سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سو تیس آدمی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کسی پاس کھانا ہے؟ ایک شخص کے پاس ایک صاع اناج نکلا یا تھوڑا کم یا زیادہ۔ پھر وہ سب گوندھا گیا۔ پھر ایک مشرک آیا، جس کے بال بکھرے ہوئے تھے لمبا بکریاں لے کر ہانکتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو (بکری) بیچتا ہے یا ہدیہ دیتا ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں بیچتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک بکری خریدی تو اس کا گوشت تیار کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کلیجی بھوننے کا حکم دیا۔ راوی نے کہا کہ اللہ کی قسم ان ایک سو تیس آدمی میں سے کوئی نہ رہا جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کلیجی میں سے کچھ جدا نہ کیا ہو، اگر وہ موجود تھا تو اس کو دیدیا اور (اگر موجود نہ تھا تو) اس کا حصہ رکھ دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو پیالوں میں گوشت نکالا، پھر ہم سب نے ان میں سے کھایا اور سیر ہو گئے بلکہ پیالوں میں کچھ بچ رہا، اس کو میں نے اونٹ پر لاد لیا یا ایسا ہی کہا (اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو معجزے ہیں ایک تو کلیجی میں برکت اور دوسرے بکری میں برکت)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1533]
حدیث نمبر: 1534
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اصحاب صفہ محتاج لوگ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فرمایا کہ جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تین کو لے جائے۔ اور جس کے پاس چار کا ہو وہ پانچویں یا چھٹے کو بھی لے جائے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تین آدمیوں کو لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس آدمیوں کو لے گئے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال بھی دس کے قریب تھے تو گویا آدھا کھانا مہمانوں کے لئے ہوا)۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمارے گھر میں کوئی نہیں تھا سوائے میرے باپ اور میری ماں کے۔ راوی نے کہا کہ شاید اپنی بیوی کا بھی کہا اور ایک خادم جو میرے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھا۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رات کا کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھایا، پھر وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ عشاء کی نماز پڑھی گئی۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ گئے اور وہیں رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ غرض بڑی رات گزرنے کے بعد جتنی اللہ تعالیٰ کو منظور تھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ گھر آئے اور ان کی بیوی نے کہا کہ تم اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر کہاں رہ گئے تھے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا؟ انہوں نے کہا کہ مہمانوں نے تمہارے آنے تک نہیں کھایا اور انہوں نے مہمانوں کے سامنے کھانا پیش کیا تھا لیکن مہمان ان پر نہ کھانے میں غالب ہوئے۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ناراضگی کے ڈر سے) چھپ گیا تو انہوں نے مجھے پکارا کہ اے سست مجہول یا احمق! تیری ناک کٹے اور مجھے برا کہا اور مہمانوں سے کہا کہ کھاؤ اگرچہ یہ کھانا خوشگوار نہیں ہے (کیونکہ بے وقت ہے)۔ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اللہ کی قسم میں اس کو کبھی بھی نہ کھاؤں گا۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم جو لقمہ اٹھاتے نیچے وہ کھانا اتنا ہی بڑھ جاتا، یہاں تک کہ ہم سیر ہو گئے اور کھانا جتنا پہلے تھا اس سے بھی زیادہ ہو گیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کھانے کو دیکھا کہ وہ اتنا ہی ہے یا زیادہ ہو گیا ہے تو انہوں نے اپنی عورت سے کہا کہ اے بنی فراس کی بہن (ان کا نام ام رومان تھا اور بنی فراس ان کا قبیلہ تھا) یہ کیا ہے؟ وہ بولی کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی) کہ یہ تو پہلے سے بھی زیادہ ہے تین حصے زیادہ ہے (یہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کرامت تھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولیاء سے کرامت ظاہر ہو سکتی ہے)۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کھایا اور کہا کہ میں نے جو قسم کھائی تھی وہ (غصے میں) شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر ایک لقمہ اس میں سے کھایا، اس کے بعد وہ کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ میں بھی صبح کو وہیں تھا اور ہمارے اور ایک قوم کے درمیان عقد تھا (یعنی صلح کا اقرار تھا)، پس اقرار کی مدت گزر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ آدمی ہمارے افسر کئے اور ہر ایک کے ساتھ لوگ تھے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہر ایک کے ساتھ کتنے لوگ تھے۔ پھر وہ کھانا ان کے ساتھ کر دیا اور سب لوگوں نے اس میں سے کھایا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1534]
9. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے دودھ میں برکت۔
حدیث نمبر: 1535
سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے دونوں ساتھی آئے اور (فاقہ وغیرہ کی) تکلیف سے ہماری آنکھوں اور کانوں کی قوت جاتی رہی تھی۔ ہم اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر پیش کرتے تھے لیکن کوئی ہمیں قبول نہ کرتا تھا۔ آخر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے گھر لے گئے۔ وہاں تین بکریاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا دودھ دوہو، ہم تم سب پئیں گے پھر ہم ان کا دودھ دوہا کرتے اور ہم میں سے ہر ایک اپنا حصہ پی لیتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ رکھ چھوڑتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تشریف لاتے اور ایسی آواز سے سلام کرتے جس سے سونے والا نہ جاگے اور جاگنے والا سن لے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آتے، نماز پڑھتے، پھر اپنے دودھ کے پاس آتے اور اس کو پیتے۔ ایک رات جب میں اپنا حصہ پی چکا تھا کہ شیطان نے مجھے بھڑکایا۔ شیطان نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو انصار کے پاس جاتے ہیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفے دیتے ہیں اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرورت ہے، مل جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ایک گھونٹ دودھ کی کیا ضرورت ہو گی؟ آخر میں آیا اور وہ دودھ پی گیا۔ جب دودھ پیٹ میں سما گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اب وہ دودھ نہیں ملنے کا تو اس وقت شیطان نے مجھے ندامت کی اور کہنے لگا کہ تیری خرابی ہو تو نے کیا کام کیا؟ تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ پی لیا، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے اور دودھ کو نہ پائیں گے تو تجھ پر بددعا کریں گے اور تیری دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوں گی۔ میں ایک چادر اوڑھے ہوئے تھا جب اس کو پاؤں پر ڈالتا تو سر کھل جاتا اور جب سر ڈھانپتا تو پاؤں کھل جاتے تھے اور مجھے نیند بھی نہ آ رہی تھی جبکہ میرے ساتھی سو گئے اور انہوں نے یہ کام نہیں کیا تھا جو میں نے کیا تھا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور معمول کے موافق سلام کیا، پھر مسجد میں آئے اور نماز پڑھی، اس کے بعد دودھ کے پاس آئے، برتن کھولا تو اس میں کچھ نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا میں سمجھا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بددعا کرتے ہیں اور میں تباہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! کھلا اس کو جو مجھے کھلائے اور پلا اس کو جو مجھے پلائے۔ یہ سن کر میں نے اپنی چادر کو مضبوط باندھا، چھری لی اور بکریوں کی طرف چلا کہ جو ان میں سے موٹی ہو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ذبح کروں۔ دیکھا تو اس کے تھن میں دودھ بھرا ہوا ہے۔ پھر دیکھا تو اور بکریوں کے تھنوں میں بھی دودھ بھرا ہوا ہے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کا ایک برتن لیا جس میں وہ دودھ نہ دوہتے تھے (یعنی اس میں دوہنے کی خواہش نہیں کرتے تھے)۔ اس میں میں نے دودھ دوہا، یہاں تک کہ اوپر جھاگ آ گیا (اتنا بہت دودھ نکلا) اور میں اس کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اپنے حصے کا دودھ رات کو پیا یا نہیں؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ دودھ پیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پی کر مجھے دیا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اور پیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور پیا۔ پھر مجھے دیا، جب مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیر ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں نے لے لی ہے، تب میں ہنسا، یہاں تک کہ خوشی کے مارے زمین پر گر گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے مقداد! تو نے کوئی بری بات کی؟ وہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرا حال ایسا ہوا اور میں نے ایسا قصور کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت کا دودھ (جو خلاف معمول اترا) اللہ کی رحمت تھی۔ تو نے مجھ سے پہلے ہی کیوں نہ کہا ہم اپنے دونوں ساتھیوں کو بھی جگا دیتے کہ وہ بھی یہ دودھ پیتے؟ میں نے عرض کیا کہ قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا کلام دے کر بھیجا ہے کہ اب مجھے کوئی پرواہ نہیں جب آپ نے اللہ کی رحمت حاصل کر لی اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاصل کی تو کوئی بھی اس کو حاصل کرے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1535]
10. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے گھی میں برکت۔
حدیث نمبر: 1536
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام مالک رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپی میں بطور تحفہ کے گھی بھیجا کرتی تھیں، پھر اس کے بیٹے آتے اور اس سے سالن مانگتے اور گھر میں کچھ نہ ہوتا تو ام مالک رضی اللہ عنہا اس کپی کے پاس جاتی، تو اس میں گھی ہوتا۔ اسی طرح ہمیشہ اس کے گھر کا سالن قائم رہتا۔ ایک بار ام مالک نے (حرص کر کے) اس کپی کو نچوڑ لیا، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا کہ کیا تم نے اس کو نچوڑ لیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو اس کو یوں ہی رہنے دیتی (اور ضرورت کے وقت لیتی) تو وہ ہمیشہ قائم رہتا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1536]
11. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درخت کا تابع فرمان ہو جانا۔
حدیث نمبر: 1537
سیدنا عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے کہ میں اور میرا والد حصول علم کی غرض سے قبیلہ انصار کی طرف نکلے مبادا یہ کہ ان کا کوئی فرد باقی نہ رہے (فوت ہو جائیں یا ادھر ادھر ہجرت کر جائیں)۔ چنانچہ سب سے پہلے ہم ابوالیسر سے ملے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے۔ ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا جو کتابوں (خطوں) کا ایک بنڈل لئے ہوئے تھا۔ اور ابوالیسر کے بدن پر ایک چادر تھی اور ایک معافری نامی ایک کپڑا تھا۔ ان کے غلام پر بھی ایک چادر تھی اور ایک معافری کپڑا تھا (یعنی مالک اور غلام دونوں ایک ہی طرح کا لباس پہنے ہوئے تھے)۔ میں نے ان سے کہا کہ اے چچا آپ کچھ رنجیدہ معلوم ہوتے ہیں۔ وہ بولے کہ بنی حرام قبیلے کے فلاں بن فلاں پر میرا قرض آتا تھا، میں اس کے گھر والوں کے پاس گیا، سلام کیا اور پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ہے۔ اتنے میں اس کا ایک نوجوان بیٹا باہر نکلا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تیرا باپ کہاں ہے؟ وہ بولا کہ آپ کی آواز سن کر میری ماں کے چھپر گھٹ میں گھس گیا ہے۔ تب میں نے آواز دی اور کہا کہ اے فلاں! باہر نکل مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ تو کہاں ہے۔ یہ سن کر وہ باہر نکلا۔ میں نے کہا کہ تو مجھ سے چھپ کیوں رہا ہے؟ وہ بولا کہ اللہ کی قسم میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا، اللہ کی قسم میں ڈرا کہ آپ سے جھوٹ بات کروں یا وعدہ کروں اور اس کے خلاف کروں اور تم صحابی رسول ہو، اور اللہ کی قسم میں محتاج ہوں۔ میں نے اللہ کی قسم دے کر پوچھا کہ کیا تم واقعی محتاج ہو؟ تو اس نے اللہ کی قسم کھائی اور کہا کہ میں محتاج ہوں۔ میں نے پھر قسم دے کر پوچھا تو اس نے پھر قسم کھائی، میں نے پھر قسم دی تو اس نے پھر اللہ کی قسم کھائی۔ پھر اس کا وثیقہ یا نوشتہ (قرض نامہ) لایا گیا۔ ابوالیسر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دیا اور کہا کہ اگر تیرے پاس روپیہ آئے تو ادا کرنا وگرنہ تو آزاد ہے۔ پس میں گواہی دیتا ہوں، میری ان دونوں آنکھوں کی بصارت نے دیکھا اور ابوالیسر رضی اللہ عنہ نے اپنی دونوں انگلیاں اپنی آنکھوں پر رکھیں اور میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا اور ابوالیسر رضی اللہ عنہ نے اپنے دل کی رگ کی طرف اشارہ کیا (اور کہا) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو شخص کسی تنگدست کو مہلت دے یا قرض معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایہ میں رکھے گا۔ عبادہ نے کہا کہ میں نے ان سے کہا کہ اے چچا اگر تم اپنے غلام کی چادر لے لو اور اپنا معافری کپڑا اس کو دے دو، تو تمہارے پاس بھی ایک جوڑا پورا ہو جائے گا اور اس کے پاس بھی ایک جوڑا ہو جائے گا۔ ابوالیسر رضی اللہ عنہ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا یا اللہ اس لڑکے کو برکت دے، اے میرے بھتیجے! میری ان دونوں آنکھوں نے دیکھا اور ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے اس دل نے یاد رکھا اور اپنے دل کی رگ کی طرف اشارہ کیا (اور کہا) کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ لونڈی اور غلام کو کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو تم پہنتے ہو۔ پھر اگر میں اس کو دنیا کا سامان دے دوں تو وہ میرے نزدیک اس سے آسان ہے کہ وہ قیامت کے دن میری نیکیاں لے لے۔ عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا پھر ہم چلے یہاں تک کہ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی مسجد میں پہنچے، وہ ایک کپڑا لپیٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا ان کے اور قبلہ کے درمیان میں جا بیٹھا۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے، آپ ایک کپڑے میں نماز پڑھتے ہیں حالانکہ آپ کی (دوسری) چادر آپ کے پہلو میں رکھی ہے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے میرے سینے پر اس طرح سے اشارہ کیا، انگلیوں کو کشادہ رکھتے ہوئے انہیں کمان کی طرح خم کیا اور کہا کہ میں نے یہ چاہا کہ تیری مانند کوئی احمق میرے پاس آئے، پھر وہ مجھے دیکھے جو میں کرتا ہوں اور ویسا ہی کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اس مسجد میں آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ابن طاب (کھجور) کی ایک چھڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلہ کی طرف بلغم دیکھا (کسی نے تھوکا تھا)، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لکڑی سے کھرچ ڈالا۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم میں سے کون یہ بات پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے منہ پھیر لے؟ ہم یہ سن کر ڈر گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کون یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے منہ پھیر لے؟ ہم یہ سن کر ڈر گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کون یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے منہ پھیر لے؟ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم میں سے تو کوئی بھی یہ نہیں چاہتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی تم میں سے نماز میں کھڑا ہو تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے منہ کے سامنے ہوتا ہے (نووی نے کہا یعنی جہت جس کو اللہ تعالیٰ نے عظمت دی یا کعبہ)، تو اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے اور نہ داہنی طرف بلکہ بائیں طرف بائیں پاؤں کے نیچے (تھوکے)۔ اگر بلغم جلدی نکلنا چاہے تو اپنے کپڑے میں تھوک کر ایسا کر لے، پھر اپنے کپڑے کو تہہ در تہہ لپیٹا۔ اس کے بعد فرمایا کہ میرے پاس خوشبو لاؤ۔ ہمارے قبیلے کا ایک جوان لپکا اور دوڑتا ہوا اپنے گھر میں گیا اور اپنی ہتھیلی میں خوشبو لے آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خوشبو کو لکڑی کی نوک پر لگایا اور جہاں اس بلغم کا نشان مسجد پر تھا وہاں خوشبو لگا دی۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس حدیث سے تم اپنی مسجدوں میں خوشبو رکھتے ہو۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بطن بواط کی لڑائی میں چلے (وہ جہینہ کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجدی بن عمرو جہنی کی تلاش میں تھے (جو ایک کافر تھا) اور ہم لوگوں کا یہ حال تھا کہ پانچ اور چھ اور سات آدمیوں میں ایک اونٹ تھا، جس پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ چنانچہ ایک انصاری کی باری آئی، اس نے اونٹ کو بٹھایا، اس پر چڑھا، پھر اس کو اٹھایا تو اونٹ کچھ اڑا۔ وہ انصاری بولا ”شائ“(یہ کلمہ ہے اونٹ کو ڈانٹنے کا) اللہ تجھ پر لعنت کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کون ہے جو اپنے اونٹ پر لعنت کرتا ہے؟ وہ انصاری بولا کہ میں ہوں یا رسول اللہ!۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس اونٹ پر سے اتر جا اور ہمارے ساتھ وہ نہ رہے جس پر لعنت کی گئی ہو۔ اپنی جانوں، اپنی اولاد اور اپنے مالوں کے لئے بددعا نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ بددعا اس ساعت نکلے کہ جب اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگا جاتا ہے اور وہ قبول کر لیتا ہے (تو تمہاری بددعا بھی قبول ہو جائے اور تم پر آفت آ جائے)۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے، جب شام ہوئی اور عرب کے ایک چشمے کے قریب آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون شخص ہم لوگوں سے آگے بڑھ کر اس حوض کو درست کرے گا، خود بھی پیئے اور ہم کو بھی پلائے؟ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں وہ شخص ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کون شخص جابر کے ساتھ جائے گا؟ چنانچہ جبار بن صخر اٹھے۔ خیر ہم دونوں آدمی کنویں / چشمے کی طرف چلے اور حوض میں ایک یا دو ڈول ڈالے، پھر اس پر مٹی لگائی۔ اس کے بعد اس میں پانی بھرنا شروع کیا، یہاں تک کہ لبالب بھر دیا۔ سب سے پہلے ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دکھائی دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دونوں (مجھے اور میرے جانوروں کو پانی پینے پلانے کی) اجازت دیتے ہو؟ ہم نے عرض کیا ”جی ہاں یا رسول اللہ!“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی کو چھوڑا، اس نے پانی پیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی باگ کھینچی اس نے پانی پینا موقوف کیا اور پیشاب کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو الگ لے گئے اور بٹھا دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حوض کی طرف آئے، اس میں سے وضو کیا۔ میں بھی کھڑا ہوا اور جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تھا میں نے بھی وہیں سے وضو کیا۔ جبار بن صخر رضی اللہ عنہ قضائے حاجت کے لئے چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ میرے بدن پر ایک چادر تھی۔ میں اس کے دونوں کناروں کو الٹنے لگا، وہ چھوٹی ہوئی، اس (چادر) میں پھندے لگے تھے۔ آخر میں نے اس کو الٹا کیا، پھر اس کے دونوں کنارے الٹے، پھر اس کو اپنی گردن سے باندھا، اس کے بعد آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا، گھمایا اور داہنی طرف کھڑا کر لیا۔ پھر جبار بن صخر آئے، انہوں نے بھی وضو کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف (نماز پڑھنے کے لئے) کھڑے ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑے اور پیچھے ہٹا دیا یہاں تک کہ ہم کو اپنے پیچھے کھڑا کیا (معلوم ہوا کہ اتنا عمل نماز میں درست ہے)۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو گھورنا شروع کیا اور مجھ کو خبر نہیں۔ خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اپنی کمر باندھ لے (تاکہ ستر نہ کھلے)۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو کہا کہ اے جابر! میں نے عرض کیا کہ حاضر ہوں یا رسول اللہ!۔ آپ نے فرمایا جب چادر کشادہ ہو تو اس کے دونوں کنارے الٹ لے اور جب تنگ ہو تو اس کو کمر پر باندھ لے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے اور ہم میں سے ہر ایک شخص کو خوراک کے لئے ہر روز ایک کھجور ملتی تھی اور وہ اس کو چوس لیتا تھا۔ پھر اس کو اپنے دانتوں میں پھراتا۔ اور ہم اپنی کمانوں سے درخت کے پتے جھاڑتے اور ان کو کھاتے، یہاں تک کہ (گرمی، خشکی اور پتے کھاتے کھاتے) ہمارے منہ اندر سے زخمی ہو گئے۔ پھر ایک دن کھجور بانٹنے والا ایک شخص کو بھول گیا۔ ہم اس شخص کو اٹھا کر لے گئے اور گواہی دی کہ اس کو کھجور نہیں ملی۔ بانٹنے والے نے اس کو کھجور دی۔ وہ کھڑا ہو گیا اور کھجور لے لی۔ پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے، یہاں تک کہ ایک کشادہ وادی میں اترے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاجت کو تشریف لے گئے۔ ایک ڈول پانی لے کر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی آڑ نہ پائی۔ دیکھا تو دو درخت وادی کے کنارے پر لگے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے پاس گئے، اس کی ایک شاخ پکڑی، پھر (درخت سے) فرمایا کہ اللہ کے حکم سے میرا تابعدار ہو جا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تابعدار ہو گیا جیسے وہ اونٹ جس کی ناک میں نکیل ڈال دی جاتی ہے اور وہ اپنے کھینچے والے کا تابعدار ہو جاتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی بھی ایک شاخ پکڑی اور فرمایا کہ اللہ کے حکم سے میرا تابعدار ہو جا۔ وہ بھی اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہو گیا یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان درختوں کے درمیان میں پہنچے تو ان کو ایک ساتھ کر کے فرمایا کہ اللہ کے حکم سے میرے سامنے جڑ جاؤ، چنانچہ وہ دونوں درخت جڑ گئے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں دوڑتا ہوا نکلا اس ڈر سے کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو نزدیک دیکھیں اور زیادہ دور کہیں تشریف لے جائیں۔ میں بیٹھا اپنے دل میں باتیں کئے جا رہا تھا کہ اچانک میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سامنے سے تشریف لا رہے ہیں اور وہ دونوں درخت جدا ہو کر اپنی جڑ پر کھڑے ہو گئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کھڑے ہوئے اور سر سے اس طرح دائیں اور بائیں اشارہ کیا، پھر سامنے آئے۔ جب میرے پاس پہنچے تو فرمایا اے جابر! میں جہاں کھڑا تھا تو نے دیکھا؟ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ”جی ہاں یا رسول اللہ!“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ان دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ہر ایک میں سے ایک ایک شاخ کاٹ کر لے آؤ۔ جب اس جگہ پہنچے جہاں میں کھڑا ہوا تھا تو ایک شاخ اپنی داہنی طرف ڈال دے اور ایک ڈالی بائیں طرف۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں کھڑا ہوا اور ایک پتھر لیا، اس کو توڑ کر تیز کیا۔ وہ تیز ہو گیا تو ان دونوں درختوں کے پاس آیا اور ہر ایک میں سے ایک ایک شاخ کاٹی، پھر میں ان شاخوں کو کھینچتا ہوا اس جگہ پر لے آیا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرے تھے اور ایک شاخ داہنی طرف ڈال دی اور ایک شاخ بائیں طرف ڈال دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر مل گیا اور عرض کیا کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا وہ میں نے کر دیا، لیکن اس کی وجہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ وہاں دو قبریں ہیں، ان قبر والوں پر عذاب ہو رہا ہے تو میں نے چاہا کہ ان کی سفارش کروں، جب تک یہ شاخیں ہری رہیں گی شاید ان کے عذاب میں تخفیف ہو۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم لشکر میں آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جابر! لوگوں وضو کے پانی کے لئے آواز لگاؤ۔ میں نے تین دفعہ آواز دی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قافلہ میں ایک قطرہ پانی کا نہیں ہے۔ ایک انصاری مرد تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک مشک میں جو لکڑی کی شاخوں پر لٹکتی تھی، پانی ٹھنڈا کیا کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس انصاری کے پاس جاؤ اور دیکھو، کیا اس کی مشک میں کچھ پانی ہے؟ میں گیا، دیکھا تو مشک میں پانی نہیں، اس کے منہ میں صرف ایک قطرہ ہے کہ اگر اس کو انڈیلوں تو سوکھی مشک اس کو بھی پی لے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس مشک میں تو پانی نہیں ہے صرف ایک قطرہ اس کے منہ میں ہے، اگر میں اس کو انڈیلوں تو سوکھی مشک اس کو بھی پی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور اس مشک کو میرے پاس لے آؤ۔ میں اسی مشک کو لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے ہاتھ میں لیا، پھر زبان سے کچھ فرمانے لگے جس کو میں سمجھ نہ سکا اور مشک کو اپنے ہاتھ سے دباتے جاتے تھے۔ پھر وہ مشک میرے حوالے کی اور فرمایا کہ اے جابر آواز دے کہ قافلے کا گھڑا لاؤ (یعنی پانی والا بڑا برتن)۔ میں نے آواز دی وہ (برتن) لایا گیا۔ لوگ اس کو اٹھا کر لائے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وہ برتن رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس گھڑے میں پھیر کر اس طرح سے پھیلا کر انگلیوں کو کشادہ کیا، پھر اپنا ہاتھ اس کی تہہ میں رکھ دیا اور فرمایا اے جابر! وہ مشک لے اور میرے ہاتھ پر ڈال دے اور بسم اللہ کہہ کر ڈالنا۔ میں نے بسم اللہ کہہ کر وہ پانی ڈال دیا۔ پھر میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پانی جوش مار رہا تھا، یہاں تک کہ گھڑے نے جوش مارا اور گھوما اور بھر گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے جابر! آواز دے کہ جس کو پانی کی حاجت ہو (وہ آئے)۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا لوگ آئے، پانی لیا یہاں تک کہ سب سیر ہو گئے۔ میں نے کہا کوئی ایسا بھی رہا جس کو پانی کی ضرورت ہو؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ گھڑے سے اٹھا لیا اور وہ پانی سے بھرا ہوا تھا۔ اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریب ہے کہ اللہ تم کو کھلائے۔ پھر ہم دریا (یعنی سمندر) کے کنارے پر آئے۔ سمندر کی لہر نے جوش مارا اور ایک جانور باہر ڈال دیا۔ ہم نے اس کے کنارے آگ سلگائی اور اس جانور کا گوشت بھون کر پکایا اور سیر ہو کر کھایا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں اور فلاں فلاں پانچ آدمی اس کی آنکھ کے گولے میں گھس گئے، ہم کو کوئی نہ دیکھتا تھا یہاں تک کہ ہم باہر نکلے (اتنا بڑا جانور تھا)۔ پھر ہم نے اس کی پسلیوں میں سے پسلی لی اور قافلے میں سے اس شخص کو بلایا جو سب سے بڑا تھا اور سب سے بڑے اونٹ پر سوار تھا اور سب سے بڑا زین اس پر تھا تو وہ اپنا سر جھکائے بغیر اس پسلی کے نیچے سے گزر گیا (اتنی اونچی اس جانور کی پسلی تھی۔ بیشک اللہ اپنے راہ میں نکلنے والوں کو دیتا ہے)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1537]
12. چاند کا ٹوٹ کر دو ٹکڑے ہو جانا۔
حدیث نمبر: 1538
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں تھے کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا۔ ایک ٹکڑا تو پہاڑ کے اس طرف رہا اور ایک اس طرف چلا گیا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گواہ رہو۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1538]
حدیث نمبر: 1539
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مکہ والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نشانی چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دو حصوں میں چاند کا پھٹنا دکھایا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1539]
13. شر کے ارادے سے آنے والے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا محفوظ رہنا۔
حدیث نمبر: 1540
