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر پیغمبر کا ایک خاص ساتھی ہوتا ہے اور میرا خاص ساتھی زبیر ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1643]
حدیث نمبر: 1644
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور عمر بن ابی سلمہ خندق کے دن عورتوں کے ساتھ حسان بن ثابت کے قلعہ میں تھے تو کبھی وہ میرے لئے جھک جاتا اور میں دیکھتا اور کبھی میں اس کے لئے جھک جاتا اور وہ دیکھتا۔ میں نے اپنے باپ کو اس وقت پہچان لیا جب وہ گھوڑے پر ہتھیار باندھے ہوئے بنی قریظہ کی طرف نکلے۔ پھر میں نے اپنے والد سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا تم نے مجھے دیکھا تھا؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے اپنے ماں باپ کو جمع کر دیا اور فرمایا کہ تجھ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1644]
حدیث نمبر: 1645
سیدنا عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مجھے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم تمہارے دونوں باپ (یعنی زبیر اور ابوبکر) ان لوگوں میں سے تھے جن کا ذکر اس آیت میں ہے یعنی جن لوگوں نے زخمی ہونے کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی (سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ عروہ کے نانا تھے اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ باپ تھے۔ لیکن نانا کو بھی باپ کہتے ہیں)۔ اور ایک روایت میں ہے یعنی ابوبکر اور زبیر رضی اللہ عنہما۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1645]
6. سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1646
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حراء پہاڑ پر تھے۔ اس (پہاڑ) کا پتھر ہلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تھم جا اے حراء! تیرے اوپر نہیں ہے مگر نبی یا صدیق یا شہید اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابوبکر اور عمر اور علی اور عثمان اور طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم تھے۔ (نبی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود تھے اور صدیق سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور باقی سب شہید ہوئے ظلم سے مارے گئے، یہاں تک کہ سیدنا طلحہ اور زبیر بھی)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1646]
7. سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1647
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات (کسی جنگ سے واپس آتے ہوئے) مدینہ کے راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی اور نیند اچاٹ ہو گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاش میرے اصحاب میں سے کوئی نیک بخت رات بھر میری حفاظت کرے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اتنے میں ہمیں ہتھیاروں کی آواز معلوم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون ہے؟ آواز آئی کہ یا رسول اللہ! سعد بن ابی وقاص ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کیوں آئے؟ وہ بولے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے نفس میں ڈر ہوا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنے کو آیا ہوں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی اور پھر سو رہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1647]
حدیث نمبر: 1648
سیدنا عامر بن سعد اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن اپنے والدین کو ان کے لئے جمع کیا۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مشرکوں میں سے ایک شخص تھا جس نے بہت سے مسلمانوں کو جلا دیا تھا (یعنی بہت سے مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے سعد تیر چلاؤ تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں میں نے اس کے لئے ایک تیر نکالا جس میں پیکان نہ تھا وہ اس کی پسلی میں لگا اور وہ (مشرک) گر گیا تو اس کی شرمگاہ کھل گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر ہنسے، یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک کو دیکھا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1648]

Previous    1    2    3    4    5    6    Next