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوجہل نے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنا منہ تمہارے سامنے زمین پر رکھتے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ ابوجہل نے کہا کہ قسم لات اور عزیٰ کی کہ اگر میں ان کو اس حال (یعنی سجدہ) میں دیکھوں گا تو میں ان کی گردن روندوں گا یا منہ میں مٹی لگاؤں گا۔ پھر جب آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نماز پڑھ رہے تھے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس ارادہ سے آیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن روندے، تو لوگوں نے دیکھا کہ یکایک ہی ابوجہل الٹے قدموں پھر رہا ہے اور ہاتھ سے کسی چیز سے بچتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ تجھے کیا ہوا؟ وہ بولا کہ میں نے دیکھا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے درمیان میں آگ کی ایک خندق ہے اور خوف ہے اور (پر) بازور ہیں (وہ فرشتوں کے بازو، پر تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ میرے نزدیک آتا تو فرشتے اس کی بوٹی بوٹی، عضو عضو اچک لیتے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں کہ ”ہرگز نہیں، آدمی شرارت کرتا ہے۔ اس وجہ سے کہ اپنے آپ کو امیر سمجھتا ہے۔ آخر تجھے تیرے رب کی طرف جاناہے۔ کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جوا یک بندے کو نماز سے روکتا ہے؟ (معاذاللہ جو کسی مسلمان کو نماز سے منع کرے یا مسجد سے روکے تو وہ ابوجہل جیسا ہے) بھلا تو کیا سمجھتا ہے کہ اگر یہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) سیدھی راہ پر ہوتا اور اچھی بات کا حکم کرتا ہو؟ تو کیا سمجھتا ہے کہ اگر اس نے جھٹلایا اور پیٹھ پھیری؟ یہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ ہرگز نہیں اگر یہ (ان برے کاموں سے) باز نہ آئے گا تو ہم اس کو ماتھے کے بل گھسیٹیں گے اور اس کا ماتھا جھوٹا اور گنہگار ہے وہاں وہ اپنی قوم کو پکارے اور ہم فرشتوں کو بلائیں گے تو ہرگز اس کا کہنا نہ مان“(سورۃ: العلق: 13-6)۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس نے اس کو حکم دیا جس کا اس نے اس کو حکم دیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ پس چاہئے کہ اپنی قوم کو پکارے یعنی اپنی قوم کے لوگوں کو۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1540]
14. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا، قتل کے ارادے سے آنے والے (کے شر) سے محفوظ رہنا۔
حدیث نمبر: 1541
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کو گئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک وادی میں پایا جہاں کانٹے دار درخت بہت زیادہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے اترے اور اپنی تلوار ایک شاخ سے لٹکا دی اور لوگ اس وادی میں الگ الگ ہو کر سایہ ڈھونڈھتے ہوئے پھیل گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص میرے پاس آیا، میں سو رہا تھا کہ اس نے تلوار اتار لی اور میں جاگا تو وہ میرے سر پر کھڑا ہوا تھا۔ مجھے اس وقت خبر ہوئی جب اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار آ گئی تھی۔ وہ بولا کہ اب تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ میں نے کہا کہ اللہ! پھر دوسری بار اس نے یہی کہا تو میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ۔ یہ سن کر اس نے تلوار نیام میں کر لی۔ وہ شخص یہ بیٹھا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ بھی نہ کہا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1541]
15. زہر اور زہر ملی بکری (کا گوشت) کھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1542
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زہر ملا کر بکری کا گوشت لائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھایا۔ پھر وہ عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ تو نے کیا کیا؟ وہ بولی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مار ڈالنا چاہتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تجھے اتنی طاقت دینے والا نہیں (کہ تو اس کے پیغمبر کو ہلاک کر سکے)۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم اس کو قتل نہ کر دیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر رحم تھا اور اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر برحق تھے ورنہ اگر بادشاہ ہوتے تو اس عورت کو قتل کراتے) راوی نے کہا کہ میں ہمیشہ اس زہر کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلق کے کوے میں پاتا رہا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1542]